تحریریں

ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2022اور پاکستانی ٹیم

پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنا سفر 23 اکتوبر کو انڈیا کے خلاف میچ سے شروع کرے گی لیکن اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کہاں تک جا سکتی ہے؟ اور کیا یہ ٹیم فاتح بننے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

اس طرح کے سوالات کے جواب آسانی سے نہیں مل سکتے کیونکہ یہ معاملہ توقعات اور زمینی حقائق کا ہوتا ہے۔ شائقین ٹیم سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جبکہ ٹیم کی اپنی حالت اس کی کارکردگی سے مشروط ہوتی ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کے گروپ ٹو میں ہے جہاں اس کے ساتھ انڈیا، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور دو کوالیفائر ٹیمیں موجود ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ یہ کوالیفائر ٹیمیں ویسٹ انڈیز اور نمیبیا ہو سکتی ہیں۔

ہر گروپ سے چونکہ دو ٹیموں نے سیمی فائنل میں جگہ بنانی ہے لہذا گروپ ٹو میں اصل مقابلہ پاکستان، جنوبی افریقہ اور انڈیا کے درمیان ہوگا اور ان تین میں سے ایک ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو جائے گی۔

انڈیا اس وقت ٹی ٹوئنٹی کی عالمی نمبر ایک ٹیم ہے۔ گذشتہ ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے بعد سے وہ نو میں سے آٹھ دو طرفہ سیریز جیت چکی ہے جبکہ جنوبی افریقہ کے خلاف اس کی ایک سیریز برابر رہی تھی۔ تاہم انڈین ٹیم ایشیا کپ میں فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔

جہان تک جنوبی افریقہ کی اس سال کی کارکردگی کا تعلق ہے تو وہ اس وقت عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس نے انڈیا کےخلاف دو سیریز کھیلی ہیں جن میں پانچ میچوں کی سیریز دو، دو سے برابر رہی جبکہ تین میچوں کی سیریز انڈیا نے دو ایک سے جیتی۔ جنوبی افریقہ نے اس سال انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف سیریز میں کامیابی حاصل کی ہے۔

پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی

پاکستانی ٹیم اس وقت ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں چوتھی پوزیشن پر ہے۔ اس کی حالیہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو اس نے ایشیا کپ کا فائنل کھیلا ہے۔

اس ٹورنامنٹ میں اس نے انڈیا کو دو میں سے ایک میچ میں شکست دی تھی۔ ایشیا کپ کے بعد اس نے انگلینڈ کے خلاف سات ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کھیلی جو انگلینڈ کی چار تین سے جیت پر ختم ہوئی۔

رواں سال ایشیا کپ میں پاکستان نے انڈیا کو دو میں سے ایک میچ میں شکست دی تھی

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ اس کارکردگی کو نمایاں انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم مڈل آرڈر بیٹنگ کے مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔

یہ اور بات ہے کہ رمیز راجہ ہوں یا ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق یا پھر کپتان بابر اعظم، ان سب کو مڈل آرڈر پر ہونے والی تنقید اچھی نہیں لگتی اور ان کے خیال میں میڈیا منفی انداز اختیار کر کے اس معاملے کو بہت زیادہ بڑھا رہا ہے۔

کیا ٹیم مڈل آرڈر کے مسائل سے دوچار نہیں؟

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کے خیال میں پاکستانی ٹیم ٹارگٹ سیٹ کرنے سے زیادہ اچھا اس وقت کھیلتی ہے جب اسے ہدف عبور کرنا ہوتا ہے۔ آنے والا نیا بیٹر چند گیندیں کھیلتا ہے، اس کے بعد وکٹیں متواتر گرتی ہیں۔ اگر ہر بیٹر سیٹ ہونے کے لیے چار سے آٹھ گیندیں کھیلے گا تو چار اوورز تو ویسے ہی نکل گئے۔

ان کا خیال ہے کہ ’یہ اٹھارہ سے چوبیس گیندوں کا کھیل بہت خطرناک ہے جس میں وکٹیں گرتی ہیں اسی وجہ سے ہم ٹارگٹ سیٹ نہیں کر پاتے لیکن جس دن اوپر کے بیٹسمین رنز کرتے ہیں تو پھر نیچے والے بھی مارتے ہیں۔ بابر اعظم اور محمد رضوان اگر پچاس فیصد گیندیں کھیلتے ہیں تو جیت کا تناسب زیادہ نظر آتا ہے۔‘

جبکہ تجزیہ کار حسن چیمہ کہتے ہیں کہ ’مڈل آرڈر کے مسئلے کی کئی وجوہات ہیں۔ مڈل آرڈر کو زیادہ لمبی بیٹنگ نہیں ملتی۔ یہ آج کی بات نہیں۔ ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو محمد حفیظ اور شعیب ملک جب بابر اعظم کے ہوتے ہوئے کھیل رہے تھے تو محمد حفیظ نے ٹیسٹ رکنیت والی ٹیموں کے خلاف دس اننگز کھیلی تھیں اور ان کے سو سے بھی کم رنز تھے۔

شعیب ملک نے پانچ اننگز کھیلی تھیں اور ان کے پچاس سے بھی کم رنز تھے۔ یعنی دونوں کے پندرہ اننگز میں ڈیڑھ سو سے بھی کم رنز تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اوپر والے لمبا کھیلتے ہیں تو نیچے والوں کو کم مواقع ملتے ہیں۔‘

حسن چیمہ کا کہنا ہے کہ ’یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے یہ حکمت عملی ترتیب دی کہ ہم نیچے وہی کھلاڑی کھلائیں جو آخری پانچ چھ اوورز کھیلنے والے ہوں لیکن ہوا یہ ہے کہ پچھلے کچھ میچوں میں بابر نہیں چلے اور کچھ میں رضوان جلد آؤٹ ہو گئے تو جس بیٹسمین نے تیرہویں یا چودہویں اوور میں آنا ہوتا تھا وہ آٹھویں اوور میں آ رہا ہوتا تھا۔

’اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو آپ کی سلیکشن درست نہیں تھی یا اب حکمت عملی کام نہیں کر رہی ہے۔ اس پر سوال اٹھتا ہے۔‘

شاداب کو اوپر لانے کی بحث، بیٹنگ لائن میں ’کنفیوژن‘

راشد لطیف کہتے ہیں کہ ’پاور پلے میں اگر ہماری ٹیم 45 یا 50 رنز بناتی ہے تو یہ ٹھیک ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہماری ٹیم سات سے دس اوور تک کیسے کھیلتی ہے کیونکہ یہی اوورز جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

’یہاں پاکستانی ٹیم مار کھا جاتی ہے۔ اوپنرز بھی ان اوورز میں ہوں یا ان کے بعد کے بیٹسمین وہ ان اوورز میں ٹائم لیتے ہیں۔‘

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ’شاداب کو بیٹنگ آرڈر میں اوپر لانے کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ یہ بات تو لوگ پچھلے ایک سال سے کہتے آئے ہیں کہ انھیں نمبر چار پر لایا جائے کیونکہ وہ مومینٹم بناتے ہیں۔ وہ اپنی وکٹ بچاتے نہیں ہیں جس دن وہ کلک کر جائیں اس کا فائدہ ٹیم کو ہوتا ہے۔‘

تجزیہ کار حسن چیمہ بھی شاداب خان کو چوتھے نمبر پر کھلانے کے حق میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’یہ تجربہ تواتر کے ساتھ کرنا چاہیے تھا کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ محمد نواز کو انڈیا کے خلاف میچ میں اوپر بھیجا گیا، انھوں نے کھیل کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔‘

’افغانستان کے خلاف میچ میں شاداب خان کو اوپر بھیجا گیا، انھوں نے کھیل پلٹ دیا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی انھوں نے ایسا ہی کیا۔ یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔‘

حسن چیمہ کا کہنا ہے ’پاکستان کی بیٹنگ لائن میں کنفیوژن موجود ہے۔‘

’افتخار احمد سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکی ہیں کیونکہ انھوں نے جن 20 گیندوں پر 27 رنز بنائے اگر انھی 20، 27 گیندوں پر 40، 45 کرتے تو ان پر سوالیہ نشان نہیں لگتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کا رول ہٹر والا ہے اور جب آپ کو اس رول کے مطابق بیٹنگ ملتی ہے تب بھی آپ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ آصف علی کو جب آخری اوورز میں باری ملتی ہے تو وہ ایک دو شاٹس کھیل لیتے ہیں لیکن خوشدل شاہ اور افتخار احمد پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ کو اپنے رول کے برخلاف بیٹنگ ملی تو ٹھیک ہے آپ فیل ہو گئے لیکن اگر آپ کے رول کے مطابق باری ملی لیکن آپ پرفارم نہیں کر پا رہے تو پھر سوالیہ نشان ضرور اٹھیں گے۔‘

ون ڈاؤن یعنی تیسرے نمبر پر کون سا بیٹر کھیلے، یہ بھی مسئلہ ہے۔

حسن چیمہ کے خیال میں ایک بڑا مسئلہ نمبر تین کا بھی ہے کیونکہ اگر اوپنرز میں سے کوئی ایک سکور نہیں کرتا تو آپ کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ چاہے فخر زمان ہوں یا شان مسعود ہوں، وہ بابر یا رضوان کے ساتھ لمبی اننگز کھیل جائیں۔

’لیکن ایشیا کپ میں فخر زمان کی سوائے ہانگ کانگ کے کوئی بڑی اننگز نہیں تھی جبکہ انگلینڈ کے خِلاف سیریز میں شان مسعود نے اگرچہ دو نصف سنچریاں بنائیں اور اپنی فارم حاصل کی لیکن ان کا کوئی تاثر قائم نہیں ہو سکا۔‘

آسٹریلیا میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران پاکستانی شائقین کو اوپنر محمد رضوان سے امیدیں ہوں گی

حسن چیمہ کہتے ہیں کہ ’سوال یہ ہے کہ اگر اوپر والے بیٹسمین ناکام ہوتے ہیں تو کیا ہمیں مڈل آرڈر میں نارمل بیٹسمین چاہیں اور اگر نیچے نارمل مڈل آرڈر ہو گا اور اوپر والے 15ویں اوور تک بیٹنگ کر لیتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟ اگر نیچے والے تیز رنز نہ بنا سکے تو ان پر تنقید ہو گی۔‘

کیا پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 جیت سکتا ہے؟

راشد لطیف کہتے ہیں کہ ’پاکستان ایسی ٹیم ہے جس کے بارے میں کبھی بھی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ یہ بڑی سے بڑی ٹیم کو گرا دیتی ہے اور چھوٹی سی چھوٹی ٹیم سے ہار بھی جاتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب پاکستانی ٹیم کو کوئی بھی اہمیت نہیں دے رہا تھا اور وہ فاتح بنی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’1992 کا عالمی کپ ہو 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں کون کہہ سکتا تھا کہ پاکستانی ٹیم فائنل تک جائے گی؟ہم اچانک ہی جیتنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کے چانسز موجود ہیں لیکن اس کے لیے اسے اپنی پوری صلاحیتوں کے مطابق کھیلنا ہو گا۔‘

جبکہ حسن چیمہ کا کہنا ہے کہ ’اگر اس ٹیم کی موجودہ کارکردگی دیکھتے ہیں تو وہ اتنی اچھی نہیں ہے لیکن اس جنریشن کا ٹورنامنٹ ریکارڈ دیکھتے ہیں تو یہ ٹیم آگے تک جاتی رہی ہے، خاص کر آئی سی سی ایونٹس میں۔‘

یہ بھی پڑھیں