تحریریں

کیا ڈارک یعنی سیاہ چاکلیٹ واقعی آپ کی صحت کے لیے مفید ہے؟

انسان سینکڑوں سالوں سے چاکلیٹ کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کر رہا ہے۔ عام طور پر یہ کوکو کی مائع شکل میں آتا ہے جو کہ کوکو کی پھلیوں سے نکالا جاتا ہے۔

کچھ ثقافتوں میں اس میں بعد شکر، دودھ شامل کیے گئے اور اسے چمکدار پیکیجنگ میں پیش کیا گيا۔ یہ لوگ اب بھی روایتی طور پر کوکو کھاتے ہیں لیکن اسی دوران یہ بات موضوع بحث بن گئی ہے کہ آیا چاکلیٹ ہماری صحت کے لیے اچھی ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر امریکن کینسر سوسائٹی میں ایپیڈیمولوجی ریسرچ سینٹر کی سینیئر سائنسی ڈائریکٹر مارجی میک کولگ کا کہنا ہے کہ پانامہ کے جزائر سان بلاس پر آباد کونا انڈینز ایسے ہیں جن کا بلڈ پریشر کم ہے، جو عمر کے ساتھ نہیں بڑھتا، دل کے دورے، فالج، ذیابیطس اور کینسر کی بیماریاں وہاں نسبتا کم ہیں اور وہ زیادہ عمر پاتے ہیں۔

اور اس سائنسی حقیقت کے برعکس جس پر سب اتفاق کرتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ نمک بلڈ پریشر کو بڑھا سکتا ہے، ان کی خوراک میں اوسط امریکی شخص جتنا نمک ہوتا ہے۔

یہ جاننے کے لیے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کیا کھاتے ہیں مارجی میک کولگ نے کونا انڈینز کے یہاں کا دورہ کیا۔ انھوں دریافت کیا کہ وہ روزانہ تقریباً چار کپ کوکو کا استعمال کر رہے ہیں جس میں پانی ملا کر تھوڑی مقدار میں شکر (چینی) بھی ملاتے ہیں۔

لیکن میک گولگ وثوق کے ساتھ کونا انڈینز کی مثالی صحت کا سہرا کوکو کے استعمال کے سر نہیں دے سکتیں اور وہ بھی خاص طور پر اس صورت حال میں جب وہ اوسط امریکیوں کی خوراک سے دو گنا زیادہ پھل اور چار گنا زیادہ مچھلی بھی کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عام طور پر مغربی ممالک میں رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ فعال زندگی گزارتے ہیں۔

ہارورڈ میڈیکل سکول میں میڈیسن کی پروفیسر جوآن مینسن کا کہنا ہے کہ بہت سے دیگر مشاہداتی مطالعات میں ڈارک (سیاہ) چاکلیٹ کے کھانے والوں میں دل کے فوائد پر تحقیق کی گئی ہے، لیکن مطالعات متعصب ہوسکتے ہیں کیونکہ جو لوگ چاکلیٹ زیادہ کھاتے ہیں وہ اپنے وزن کے بارے میں کم فکر مند ہوتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ وہ صحت مند بھی ہو سکتے ہیں۔

ایک تحقیق میں محققین نے 20,000 لوگوں کی خوراک اور صحت کا جائزہ لیا جس میں انھیں پتہ چلا کہ ایک دن میں 100 گرام تک چاکلیٹ کھانا، بشمول دودھ والی چاکلیٹ، دل کی بیماری اور فالج کے کم خطرے سے منسلک پایا گيا۔ انھوں نے اس کے متعلق دوسرے عوامل کو دیکھا جو اس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ان میں تمباکو نوشی اور ورزش کی سطح بھی شامل تھیں اور انھوں نے کہا اس کی وجوہات میں چاکلیٹ کے فوائد کے بجائے دیگر چیزیں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔

اور پھر ایک وسیع کلینیکل ٹرائل کیا گیا جس میں خوراک اور طرز زندگی کے ساتھ دیگر ممکنہ عوامل کو بھی نظر میں رکھا گیا۔ یہ تحقیق اس خیال پر مبنی تھی کہ کوکو کے ممکنہ صحت کے فوائد اس کے فلیوونائڈز کی اعلی سطح کی وجہ سے ہو سکتے ہیں جو کہ دوسرے پودوں بیر اور چائے کے مرکبات میں بھی پائے جاتے ہیں۔

21,000 افراد پر مبنی کوکو سپلیمنٹ اور ملٹی وٹامن کے نتائج کے مطالعہ میں یہ پایا گیا ہے کہ روزانہ 400 سے 500 ملی گرام کوکو فلیوانول سپلیمنٹس لینے سے بلڈ پریشر اور جسم میں سوزش کو کم کرکے دل کی بیماری سے مرنے کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔

اس تحقیقی مطالعے کو سربراہ مصنف مینسن کا کہنا ہے کہ سائنس دانوں نے اصل کوکو کے بجائے سپلیمنٹس کا استعمال کیا کیونکہ مختلف برانڈز کے چاکلیٹ میں فلیوونائڈز کی مختلف مقدار پائی جا سکتی ہے اور یہ کٹائی، مینوفیکچرنگ اور پروسیسنگ کے لحاظ سے بہت زیادہ مختلف ہو سکتا ہے۔

ڈارک چاکلیٹ میں چائے کے مقابلے میں چار گنا زیادہ فلیوونائڈ ہو سکتے ہیں، لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مینوفیکچرنگ کے عمل کے دوران فلیوینل کے مواد میں کمی واقع ہوتی ہے۔

یونیورسٹی آف ریڈنگ میں غذائیت اور فوڈ سائنس کے پروفیسر گنٹر کوھنلے کا کہنا ہے کہ فی الحال کوکو فلیوانولز کی مقدار کے بارے میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کہ کتنی مقدار لینے سے آپ کو صحت سے متعلق فوائد ملیں گے۔

دوسری جانب یورپی فوڈ سٹینڈرڈز اتھارٹی (EFSA) کا کہنا ہے کہ تقریباً 200mg کوکو فلیوونائڈز یا دس ملی گرام ڈارک چاکلیٹ فائدہ مند ہے، حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 500 ملی گرام فی دن ہماری صحت میں زیادہ فرق لانے کا حامل ہو سکتا ہے۔ یہ چاکلیٹ کے ایک چھوٹے سے 30 گرام کے بار کے برابر ہے۔

کوھنلے کہتے ہیں: ‘مجھے نہیں لگتا کہ چاکلیٹ میں فلیوینول کے مواد کو بڑھانے کا کوئی طریقہ انھیں ‘صحت افروز کھانا’ بنا دے گا۔’

ڈارک چاکلیٹ میں اور چیزیں بھی ہوتی ہیں جس کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے۔ کافی کے علاوہ ان کے چند ذرائع میں سے ایک پودوں کے مالیکیول تھیوبرومائن ہے۔

یونیورسٹی آف دی ویسٹ آف انگلینڈ میں اپلائیڈ سائیکالوجی کے پروفیسر کرس الفورڈ کا کہنا ہے کہ اگرچہ تھیوبرومائن یہ ایک نفسیاتی مادہ ہے جو کہ کیفین کے ہی خاندان سے ہے لیکن یہ آپ کو کیفین کے مقابلے میں ’زیادہ سکون بخش چسکا (مزا)‘ دے سکتا ہے۔ اور چاکلیٹ جتنی گہری ہوگی اتنا ہی زیادہ چسکا دے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر آپ بہت زیادہ ڈارک چاکلیٹ کھا رہے ہیں، تو آپ کو ایک حقیقی چسکا لگ سکتا ہے، اور تھیوبرومائن کا چسکا یا ہٹ کیفین کی ہٹ سے زیادہ اچھی ہو سکتی ہے۔’

جن لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ چاکلیٹ دل کی بیماری کا خطرہ بڑھاتی ہے اس کے متعلق کچھ محققین کا کہنا ہے کہ درحقیقت اس سے بچنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ڈارک چاکلیٹ میں عام طور پر شکر بھی ہوتی ہے، لیکن اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دودھ کی چاکلیٹ کے بجائے زیادہ کوکو والی چاکلیٹ کا انتخاب کریں۔

چاکلیٹ کا تاریک پہلو

کوکو فلیوانول سپلیمنٹس کے اثرات کی جانچ سے پتا چلتا ہے کہ ڈارک چاکلیٹ کے دیگر اجزاء کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جیسا کہ شکر اور سیراب چربی۔ ڈارک چاکلیٹ میں اکثر کوکوا بٹر ہوتا ہے، جس میں سیچوریٹڈ چکنائی زیادہ ہوتی ہے، جو دل کی بیماری میں اضافے کے خطرے سے منسلک ہے۔

بیلفاسٹ مین کوئنز یونیورسٹی میں سکول آف بائیولوجیکل سائنسز کے پروفیسر ایڈین کیسڈی کہتے ہیں: ‘چاکلیٹ میں موجود تمام چکنائی کوکو مکھن سے آتی ہے، لیکن جب کہ شواہد کے مطابق چربی کے تیزاب یا سٹیرک ایسڈ کا کولیسٹرول پر غیر جانبدار اثر پڑتا ہے، کوکو مکھن میں موجود چکنائی کا ایک تہائی حصہ سیراب ہوتا ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔اگرچہ محققین نے واضح طور پر دل کی بیماری سے بچنے کے لیے چاکلیٹ کھانے کی سفارش نہیں کی ہے، لیکن ایک مقالے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ باقاعدگی سے ڈارک چاکلیٹ کھانے سے ہماری صحت کو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور یہ کہ دل کی صحت سے متعلق سب سے زیادہ شواہد ملتے ہیں۔

بہر حال ایسٹن میڈیکل سکول کے ماہر غذائیت ڈوین میلر کا کہنا ہے کہ کم مقدار میں ڈارک چاکلیٹ کھانے سے کھانے کی غیر صحت بخش عادات سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘کم مقدار میں چاکلیٹ نقصان دہ نہیں ہو گی اور چاکلیٹ کے ساتھ آپ کے تعلقات کو بھی استوار رکھے گی، کیونکہ آپ احساس جرم کے بغیر تھوڑی مقدار سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس کی تلخی اسے از خود کو محدود کر دیتی ہے۔’

مسئلہ یہ ہے کہ چاکلیٹ میں جتنا زیادہ کوکو فلیوونائیڈ مواد ہوگا اس کا ذائقہ اتنا ہی کڑوا ہوگا اور ذائقہ جتنا کڑوا ہوگا اس کی فروخت اتنی ہی کم ہوگی۔

میلر کا کہنا ہے کہ ‘کوکو کی اچھی مقدار کے ساتھ اسے کھانے کے قابل اور لطف اندوز بنانے کے معاملے میں تنازع ہے۔’

معاملات اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ چربی اور شکر والے چاکلیٹ میں موجود فلیوونائڈز زیادہ حیاتیاتی بنانے میں مدد کرتی ہے یعنی کیا وہ ہضم کرنے میں جسم کے لیے آسان ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ان میں سے کچھ فلیوانول پیچیدہ نامیاتی مرکبات ہیں، اور ایک طریقہ جس سے ہم انھیں کھانے کے قابل بنا سکتے ہیں وہ ان میں شکر چپکانا ہے۔

چاکلیٹ میں کوکو فلیوانول اور شکر کے مواد کو دیکھنے کے لیے اتنی تحقیق نہیں ہوئی ہے کہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ اسے کتنا میٹھا ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ ابھی تک یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ کو کتنے کوکو فلیوانول مل رہے ہیں۔

کوھنلے کا کہنا ہے کہ ‘چاکلیٹ کوئی صحت بخش غذا نہیں ہے، اور اس میں شکر اور چکنائی کی مقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان ہے کہ فلیوانول کے فوائد حاصل کرنے کے بجائے زیادہ کھانے کے منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔

ذائقہ کی جستجو

ایسا لگتا ہے کہ چھوٹی ‘بین ٹو بار’ کمپنیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو صحت کے کسی بھی ممکنہ فوائد کے بجائے ذائقہ کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے زیادہ مقدار والی چاکلیٹ تیار کر رہے ہیں۔

لیکن اگر کوکو بین کے ذائقے کو برقرار رکھنے کا عمل بھی اتفاق سے صحت مند چاکلیٹ کی صورت میں نکلے؟

فائر ٹری چاکلیٹ برانڈ کے شریک بانی مارٹن او ڈار کا کہنا ہے کہ بحر الکاہل کے سولومن جزائر پر اگائی جانے والی کوکو پھلیاں عین پکنے کے وقت پر چنی جاتی ہیں۔

اس کے بعد کسان کوکو کی پھلیوں کو توڑ کر نکالتے ہیں اور انھیں خشک کرنے سے پہلے چھ دنوں تک خمیر بنانے کا کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ خشک پھلیاں برطانیہ میں فائر ٹری کو بھیجی جاتی ہیں جہاں انھیں پوری طرح بھونا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چاکلیٹ کمپنیاں کسانوں کی دو فصلوں پر انحصار کرتی ہیں۔ اہم فصل جو نومبر سے جنوری تک کاٹی جاتی ہے اور پھر درمیانی فصل جو جنوری سے جون کے درمیان تیار ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘درمیانی فصلیں چھوٹی اور قدرے کم درجے کی ہوتی ہیں، اور ابتدائی طور پر فروخت نہیں کی جاتی تھیں۔ پھر کمپنیوں نے انھیں رعایت پر خریدنا شروع کر دیا، اور کسانوں کو احساس ہوا کہ وہ اچھی پھلیاں کم قیمت پر فروخت کر رہے ہیں اس لیے انھوں نے درمیانی فصل میں اچھی فصل کی ملاوٹ شروع کر دی۔’

اگرچہ آپ کو چاکلیٹ کے ساتھ ساتھ بہت سے مختلف کھانوں میں فلیوانولز مل سکتے ہیں تاہم مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ڈارک چاکلیٹ صحت مند غذا میں فٹ ہو سکتی ہے۔

‘اس کا مطلب یہ تھا کہ چاکلیٹ کمپنیاں مختلف سائز کی پھلیاں حاصل کر رہی تھیں جن کو بھوننے کے لیے مختلف دورانیہ درکار ہوتا ہے۔ اس لیے انھوں نے خولوں کو کھولنا شروع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ صرف اس کے گودے کو بھون سکیں۔‘

چاہے یہ کہانی سنی سنائی ہو حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے چاکلیٹ بنانے والے کسی چیز کی تلاش میں تھے کیونکہ صرف نبس کے بجائے پوری بین کو بھوننے میں اکثر کم درجہ حرارت پر زیادہ دیر تک بھوننا پڑتا تھا۔

ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم سبزیوں کو زیادہ دیر تک پکاتے ہیں تو اس میں کم غذائی اجزاء برقرار رہتے ہیں۔ لیکن کیا یہی بات ڈارک چاکلیٹ اور اس کے پھل کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے اور اس کے متلعق مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

مینسن کا کہنا ہے کہ ‘ہفتے میں کئی بار زیادہ مقدار میں ڈارک چاکلیٹ کا استعمال مناسب ہے جب تک کہ آپ ضرورت سے زیادہ کیلوریز سے پرہیز کر رہے ہوں، لیکن اسے صحت بخش غذا کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہیے جسے آپ زیادہ کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔’

وہ کہتی ہیں: ‘زیادہ کوکو والی چاکلیٹ کی معقول اور اعتدال پسند مقدار کے ساتھ چائے، بیریوں، انگوروں اور دیگر پھلوں کے ذریعے خوراک میں فلیوانولز کو بڑھانے کی کوشش کریں۔’

یہ بھی پڑھیں