کیا کریں تیل خریدنے کی سکت نہیں رہی اور جہاں ایک پاؤ گھی آتا ہے وہاں انہی پیسوں میں چربی سے ایک کلو چکنائی نکل آتی ہے جس سے ہم کھانا بنا لیتے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا شگفتہ بی بی کا جو لوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں اور ملک میں مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی کھانے کا تیل اور گھی بمشکل خرید پاتی تھیں لیکن اب خوردنی اشیا خصوصاً تیل اور گھی کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ کے بعد مجبوراً کھانا پکانے کے لیے مرغی کی چربی استعمال کرتی ہیں۔
وہ اور ان کے محلے کے کئی لوگ مرغی کی دکان سے مرغی کے گوشت سے صاف کی جانے والے چربی والے چھیچھڑے لا کر اسے پکا کر اس سے چکنائی نکالتے ہیں، جسے بعد میں کھانا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
شگفتہ بی بی کے گھرانے کو چند روپوں کی اس کفایت شعاری کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی۔ ان کے شوہر اس وقت ہسپتال کے آئی سی یو میں ہیں۔ ان کا بلڈ پریشر بہت بڑھ گیا اور ان کے دماغ کی شریانیں پھٹنے کا خدشہ لاحق ہو گیا، سانس لینے میں شدید دشواری کے بعد ڈاکٹر بمشکل ان کی جان بچا پائے
میڈکل ہسٹری اور کھانے پینے کی عادات کے بارے میں معلومات لیتے ہوئے ڈاکٹر نے پایا کہ ان کے شوہر کو کوئی دوسری بیماری لاحق نہیں اور بظاہر خاندان میں بھی کوئی پیچیدہ طبی مسائل نہیں تاہم گذشتہ دو سال سے کھانے میں چربی کا زیادہ استعمال بظاہر اس کی ایک بڑی وجہ تھی۔
شگفتہ بی بی کے شوہر ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ کووڈ 19 کے بعد کام پہلے جیسا نہیں رہا تو پانچ افراد پر مشتمل اس خاندان کی کفالت کے لیے شگفتہ بی بی خود ایک سکول میں آیا کی نوکری کرنے لگیں۔ پھر بھی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ معیاری خوردنی اشیا خرید سکتے۔
لیکن کیا خوردنی تیل سے بچائے جانے واالے پیسوں کے بدلے ہسپتال اور دواؤں کا خرچہ مہنگا ثابت نہیں ہوا؟
اس پر ان کا کہنا تھا ’مہنگا تو پڑا ہے لیکن اگر اِس وقت میری جیب میں صرف 50 روپے ہیں تو میں یہی سوچوں گی ناں اس سے میں کیا کر سکتی ہوں۔‘
ایسا کرنے والی شگفتہ بی بی اکیلی نہیں۔ بلکہ پاکستان میں غریب اور پسماندہ افراد کی ایک بڑی تعداد نہ صرف مرغی بلکہ گائے، بھینس اور بکرے کے گوشت سے نکلنے والی چربی کو پگھلا کر اس سے چکنائی حاصل کرتے ہیں اور اس سے کھانا پکاتے ہیں، لیکن یہ ان کی صحت کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے؟
چربی کھانا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟
ماہر امراض قلب ڈاکٹر مسعود الحسن کا کہنا ہے کہ چربی یا گھی کا استعمال جب تک کم مقدار میں کیا جاتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ورزش اور پیدل چلنے کی روٹین اپنائی جائے تو یہ اتنا نقصان دہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ تمام چکنائیاں جنھیں سیچوریٹڈ فیٹس کہا جاتا ہے ان میں گھی، مکھن، دیسی گھی اور چربی شامل ہیں ان کا زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ سیچوریٹڈ فیٹس وہ چکنائی ہے جو عام درجہ حرارت یا ٹھنڈی آب و ہوا میں جم جاتے ہیں۔ ‘
ڈاکٹر مسعود الحسن کے مطابق اگر کسی فرد کو پہلے سے بلڈ پریشر، شوگر یا دل کی بیماری لاحق ہے تو ان کے لیے چربی یا چکنائی کا استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق ’ایک صحت مند شخص اگر لگاتار چربی کا استعمال کرتا ہے اور اس کی روز مرہ روٹین میں زیادہ نقل حمل اور ورزش شامل نہیں تو یہ چکنائی خون کی نالیوں میں جم کر دل کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔‘
انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب انسان چکنائی کھاتا ہے تو یہ معدے سے ہوتے ہوئے آنتوں میں پہنچتی ہے تو وہاں یہ جذب ہو کر خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ وہاں خون کی نالیوں سے ہو کر جگر میں جاتی ہیں۔ جہاں جسم کی ضرورت کے مطابق چکنائی ہضم ہو جاتی ہے اور باقی جگر میں ذخیرہ ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح خون کی نالیوں میں گردش کرنے والی چکنائی کی زیادہ مقدار مختلف جگہوں خصوصاً دل کے قریب جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔‘
ڈاکٹر مسعود الحسن کہتے ہیں کہ ’اگر ایک صحت مند آدمی بھی چربی کا روزانہ استعمال کرتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ چند ہی ہفتوں میں اس کے وزن میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور اس کے خون کی شریانوں میں چکنائی بڑھ جاتی ہے اور پیٹ باہر نکلنے لگتا ہے۔ ‘
’اگرچہ انسان کے پیدائش کے وقت بھی خون کی نالیوں میں چکنائی کی ایک مقدار موجود ہوتی ہے۔ لیکن خون کی نالیوں میں چکنائی کی مقدار جب 50 فیصد سے تجاوز کرنے لگتی ہے تو انجائنا ہوجاتا ہے اور شریانیں مکمل بلاک ہونے کی صورت میں دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہی نہیں بلکہ خون میں گردش کرنے والی چکنائی دل کی دھڑکن کو نا ہموار کرتی ہے۔ اور یہ چکنائی نہ صرف دل کی نالیوں بلکہ یہ گردن اور دماغ کی نالیوں میں بھی جمع ہونے لگتی ہے۔ پھر ٹانگ اور گردوں کی نالیوں میں بھی رکاوٹ آنے لگتی ہے۔اس سے فالج، اندھا پن، بلڈ پریشر، گردے فیل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یومیہ چربی کااستعمال بالآخر نالیوں میں چکنائی کے اضافے کا سبب بنتا ہے۔‘
ڈاکٹر مسعود الحسن کا کہنا تھا کہ ’کوئی شخص اگر بظاہر موٹا نہیں لیکن اس کا پیٹ بڑھا ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیٹ پر بھی چربی کی تہہ جمی ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ بھی ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں پر منتج ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’چکنائی اور کاربو ہائیڈریٹس کا بھی آپس میں تعلق ہے۔ اس لیے نشائستے اور کاربوہائیڈریٹس کا استعمال کم کرنا چاہتے کیونکہ یہ بھی بعد میں چکنائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ خوراک میں شامل اجزا کا متناسب ہونا بہت ضرورت ہے۔ اگر ہر چیز کو ایک مناسب حد تک کھایا جائے اور روز مرہ معمولات میں ورزش کو شامل کیا جائے تو ان کے برے اثرات کو بہت حد تک کم اور ختم کیا جا سکتا ہے۔
خون میں چکنائی کی مقدار بڑھ جائے تو کیا کریں؟
ڈاکٹر مسعود الحسن نے خون میں چکنائی کی مقدار بڑھنے کی صورت میں کچھ تجاویز دیں:
-
پانی کا زیادہ استعمال کریں خصوصاً صبح نہار منھ اور کھانے سے پہلے
-
خوراک میں سبزیوں کا استعمال کریں، تاہم نشاستے والی سبزیاں نہ کھائیں جیسے آلو، شکر قندی اور مٹر وغیرہ
-
مولی کے پتے ابال کر یا سلاد کی شکل میں کھائیں، یہ اینٹی آکیسڈنٹ ہوتے ہیں
-
شلجم اور اس کے پتے کھائیں
-
کینو کھائیں یہ جسم میں موجود چکنائی کو کم کرتا ہے۔
-
کینو کے چھلکے ابلے ہوئے پانی میں ڈال کر یہ مشروب پینا مفید ہے
-
پروٹین کا استعمال کریں، جیسے مرغی اور مچھلی کا متناسب استعمال
-
نمک کا استعمال کم کر دیں
-
ورزش کریں اور تیز تیز چہل قدمی کریں
-
تمباکو نوشی ترک کر دیں اور ذہنی دباؤ اور تناؤ سے دور رہیں
-
چربی کے بجائے خوردنی تیل کا سستا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟
غذائی ماہر زینب غیور کہتی ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں لوگ جسمانی ضرورت سے کہیں زیادہ چکنائی کھاتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان کی مارکیٹ میں کم آمدن والے لوگوں کو جس قسم کا غیر معیاری گھی اور تیل دستیاب ہے اگر اس سے تقابل کیا جائے تو چربی کا استعمال نسبتاً بہتر ہے لیکن اس کے لیے اس کا انتہائی محدود ہونا بہت ضروری ہے۔‘
زینیب غیور کا کہنا تھا کہ ’ہمارے روایتی کھانوں میں چکنائی ویسے ہی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اتنی زیادہ چکنائی چاہے وہ تیل ہو، گھی ہو یا چربی کسی بھی صورت ہماری صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ دل کے مریض یا بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے یہ بہت زیادہ نقصان دہ ہیں۔‘
مارکیٹ میں مختلف اقسام کی چکنائی دستیاب ہے ان میں سب سے خطرناک کون سی ہی اور کس کا استعمال کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر درجہ بندی کی جائے تو سب سے بدترین چیز کسی بھی چیز کا زیادہ استعمال ہے چاہے وہ بظاہر صحت مند بتایا جانے والا بیجوں سے حاصل ہونے والے تیل ہی کیوں نہ ہوں۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ ’سرسوں کا تیل ایک نسبتاً سستا متبادل ہو سکتا ہے۔ پھر آپ زیتون کا اور دوسرے سبزیوں کے تیل سورج مُکھی اور مکئی کا تیل استعمال کر سکتے ہیں، اس کے بعد اگر آپ کو یقین ہے کہ یہ قدرتی اور خالص ہے تو دیسی گھی یا مکھن کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان میں سے بھی کچھ میّسر نہ ہو تو جانوروں کی چربی استعمال کی جا سکتی ہے لیکن بہت کم مقدار میں۔ تاہم کسی بیماری یا طبی عارضے کی صورت میں اس کا استعمال نہ کریں خصوصاً بلڈ پریشر اور دل کی بیماری کی صورت میں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری روز مرہ خوراک میں چکنائی کے دیگر ذرائع دودھ، دہی، بالائی، بیج یا میووں کے ساتھ اگر ہم سیچوریٹڈ فیٹ استعمال کرتے ہیں تو اس کی مقدار ان اجزا کی مقدار کے 10 فیصد سے کم ہونا چاہیے۔ ‘
زینب کا کہنا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی جادوئی خوراک نہیں ہوتی جس کے کھانے سے کوئی بیمار یا صحت مند ہو سکتا ہے۔ کسی بھی چیز کا حد سے زیادہ استعمال بیماری کا سبب بنتا ہے اسی طرح خوردنی اجزا میں میانہ روی اور ورزش ہی صحت مند زندگی کا سبب بنتی ہے۔