تحریریں

جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں‘: نعمتوں کی فہرست بنانے سمیت وہ چیزیں جو آپ کو خوش رکھ سکتی ہیں

چاہے آپ ان افراد میں سے ہوں جو نہاتے وقت گنگناتے ہیں، بارش میں ناچنا پسند کرتے ہیں یا ان میں سے جنھیں کسی بات سے خوشی محسوس نہیں ہوتی تو اچھی خبر یہ ہے کہ خوش رہنا کوئی ایسی چیز نہیں جو ہم میں پیدائشی طور پر پائی جاتی ہے۔

ہم اپنی عادتوں میں تبدیلی لا کر اپنی زندگی میں زیادہ خوش رہنا سیکھ سکتے ہیں۔

سنہ 2025 میں خوشگوار زندگی کے لیے کچھ مشورے:

عمر کے ساتھ دوستیاں بڑھائیں

ویسے تو دوستی ہر عمر میں ضروری ہوتی ہے لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

عموماً بڑھتی عمر کے ساتھ لوگوں کے دوست احباب کم ہونے لگتے ہیں اور وہ صرف ان ہی لوگوں کے ساتھ وقت بتانے کو ترجیح دیتے ہیں جنھیں وہ اچھے سے جانتے ہیں۔

تاہم تحقیق سے پتا چلتا ہے نئی دوستیاں قائم کرنا آپ کے لیے اچھا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے وہ فائدے حاصل ہو سکتے ہیں جو آپ کو اپنے گھر والوں سے قائم تعلقات سے نہیں ملتے کیونکہ ان رشتوں کی بنیاد ذمہ داریوں پر ہوتی ہے۔

دوسری جانب کیونکہ دوستیاں رضاکارانہ ہوتی ہیں جو کسی بھی وقت شروع یا ختم ہو سکتی ہیں اس لیے یہ زیادہ پُرلطف ہوتے ہیں جبکہ ان میں تناؤ کا عنصر بھی کم ہوتا ہے۔

حالانکہ بڑی عمر کے افراد کے لیے نئی دوستیاں بنانے میں کافی مشکلات حائل ہوتی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کے لیے نئی دوستیاں قائم کرنا ان کے لیے قدرے آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کی شخصیتوں میں پختگی آ چکی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ سماجی رابطوں کے تجربے کے باعث ہم دوسروں سے باآسانی متفق ہو سکتے ہیں۔

عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ معیاری دوستی رکھنے کے نہ صرف نفسیاتی بلکہ دیگر فوائد بھی ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے علمی کام کاج اور جسمانی صحت کو بھی بہتر بناتا ہے۔

تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کسی بھی شخص کی جوانی اور بڑھاپے میں اچھی زندگی کے لیے خاندانی رشتوں کے ساتھ ساتھ دوستیاں بھی اہم ہیں۔

دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا سیکھیں

ہمدردی کسی بھی حقیقی دوستی کی بنیاد میں سے ایک ہے۔ جب بھی کسی کو اپنے دوستوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے میں دوستوں کی جانب سے دکھائی جانے والی ہمدردی اس دوستی کو مزید گہرا بناتی ہے۔

ڈیوڈ روبسن لکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ ایک اور چیز ہے جس کے بارے میں بات نہیں ہوتی ہے لیکن وہ بھی اتنی ہی اہم ہے ’دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا۔‘

کئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوستیاں قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی خوشی میں خوش ہونا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا ایک دوسرے کے دکھ بانٹنا۔

کسی دوست کی جانب سے دی جانے والی خوشخبری میں خوش ہونا اور اس کے بارے میں مزید پوچھنا ایک اچھا دوست ہونے کی نشانی ہے۔

تاہم اگر کسی دوست کی طرف سنائی جانے والی خوشی کی خبر پر کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہ کریں تو اس سے آپ کے تعلقات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

رضاکارانہ کاموں میں حصہ لیں

یہ بات تو شاید آپ کو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی نے کہی ہی ہو گی کہ دوسروں کی مدد کرنے سے خوشی ملتی ہے۔ لیکن جتنا آپ دوسروں کی مدد کرتے ہیں اتنی ہی یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے۔

تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے دائمی مدد اور ڈپریشن کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

مثال کے طور پر 2002 کی ایک تحقیق میں پایا گیا ہے کہ جب دائمی درد میں مبتلا شخص کو دوسروں کی مدد کے لیے تفویض کیا گیا تو رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے دوران ان کے درد کی شدت میں کمی دیکھی گئی۔

دیگر تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ (خصوصاً بڑھاپے میں) جانوروں کی مدد کرنے سے صحت میں بہتری آتی ہے جبکہ گھر میں لگے پودوں کی دیکھ بھال کرنے سے ہمیں بہتر زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے۔

حتیٰ کہ اب ڈاکٹر یہ تجویز کر رہے ہیں کہ رضاکارانہ کاموں میں ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیں جو آپ کو کمیونٹی سے جوڑتی ہیں اور آپ نئی چیزوں کے متعلق جان پاتے ہیں۔

ان تجاویز میں آرٹ کلاسوں میں حصہ لینے سے لے کر سائیکلنگ گروپس کا حصہ بننا شامل ہے۔

اپنے آباؤ اجداد سے تعلق جوڑیں

خوش رہنے میں آپ کے آباؤاجداد بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے بڑوں اور ان سے جڑے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بہت سے نفسیاتی فوائد ہو سکتے ہیں۔

آپ کے بڑوں نے مصیبتوں پر کیسے قابو پایا۔۔۔ ایسی کہانیاں نئی نسل کو زیادہ بااختیار بنا سکتی ہیں۔

میلبورن کی سوئن برن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں نفسیات کی ایک پروفیسر سوسن ایم مور کے مطابق جو لوگ اپنی خاندانی تاریخ کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں ان میں اطمینان اور تندرستی کی سطح باقی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بلند ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اپنی خاندانی تاریخ پر تحقیق کرنے والے افراد کو احساس ہوتا ہے کہ انھیں اپنی زندگیوں پر زیادہ کنٹرول حاصل ہے اور وہ دنیا میں اپنی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

یہ جاننا کہ آج آپ کی زندگی جیسی بھی ہے اس کے پیچھے آپ کے آباؤاجداد کی جدوجہد رہی ہے۔۔۔۔ یہ چیز آپ کے اندر شکر گزاری کا احساس پیدا کرتی ہے۔

نعمتوں کی فہرست بنائیں

’کاؤنٹ یور بلیسنگز‘ یا اپنی نعمتوں کا شمار کرنا ایک پرانی نصیحت ہے لیکن اس کے پیچھے ایک سادہ سی بات ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے زندگی ہمارے ساتھ پیش آنے والی تین اچھی چیزوں کی فہرست بنانا ہمارے مزاج کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

چاہے وہ زندگی کو بدل دینے والا واقعہ ہو جیسا کہ ایک اہم امتحان پاس کرنا یا بچہ پیدا کرنا، یا کوئی چیز جو بظاہر غیر ضروری ہے جیسے کسی پرانے دوست سے اچانک ملاقات یا چہل قدمی کے دوران شام کی سورج ڈھلنے کے ن

نظارے سے لطف اندوز ہونا۔۔۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے یہ سب ہماری صحت کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتی ہیں۔

تفریحی سرگرمیاں

کسی خوبصورت راستے پر ڈرائیو سے بہتر کچھ نہیں۔۔ ذرا تصور کریں کہ ہوا آپ کے بالوں کو چھو کر گزر رہی ہو، گاڑی میں آپ کا پسندیدہ گانا لگا ہو اور آپ مزے سے ایک کھلی سڑک پر رواں دواں ہوں۔

جب یونیورسٹی آف رچمنڈ ورجینیا کے محققین نے لیبارٹری میں پالے اپنے پیارے پیارے چوہوں کو چھوٹی سی آٹوموبائل چلانا سکھایا تو چوہوں نے اس پر تیزی سے مہارت حاصل کر لی اور اپنے اگلے سفر کی تیاری میں جوش و خروش سے کاروں میں کودنے لگے۔

آخر کار محققین نے دیکھا کہ کچھ چوہے پرجوش انداز میں چھوٹی چھوٹی چھلانگیں لگا رہے ہیں گویا وہ خوشی سے نہال ہو رہے تھے۔

اس سے تحقیق کی ایک نئی راہ کھلی۔۔۔ کہ کیا تفریح ​​کی توقع کرنا یا اس سے پہلے کی خوشی تفریح کے اصل وقت سے زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے؟

ایک اور تجربے میں سائنسدانوں نے کچھ چوہوں کو انعامات کا انتظار کرنے کی تربیت دی جبکہ دیگر کو فوری طور پر انعام دے دیا گیا۔ بعد میں انھوں نے چوہوں میں امید پیدا ہونے کا جائزہ لیا اور انھیں پتا چلا کہ جن کو انعامات کا انتظار کرنے کی تربیت دی گئی تھی وہ زیادہ پر امید تھے۔

محققین کا ماننا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج انسانوں کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور باقاعدگی سے خوشگوار سرگرمیوں یا ایونٹس میں حصہ لینے کا سوچ کر ہم اپنے دماغوں کو مزید پر امید ہونا سکھا سکتے ہیں۔

کچھ بھی نہ کریں

اب اگر آپ ہماری اس فہرست کو پڑھتے پڑھتے ادھر تک پہنچ ہی گئے ہیں تو اگلی بات آپ کے لیے حیران کن ہو سکتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خوش رہنے کے بارے میں بہت زیادہ فکر کرنا دراصل خوشی محسوس کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

معروف انڈین فلم سٹار شاہ رخ خان کے والد کہتے تھے کہ ’ہم تمھاری عمر میں پہاڑوں پر ننگے پیر چڑھ جاتے تھے، اگر تم چڑھنا چاہو چڑھ جاؤ، نہیں چڑھنا چاہو تو کچھ نہ کرنا کیونکہ جو کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں۔

زیادہ خوشی کی خواہش میں کوئی اچھی فلم دیکھنے سے پہلے خوشی کے بجائے مایوسی کا احساس زیادہ ہوا۔ محقیقین کا ماننا ہے کہ اپنی توقعات کو بڑھا کر خوشی کے بارے میں پڑھنا اور فکر کرنا دراصل لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر سکتا ہے۔

ہو سکتا ہے آپ نے خود اس کا تجربہ کسی بڑے ایونٹ یا پارٹی کے دوران کیا ہو جس کا آپ شدت سے انتظار کر رہے ہوں لیکن یہ آپ کی توقعات پر پورا نہ اترا ہو۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے ماہر نفسیات ایرس ماس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خوشی کی خواہش اور جستجو بھی تنہائی اور دوسروں سے تعلق ٹوٹنے کے احساس کو بڑھا سکتی ہے۔

وہ تجویز کرتی ہیں کہ زندگی کے متعلق زیادہ سخت رویہ اپنانے کے بجائے اگر ہم روزمرہ کے اتار چڑھاؤ کو زیادہ قبول کرنے کی کوشش کریں تو اس سے زندگی آسان ہو سکتی ہے۔

زیادہ کیفین نہ پیئیں

سردیوں کے سرد اور تاریک دنوں میں شاید کافی کا ایک کپ آپ کے دماغ اور جسم کو ضروری انرجی فراہم کرتا ہو مگر کیفین کا استعمال ہمیں چوکنا ہونا کا احساس بھی دلاتا ہے کیونکہ یہ خون کے دھارے میں تیزی سے جذب ہو جاتا ہے جہاں اس کا مقابلہ اڈینوسین سے ہوتا ہے اور اڈینوسین وہ کیمیکل ہے جو ہمیں تھکاوٹ کا احساس دلاتا ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کیفین کے استعمال کے بہت سے فوائد ہیں جن میں کینسر، دل کی بیماری اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کی کئی اقسام کے خطرے میں کمی کے ساتھ ساتھ بہتر جسمانی کارکردگی اور ڈپریشن کے خلاف تحفظ شامل ہیں۔

لیکن جب کیفین کی بات آتی ہے تو اس کے استعمال کے حوالے سے وقت کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اسے خون کے دھارے میں شامل ہو کر اثر دکھانے میں تو کم ہی وقت لگتا ہے لیکن اس کے اثرات بہت دیر تک رہتے ہیں۔

سائنسدان تجویز کرتے ہیں کہ آپ کی کیفین کی آخری خوراک سونے سے آٹھ گھنٹے اور 48 منٹ پہلے لیں ۔ ہمیں بہت زیادہ کیفین کا استعمال بھی نہیں کرنا چاہیے – 400mg سے زیادہ یا طاقت کے لحاظ سے دو سے تین کپ کافی نہیں – نیند میں خلل، سر درد، متلی اور بے چینی سے بچنے کے لیے۔

سائنسدان تجویز کرتے ہیں کہ سونے سے کافی کا آخری مگ آپ سونے سے 8 گھنٹے اور 48 منٹ قبل پئیں یعنی تقریباً 9 گھنٹے قبل۔۔۔ اس کے علاوہ زیادہ مقداد میں کیفیین لینے سے بھی گریز کریں اور ایک دن میں 400 ملی گرام تک ہی کیفیین لیں یعنی دو تین کپ سے زیادہ کافی نہ پی جائے تو بہتر ہو گا۔

ورنہ آپ کو نیند میں خلل، سر درد، متلی اور بے چینی جیسے مسائل کا سامنا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں