تحریریں

خود سے شادی کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

2011 میں سپین کی 10 خواتین نے مل کر اعلان کیا تھا کہ اُن میں سے ہر خاتون اپنے آپ سے شادی کر رہی ہے۔ یہ غیر معمولی عمل، جو بظاہر ایک مزاق سے شروع ہوا، روایتی رشتہ ازدواج کے خلاف اعلان بغاوت تھا۔

تاہم درحقیقت ان خواتین نے اس عمل سے کچھ ایسا پایا جس کی تحریک پہلے ہی دنیا بھر میں شروع ہو چکی تھی جس کا نام ’سولو گیمی‘ ہے۔

روایتی شادی اب ہر خاتون کے لیے زندگی کا ایک اہم مقصد نہیں رہا۔ بلکہ ’سولوگیمی‘ میں یقین رکھنے والی خواتین دوسروں سے محبت کرنے سے پہلے اپنے آپ سے محبت کے ارادے کا اظہار کرتی ہیں۔

لیکن کیا خود سے محبت کے اظہار کا یہ طریقہ کچھ زیادہ ہی عجیب و غریب ہے یا پھر یہ کسی پرانی کہانی کا ایک نیا اور حیران کُن رُخ ہے؟

مایا 11 سال سے شادی شدہ ہیں اور خوش بھی ہیں۔ انھوں نے خود سے شادی کر رکھی ہے یعنی ان کا شریک حیات کوئی اور نہیں وہ خود ہی ہیں۔

وہ اپنی شادی کے بندھن کو ازسرنو تازہ کرنے کی ایک تقریب میں شریک ہوئیں تو انھوں نے کہا کہ ’شادی کے موقع پر میں نے عہد کیا کہ میں اپنے اندر کی آواز کو سُنوں گی اور خود سے ہر دن سوال کروں گی کہ مجھے کس چیز کی ضرورت ہے تاکہ اسے پورا کر سکوں۔‘

مایا کے ان الفاظ پر تقریب میں موجود دیگر خواتین نے تالیاں بجائیں۔

اس بات کا کافی امکان ہے کہ آپ نے ’سولو گیمی‘ کا لفظ کبھی نہیں سُنا ہو گا۔ سپین میں سرکاری طور پر یہ لفظ زبان کا حصہ تک نہیں ہے اگرچہ اس لفظ کی ابتدا وہیں سے ہوئی۔

تاہم خود سے شادی کا رواج دنیا کے کئی ممالک میں مقبول ہو رہا ہے جن میں جاپان، امریکہ، انڈیا، اٹلی اور برطانیہ شامل ہیں۔

سپین سے تعلق رکھنے والی مایا نے سنہ 2011 کے بعد سے اب تک 70 خواتین کو اپنے نقش قدم پر چلنے میں مدد کی ہے۔

تاہم زیادہ تر ممالک میں خود سے شادی کا قانون موجود نہیں۔ تو پھر بھی کئی خواتین ایسا کیوں کرتی ہیں؟

مے سیرانو کا کہنا ہے کہ ’میں نے تو مذاق میں ایسا کیا تھا۔ شادی کے دن تک میرا مقصد صرف رومانوی محبت پر عوامی بحث کو شروع کرنا تھا۔‘

’لیکن اپنے آپ سے شادی کے دن ہمیں احساس ہوا کہ ہم کچھ اہم کرنے جا رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے آپ سے محبت کرتی ہوں، میں اپنی بہترین دوست بھی ہوں، اور اس وقت اور اس لمحے کے دوران میں نے سینکڑوں لوگوں کے سامنے خود سے وعدہ کیا کہ میں اپنا خیال رکھوں گی اور سب سے پہلے اپنے بارے میں سوچوں گی۔‘

نیوس ٹر بجوسا ماہر صنفی امور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صنفی امتیاز سے بالاتر ہو کر ہر فرد کے لیے انفرادی طور پر اپنی ذات کا احترام ضروری ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مردوں کو اپنے آپ کو اہمیت دینا سکھایا جاتا ہے تو پھر عورت کے لیے اس کی ذات کیوں ایک رکاوٹ بنے۔‘

’عورت سمجھتی ہے کہ اپنے آپ سے محبت کرنا ضروری نہیں۔‘

روایتی یعنی مرد اور عورت کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے برعکس اب چند خواتین خود ہی سے شادی کر رہی ہیں

ماہر نفسیات اسپرانکا بوش فیول کا کہنا ہے کہ ’خود سے محبت کرنا سیکھنا اہم ہے، کیوںکہ اس سے ہمیں دنیا میں اپنی جگہ کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘

’دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس سے ہمیں یہ جانچنے میں مدد ملتی ہے کہ کون ہماری محبت کا حقدار ہے اور کون نہیں۔‘ ہم کس سے اور کیسے محبت کرتے ہیں؟ یہ رواج بدل رہا ہے۔ سپین میں اب بھی روایتی رشتہ ازدواج میں بندھے جوڑوں کی اکثریت ہے لیکن اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے۔

اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اب پہلے کی نسبت کم شادیاں ہو رہی ہیں مگر دوسری جانب طلاق کی شرح بڑھ چکی ہے۔

لیکن جنکل جیسی خواتین کا معاملہ کچھ مختلف ہے جنھوں نے دو بار شادی کی۔ پہلی مرتبہ ایک مرد (شوہر) سے اور دوسری مرتبہ خود سے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے خود سے شادی کا فیصلہ اس لیے کیا کیوںکہ اس وقت ہماری سب سے چھوٹی بیٹی پیدا ہوئی تھی اور مجھے اچانک احساس ہوا کہ میری زندگی میں میرے پاس اپنے لیے کوئی وقت اور جگہ نہیں ہے۔‘

’میں جنکل سے پیرو اور میرن کی ماں بن چکی تھی۔‘

جنکل کے شوہر سرگیو کہتے ہیں کہ ’جب اس نے خود سے شادی کے ارادے کا اظہار کیا تو پہلے تو مجھے عجیب سا لگا اور میں حیران ہو گیا۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’اگر وہ خود سے محبت نہیں کرتیں اور وہ اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہیں تو اس سے مجھ پر، ہمارے بچوں پر اور ان سب لوگوں پر اثر پڑتا جو اس کی زندگی سے جڑے ہیں۔‘

’مجھے تو اس بات کا ہی احساس ہوا۔‘

نیوس ٹر بجوسا کا کہنا ہے کہ ’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک وقت تھا جب بینک اکاوئنٹ کھلوانے، گاڑی چلانے کے لیے ضروری تھا کہ عورت کی چرچ میں شادی ہوئی ہو۔‘

’گذشتہ چند دہائیوں میں بہت سی چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود روایتی خاندان ہی معاشرے کا سب سے اہم ستون ہے جسے فطری مانا جاتا ہے۔‘

ماہر نفسیات اسپرانکا بوش فیول کا کہنا ہے کہ بڑی حد تک روایتی شادی کا تعلق عورت کے لیے ایک جیل کی حیثیت رکھتا ہے۔

’اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ساری زندگی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ شادی کرنا ہماری زندگی کا اہم مقصد ہے۔ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ شادی کے بعد گھریلو کام کاج، بچوں، بزرگوں اور بیماروں کا خیال رکھنا عورت کی ذمہ داری رہی ہے۔‘

سپین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2010 میں خواتین نے مردوں کی نسبت گھر کے کاموں پر دو گھنٹے زیادہ صرف کیے۔

کیا سولوگیمی ان اعداد و شمار کو بدل دے گی؟ نیوس ٹر بجوسا کا ماننا ہے کہ سولوگیمی حل نہیں ہے بلکہ یہ ایک پدرانہ معاشرے کی علامت ہے۔

تاہم ایک چیز ضرور بدل رہی ہے۔

اپنی تاریخ کے 300 سال میں پہلی بار، 2018 میں، رائل سپینش اکیڈمی نے زبان میں ایسی خواتین کے لیے ایک لفظ متعارف کروایا جو ایک جیسے تجربات اور پسند رکھتی ہیں۔ یہ لفظ ’سوروریٹی‘ ہے۔

مایا کہتی ہیں کہ ’جب ہم خواتین اکھٹی ہوتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم آئینے کے سامنے کھڑی ہیں۔‘

’یہ تصور کہ عورتیں ایک دوسرے کی حریف ہوتی ہیں ایک پدرانہ معاشرے کی پیداوار ہے جو چاہتا ہے کہ اہم متحد نہ ہو سکیں۔‘

’لیکن اصل میں بلکل الٹ ہوتا ہے۔ جب ہم اکھٹے ہوتے ہیں تو ہم طاقتور ہوتے ہیں۔‘

سنہ 2017 میں مایا نے ایسی خواتین کی تنظیم قائم کی جو ایک ساتھ مل کر تیراکی کرتی تھیں۔ اس تنظیم کے آغاز پر اس کی اراکین کی تعداد 14 تھی۔ آج ان کی تعداد 140 ہے۔

خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے طریقوں سے خواتین کو اپنے حقوق کے حصول میں مدد ملتی ہے۔

مایا کہتی ہیں کہ ’ایک تحریک ہے جو ہم سے کہتی ہے کہ خود سے پیار کرو، کہ ہمیں دوسرے کی نسبت خود سے زیادہ پیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

’لیکن لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‘

’یہ چھوٹے چھوٹے کام ہیں جن سے آپ کو محسوس ہو کہ آپ اپنا خیال رکھ رہے ہیں۔‘

جنکل کہتی ہیں کہ کبھی کبھی ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے کیوں کہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے اور ہم پر خود غرضی کا الزام لگاتے ہیں۔

’لیکن حقیقت یہ ہے خود سے شادی کرنے کے بعد میرا تعلق اپنے شوہر اور بچوں سے بہتر ہوا ہے۔‘ مایا کہتی ہیں کہ ’میں جب آئینہ دیکھتی ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ 11 سال پہلے میں نے خود سے جو وعدہ کیا تھا، میں نے اسے پورا کیا ہے اور میں اب بھی اس پر قائم ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں خوش رہوں گی۔‘

یہ بھی پڑھیں