ہم میں سے کون ہے جو کبھی اپنے دوست کے چلتے چلتے پھسل جانے، یا کھڑے ہوتے وقت سر ٹکرانے یا سیڑھیوں پر قدم لڑکھڑانے کے وقت کھلا کھلا کر نہ ہنس پڑا ہو؟
میں اس طرح کے معاملے میں قصوروار ہونے کا اعتراف کرنے والا پہلا شخص ہوں۔ اس لیے میں ایک بار پھر اپنی ساتھی جینی سے معافی مانگنا چاہوں گا جب میں نے اسے سلو موشن میں فرش پر گرتے ہوئے دیکھا تھا اور کھلا کھلا کر ہنس پڑا تھا۔ حالانکہ اس کی ٹانگوں کے سن ہو جانے کے سبب ایسا ہوا تھا۔
اناڑی پن کے اظہار، توازن کھونے، گرنے وغیرہ جیسی چیزیں امریکی اداکار چارلی چپلن کی مہم جوئی کا خاصہ ہیں جس میں وہ کیلے کے چھلکوں پر بے ساختہ انداز میں باربار پھسلتے ہیں اور لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے سب سے دلچسپ ہوم ویڈیوز میں بچوں کے گرنے اور لوگوں کے ‘پھنس جانے’ جیسے مناظر کو دیکھ کر لوگ بے قابو ہو کر اور دل کھول کر ہنستے ہیں۔
لیکن ایسے حالات میں کیا ہمیں درحقیقت اس میں شامل شخص کے لیے ہمدردی محسوس نہیں کرنی چاہیے جو ایک نازک اور ممکنہ طور پر ذلت آمیز صورتحال سے دوچار ہوتا ہے؟ یقین رکھیں کہ ہماری ہنسی ہمدردی کی کمی یا کسی کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہونے کی جبلت سے نہیں بھڑکتی ہے۔ایک طبی ماہر نفسیات جو جذبات کو کنٹرول کرنے کے شعبے میں مہارت رکھتا ہے اس کے طور پر میں ان حالات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہوں گا جو ہماری عام طور پر سادہ لیکن معنی خیز ہنسی کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
غیر متوقع اور بے محل ہونا
ان میں شامل سب سے پہلی چیز حیرت یا تعجب ہے۔ مزید وضاحت کے ساتھ بات کروں تو یہ کسی شخص کو روزمرہ کی زندگی میں ایک ایسی صورت حال میں حیران دیکھنا جبکہ صرف چند سیکنڈ پہلے ہی سب کچھ اس کے کنٹرول میں تھا۔ غیرمتوقع صورت حال ہمیں حیران کر دیتی ہے اور ہماری توقع کے خلاف کوئی چیز وقوع پزیر ہوتی ہے۔
یہ بے محل اور غیرمتوقع صورتحال ہماری پیشین گوئی کی غلطیوں کو نمایاں کرتی ہے۔ ہم عام طور پر یہ پیشگوئی کرتے ہیں کہ ایکس کے بعد وائی لیکن غیر متوقع طور پر کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ وہاں بی آ جاتا ہے۔ اس طرح ہم نے اپنی پیشین گوئی میں غلطی کی ہوتی ہے کہ آگے کیا ہو گا۔ یہ اب مربوط نہیں رہ جاتا ہے۔ اس صورتحال پر ہنسنا اس کی ایک نئی، زیادہ مربوط، مزاحیہ تشریح کے ذریعے تضاد کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
چہرے کے تاثرات
اس حیران کن اور بے محل یا بے ترتیب صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے ہمارا دماغ ایسی معلومات کی تلاش کرتا ہے جو ہمیں اس کی تشریح کرنے اور اس کے مطابق رد عمل ظاہر کرنے کی اجازت دے۔ ٹھوکر کھانے والے کا چہرہ ہم سے کیا کہنا چاہتا ہے؟ ہم اس سے جو سمجھتے ہیں اسی سے ہمارے ردعمل کا تعین ہوتا ہے۔
ایک مطالعہ کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں شرکاء سے 210 تصاویر دیکھنے کو کہا گیا جو تین قسم کے چہروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔
-
ایک حیرت و استعجاب کے اظہار والی شکل
-
درد یا غصے کے اظہار والی شکلیں یا چہرے
-
ایسے بے چہرہ لوگ جن کے جسموں کو عجیب و غریب حالتوں میں رکھا گیا تھا (مثلاً کسی چیز سے چھپا ہوا چہرہ؛ یا پروفائل میں نظر آنے والا سر جس میں چہرے کو بازو سے چھپا ہوا ہے)۔اس کے ساتھ ہی مطالعہ کے مقصد کے بارے میں شرکا کو الجھانے کے لیے بیس اضافی لینڈسکیپ تصاویر ان میں شامل کی گئیں۔ شرکا سے کہا گیا کہ جب بھی وہ کوئی لینڈ سکیپ تصویر دیکھیں تو بٹن دبائیں اور اس کام کے دوران ان کی دماغی سرگرمی ریکارڈ کی جائے گی۔ شرکا کو یہ بھی بتایا گیا کہ وہ کس تصویر کو کتنا مضحکہ خیز سمجھتے ہیں یہ بھی بتائيں
مطالعہ کے اختتام پر شرکا نے حیرت کے چہروں والی تصاویر کو ان تصاویر سے زیادہ مضحکہ خیز قرار دیا جن میں چہروں پر درد یا غصے کا اظہار تھا، اور ان تصاویر سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بتایا جس میں جسم مضحکہ خیز پوزیشن میں دکھائے گئے تھے لیکن چہرے کے تاثرات چھپے ہوئے تھے۔
دماغی اعداد و شمار نے چہرے کے تاثرات کو ایک جزو کے طور پر سپورٹ کیا کہ ہمیں یہ عجیب و غریب حالات کتنے مضحکہ خیز لگے۔
لہٰذا جب ہم اناڑی پن کا شکار ہونے والے کے چہرے کے تاثرات میں الجھن محسوس کرتے ہیں (حیرت، تعجب، پریشانی والی صورت) تو یہ معلومات ایک ایسا تناظر پیدا کرتی ہے جو ہماری ہنسی کو متحرک کرتی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم چہرے کے تاثرات میں تکلیف یا غصے کو پڑھتے ہیں، تو ہم گرنے والے کی تکلیف سے متاثر ہوں گے اور ان کی تکلیف پر ہمدردی ہوگی اور یہ ہمیں ہنسنے سے روکے گا۔ ہمارے اعصابی سرکٹس میں بدقسمتی سے حالات کے مضحکہ خیز عناصر کو پہچاننے اور ان کی تعریف کرنے اور سیاق و سباق کو خطرے سے دور ہونے کے طور پر تجزیہ کرنے کی صلاحیت دکھائی دیتی ہے۔
کیا ہو اگر میں اس حالات کا شکار ہوں۔۔۔؟
کسی دوسرے شخص کی بدقسمت صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد اگر ہم خود کو اسی صورت حال میں تصور کریں اور پوچھیں کہ ‘اگر میں ہوتا تو کیا ہوتا؟’
ہم اس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ کس صورت حال گزر رہے ہیں اور وہ کیا محسوس کر رہے ہوں گے۔ ہمدردی کی یہ مشق ہمارے اندر بے چینی، بے بسی، ذلت اور شرم جیسے جذبات کو تیزی سے متحرک کر سکتی ہے۔ اس معاملے میں اگر ہنسی آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس حالت میں نہ ہونے اور اس سے دور ہونے پر راحت محسوس کرتے ہیں۔
آئیے ہم دوسرے لوگوں کے اناڑی پن اور مضحکہ خیز حالات پر ہنسنے کے لیے خود کو معاف کر دیتے ہیں! ہم دوسرے شخص کے دکھ یا تکلیف پر ہنس نہیں رہے ہیں۔ ہم ان کی متحیر، بے ہنگم اور عدم مطابقت والے ان کے حیران کن اظہار پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، یہ سمجھ کر کہ وہ اصل میں تکلیف میں نہیں ہیں اور انھوں نے واقعی خود کو نقصان نہیں پہنچایا ہے۔
اور اس انکشاف پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ایک بار ایک دراڑ میں پاؤں پھنس جانے کی وجہ سے میں خود ہی لڑکھڑا گیا تھا۔ امید کہ آپ کو اس پر ہنسی آ رہی ہوگی!’