پاکستان میں ’پھلوں کے بادشاہ‘ کے نام سے مشہور آم کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں اور لوگ مختلف طریقوں سے اسے کھانا پسند کرتے ہیں۔ اور جب کسی غیر ملکی شہری کو سکھانا ہو کہ آم کیسے کھایا جاتا ہے، تو لوگوں کے مشورے بھی دلچسپ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں آسٹریلیا کے سفیر ڈاکٹر جیفری شا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں پاکستانی آم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان دنیا بھر میں آم کی برآمد کرنے والا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ آسٹریلیا میں پاکستانی آم کی پذیرائی بڑھتی جا رہی ہے۔‘
لیکن لوگوں کا دھیان ان کی بات سے زیادہ اس پلیٹ پرگیا جس کی تصویر انھوں نے اپنے ٹویٹ میں لگا رکھی تھی۔ ڈاکٹر جیفری نے بڑی خوبصورتی سے آم کا چھلکا اتار کر اس کے ٹکڑے کیے ہوئے تھے۔ اور ان کے ہاتھوں میں چھری کانٹا تھا۔
سوشل میڈیا پر سفیر کے آم کھانے کے انداز نے پاکستانیوں کو متاثر نہیں کیا اور پھر ’سر آپ آم غلط طریقے سے کھا رہے ہیں‘ کی گونج سنائی دینے لگی۔
’آم ادب سے کھانا اس کے ساتھ ناانصافی ہے‘
ٹوئٹر پر کئی صارفین نے آسٹریلوی سفیر کو مشورہ دیا کہ پہلے تو آپ اس چھری کانٹے کو دور کریں۔
محسن نامی صارف نے لکھا: ’جب آپ روم میں ہوں تو آپ رومیوں جیسا انداز اپنائیں۔ یہ آم پاکستانی سٹائل سے کھائیں اگر آپ واقع اس کا صحیح مزہ چکھنا چاہتے ہیں۔
نبیل شاہ نے کہا کہ ’آپ اسے کچی لسی کے ساتھ کھائیں۔‘ ایک صارف نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ’سر اصول کچھ یوں ہیں کہ آپ وحشی بن کر آم کھائیں۔ اس کانٹے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘
خالد فاروق کے مطابق ’بچپن میں وہ اور ان کے دوست بڑی تعداد میں آم برف میں ٹھنڈے کیا کرتے تھے اور پھر بہت زیادہ کھایا کرتے تھے۔ اس وقت ہم آم کا رس ہاتھوں سے دبا کر اسے پیا کرتے تھے۔ یہ روایتی انداز ہے۔‘
ارسلان نامی صارف نے لکھا کہ آم کھانے کے لیے بغیر آستین والی شرٹ پہنیں۔ ’اس وقت تک کھائیں جب تک آپ کو نیند نہ آجائے اور وہیں سو جائیں۔ پھلوں کے بادشاہ کو ادب سے کھانا اس کے ساتھ ناانصافی
اتنے دباؤ کے بعد ڈاکٹر جیفری شا کو اپنی اصلاح کرنا پڑی اور انھوں نے ایک نئے ٹویٹ میں اپنے فالوورز کو بتایا کہ انھوں نے آم کھانے کا ’صحیح طریقہ‘ سیکھ لیا ہے۔
ہاتھ سے آم کھاتے ہوئے انھوں نے اپنی تصویر کے ساتھ یہ پیغام لکھا کہ ’میں نے پاکستان کے روایتی انداز سے آم کھانے کی کوشش کی ہے۔ امید کو آپ کو یہ دیکھ کر اچھا لگے گا۔‘
پاکستان میں آم ’پھلوں کا بادشاہ‘ کیسے؟
پاکستان میں آموں کی دو سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں سندھڑی، چونسہ، انور رٹول، لنگڑا، سرولی، سنہرا، بینگن پھلی، کلیکٹر، نیلم، صالح بھائی، زعفران، گلاب خاصہ، دسہری اور الماس اپنے ذائقہ اور خوشبو کی وجہ سے نسبتاً مشہور ہیں۔
پاکستان اور انڈیا میں کئی لوگوں کے لیے آم ان کا پسندیدہ پھل ہے۔ پاکستان کا آم اس کے ہمسایہ ملک چین میں ’مقدس پھل‘ بن چکا ہے۔
صحافی ہرچندر نے ایک مضمون میں لکھا کہ آم کے چین پہنچنے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ پاکستان نے محسوس کیا کہ چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہیے۔ اس وقت تک انڈیا اور چین کے مابین 1962 کی جنگ لڑی جا چکی تھی۔ یہ سنہ 1968 کا موسم گرما تھا جب پاکستان کے وزیر خارجہ سید شریف الدین پیرزادہ چینی رہنما ماؤ سے ملنے خصوصی طیارے میں بیجنگ پہنچے۔ بطور تحفہ وہ اپنے ساتھ اچھے معیاری قسم کے آم کی 40 پیٹیاں لے گئے۔ اس وقت تک یہ ایک ایسا پھل تھا جس سے چین میں زیادہ تر لوگ واقف ہی نہیں تھے۔
’اب ماؤ اتنے سارے آموں کا کیا کرتے اس لیے انھوں نے وہ تمام آم ان مزدور رہنماؤں کو بھیج دیے جو اس وقت شنہوا یونیورسٹی پر قبضہ کیے بیٹھے تھے۔ آم ملنے پر ان رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ کامریڈ ماؤ کا ایک قیمتی تحفہ ہے لہذا ان میں سے ایک ایک بیجنگ کی تمام فیکٹریوں میں بھیجا جانا چاہیے۔ آم کا ذائقہ تو ہر کوئی نہیں لے سکا لیکن چین میں یہ کہانی پھیل گئی آم مزدوروں سے ماؤ کی محبت کی علامت ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایک بار جب آم لوگوں کے قصے اور کہانیوں میں پہنچا تو وہ جلد ہی ان کے کھیتوں میں بھی پہنچ گیا۔ اب آم چین کی بیشتر علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔