چند علامتیں ہی دنیا بھر میں اس قدر مقبول ہوتی ہیں جیسے ’سمائلی فیس‘۔
یہ اب سوشل میڈیا پر ہر جگہ نظر نظر آتا ہے۔ ہم اس ’سمائلی‘ کو میسجنگ ایپس کے ذریعے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو بھیجتے اور وصول کرتے ہیں، اور یہ سٹریس بالز سے لے کر ڈش واشنگ سپنج، یہاں تک کہ غیر قانونی منشیات میں بھی عام ہے۔
محض دو سیاہ نقطے اور ایک لکیر مسکراتے ہوئے انسانی چہرے کا نچوڑ ہیں اور اس سے خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔
لیکن آج یہ ایک ایسی کمپنی کا اہم اثاثہ بھی ہے جو اس سے سالانہ 500 ملین امریکی ڈالر کما رہی ہے۔
لیکن اس ڈیزائن آئیکون کے پیچھے دماغ کس کا تھا اور اتنا آسان خیال ایک منافع بخش کاروبار میں کیسے بدل گیا؟
اور یہ ’سمائلی‘ اپنے اصل خالق کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ کیسے لگ گئی؟
یہ سمائلی کیسے دریافت ہوئی؟
مسکراتے انسانی چہروں کی عکاسی ہزاروں طریقوں سے کی جاتی ہے۔
اگرچہ یہ ایک متنازع معاملہ رہا ہے مگر آج یہ کم و بیش واضح ہے کہ جدید ’سمائلی‘ کا مشہور آئیڈیوگرام ڈیزائن کرنے والے سب سے پہلے امریکی آرٹسٹ اور ڈیزائنر ہاروی بال تھے۔
انھوں نے یہ ڈیزائن 1963 میں ریاست میساچوسٹس کے شہر وورسسٹر میں ایک انشورنس کمپنی کے وائس پریذیڈنٹ جیک ایڈم کی درخواست پر تیار کیا تھا۔
جیک ایڈم نے ہاروی بال سے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب کمپنی غیریقینی جیسی کیفیت سے گزر رہی ہے تو ایسے میں وہ ملازمین کے حوصلے کو بلند کرنے کے لیے ایک ایسی تصویر بنائیں۔
ہاروی بال جن کی وفات سنہ 2001 میں ہوئی نے کہا کہ انھیں یہ ’سمائلی‘ بنانے میں صرف دس منٹ لگے اور انھیں اس کے بدلے 45 ڈالر موصول ہوئے
ورسسٹر ہسٹوریکل میوزیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ولیم والیس کا کہنا ہے کہ ہاروی بال کی طرف سے بنائے گئے سمائلی چہرے کے نمایاں عناصر میں روشن پیلے رنگ کا پس منظر، ایک مکمل گول شکل اور آنکھوں اور منھ میں ہلکی سی ہم آہنگی کا ہونا ہے۔
ہاروی بال سے منسوب ہے کہ ’مجھے ایک فیصلہ کرنا تھا۔۔۔ کیا میں مسکراہٹ اور آنکھوں کے لیے کمپس استعمال کروں۔ پھر میرے ذہن میں آیا کہ نہیں، مجھے یہ اس کے بغیر ہی کرنا ہو گا۔‘
جب یہ سمائلی بن گئی تو پھر اس کے بعد اس کا ڈیزائن نشورنس کمپنی کی پلیٹوں پر استعمال ہونے لگا۔
سٹیٹ میوچل کمپنی کے ملازمین اور صارفین کی طرف سے 100 ’بیجز‘ کی پہلی کھیپ اتنی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی کہ پھر وہ اسے سو کے بجائے 10,000 کی تعداد میں تیار کرنے لگے۔
صرف دو برس میں دیکھتے ہی دیکھے ’سمائلی‘ کے یہ بیجز انشورنس کمپنی سے نکل کر اب ہر ایک کے استعمال میں آنے لگ گئے۔
سمائلی فیس کے موجد کو کاپی رائٹس میں دلچسپی نہیں تھی
سنہ 1967 میں سیاٹل کے ایک پبلسسٹ ڈیوڈ سٹرن نے نیویارک میں سمائلی فیس والی پلیٹیں دیکھیں تو پھر اس آئیڈیا کو یونیورسٹی فیڈرل سیونگز اینڈ لون بینک کی مہم کے لیے استعمال کیا۔
ڈیوڈ سٹرن کے مطابق اس مہم کے لیے تقریباً نصف ملین سمائلی چہرے کے بٹن پرنٹ کیے گئے تھے ۔ یہ اس کی یقینی مقبولیت میں ایک اہم قدم تھا۔
لیکن جب تک یہ برنارڈ اور مُرے سپین بھائیوں کے ہاتھوں میں فلاڈلفیا میں پہنچا تو پھر یہ ایک قیمتی اثاثہ بن گیا۔
مُرے سپین نے اسے پیزا باکس میں دوبارہ ڈیزائن کیا اور اسے ہر قسم کی اشیا پر چسپاں کر دیا یعنی کارڈز، پوسٹرز، ٹی شرٹس، کپ اور لیمپ وغیرہ پر اسے لگا دیا گیا۔
وہ انشورنس یا قرض دینے کے لیے اس سمائلی چہرے کو استعمال کرنے میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس کے بجائے خود ہی سمائلی چہرہ فروخت کرتے۔
اور چونکہ نہ تو ہاروی بال اور نہ ہی سٹرن، نہ ہی وورسسٹر انشورنس کمپنی اور نہ ہی سیاٹل بینک نے مسکراہٹ والے چہرے کے کاپی رائٹس حاصل کرنے کی زحمت گوارا کی تو ایسے میں ان بھائیوں نے اس خلا کو پُر کیا۔
انھوں نے ’ہیو اے ہیپی ڈے‘ جیسے جملے اس سمائلی کے ساتھ درج کروائے۔
ان کی طرف سے یہ ’سمائلی‘ سنہ 1970 میں ’دی نیویارکر‘ میگزین کے صفحات پر اور اپریل 1972 میں ’میڈ میگزین‘ کے سرورق پر شائع ہوئے۔
یہ ایک تجارتی رجحان تھا۔
جب سنہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں کاروبار تیز ہوا تو انھوں نے صرف دو برسوں میں دو ملین ڈالر کما لیے۔
اس سمائلی کے حقیقی تخلیق کار ہاروی بال ’کاپی رائٹ‘ یعنی اس کے جملہ حقوق محفوظ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
مؤرخ ولیم والیس کے ساتھ بات چیت میں ہاروی بال نے کہا کہ جب انھوں نے ’دی نیویارکر میگزین‘ میں اس ننھے چہرے کو دیکھا تو انھیں معلوم ہوا کہ انھوں نے کچھ ایسا کیا ہے، جس نے دنیا کے تصور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے
سمائلی کمپنی جس نے اسے کاروبار میں بدل دیا
اس مقبول سمائلی کی پیچیدہ تاریخ میں اضافہ سنہ 1971 میں اخبار ’فرانس سوئر‘ کے ایک فرانسیسی صحافی فرینکلن لوفرانی نے کیا، جس نے مثبت خبروں کی نشاندہی کرنے کے لیے ہاروی بال جیسا چہرہ استعمال کیا۔
فرینکلن لوفرانی، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کے مؤجد ہیں، چھوٹے چہرے کی معاشی افادیت سے واقف تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اسے بطور ٹریڈ مارک رجسٹر کیا۔
اپنے نام پر برانڈ رجسٹر کروانے کے بعد لوفرانی نے صحافت چھوڑ دی اور ’دی سمائلی کمپنی‘ کی بنیاد رکھی۔
فرانس میں سمائلی کو مقبول بنانے کی ان کی حکمت عملی میں یونیورسٹی کے طلبہ کو دس ملین سٹیکرز دینا بھی شامل تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے وہ ملک بھر میں یوٹیلٹی پولز اور کاروں پر چسپاں تھے۔ وہ ایک دم ہی ثقافت کا حصہ بن چکے تھے۔
70 کی دہائی کے وسط میں لوفرانی اور دی سمائلی کمپنی نے ایسے برانڈز کے ساتھ ملین ڈالر کی ڈیلز ختم کرنا شروع کر دیں جو اپنی پروڈکٹس پر سمائلی استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ ان میں لیوائز، بونیٹوز اور ایم اینڈ ایم جیسی کمپنیاں شامل ہیں۔
لوفرانی کی کمپنی کے لیے 80 کی دہائی سنہری ثابت ہوئی اور 1990 کی دہائی تک انھوں نے پہلے ہی 70 سے زیادہ ممالک میں سمائلی فیس رجسٹر کرا لیا تھا۔ آج یہ تقریباً سو ممالک میں رجسٹرڈ ہے۔
سنہ 1996 میں انھوں نے کمپنی کا کنٹرول اپنے بیٹے نکولس کو سونپ دیا، جس نے ایک سال بعد وہ قدم اٹھایا اور سمائلی کو ڈیجیٹل کمیونیکیشن کا ایک لازمی حصہ بنا دیا۔
انھوں نے مختلف ’سمائلی‘ تاثرات والے سینکڑوں ایموجیز یا ایموٹیکانز ڈیزائن کیے تھے۔
یہ پہلی گرافک والی ایموجیز تھیں۔
آج کمپنی فون اور انٹرنیٹ پر ایموجیز کے استعمال سے کچھ نہیں کماتی۔ لوفرانی جونیئر نے سنہ 2016 کے دوران بتایا کہ ’اب یہ ہمارے کاروبار کا حصہ نہیں رہا مگر ہمیں خوشی ہے کہ ہم ایک نئی زبان متعارف کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔‘
سمتھسونین میگزین کے مطابق نکولس لوفرانی نے کہا ہے کہ سمائلی کا ڈیزائن اتنا سادہ ہے کہ کوئی بھی شخص اسے بنانے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ تاہم سمائلی کمپنی کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ فرینکلن لوفرانی نے اسے بنایا تھا۔
والمارٹ کے ساتھ تنازع
والمارٹ سپر مارکیٹ بھی اس کہانی کا حصہ ہے۔
سنہ 1997 میں لوفرانی نے ’سمائلی‘ کو رجسٹر کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ’سمائلی‘ کی اصطلاح کو امریکہ میں بطور ٹریڈ مارک رجسٹر کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کے جملہ حقوق محفوظ بنائے جا سکیں۔
والمارٹ کم قیمتوں کی نشاندہی کرنے کے لیے برسوں سے اپنے سٹورز پر ’سمائلی‘ لگا رہا تھا۔
اس کے بعد سپر مارکیٹ کی اس بڑی کمپنی نے سمائلی کمپنی کی سمائلی کو رجسٹر کرنے کی درخواست پر قانونی نوٹس بھجوا دیا اور اس سمائلی کو خود رجسٹر کرنے کی درخواست دائر کر دی۔
سمائلی کمپنی نے دعویٰ کیا کہ ان کا کاروبار خطرے میں ہے۔
یہ عدالتی جنگ سنہ 2011 تک جاری رہی، جب لوفرانی اور والمارٹ ایک معاہدے پر پہنچ گئے۔ تاہم اس معاہدے کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔
سنہ 2016 میں والمارٹ نے دس سال بعد دوبارہ سمائلی کا استعمال شروع کر دیا۔
یہ پیلے رنگ کے ’سمائلی‘ فیس کی 60 سالہ تاریخ کا قانونی تنازع رہا ہے
آج کی ’سمائلی‘ کا قصہ
فی الحال سمائلی کمپنی کی سالانہ آمدن تقریباً 500 ملین ڈالر ہے۔
اس کی ویب سائٹ پر سیکڑوں پروڈکٹس فروخت کی جاتی ہیں، لباس اور لوازمات سے لے کر گھر کی اشیا اور کھانے پینے کی اشیا تک۔
ان سب کے ساتھ، ہاروی بال نے کبھی بھی ’سمائلی‘ کو رجسٹر کرنے یا کاروبار پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس بات پر فکر مند ہیں کہ دوسرے لوگ ’سمائلی‘ سے بہت زیادہ پیسہ کما رہے ہیں تو کا جواب تھا کہ ’مجھے اپنے کام کے پیسے مل گئے۔ میں ایک وقت میں صرف ایک کار چلا سکتا ہوں اور ایک وقت میں ایک سٹیک کھا سکتا ہوں۔‘
ان کے بیٹے چارلس بال نے ان کی موت کے بعد کہا کہ ’ان کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے اور انھیں پسند کرتے تھے۔ انھیں دنیا بھر سے خطوط موصول ہوئے، جس میں اس ننھے چہرے کو متعارف کرانے پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔
’آپ اس کی قیمت کیسے لگاتے ہیں؟ وہ بغیر کسی پچھتاوے سے سکون سے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘
تاہم انھیں اس بات کی فکر تھی کہ لوفرانی کے ہاتھوں ضرورت سے زیادہ کاروبار کہیں اس کی تخلیق کے اصل معنی اور خیال کو بدل کر نہ رکھ دے۔
اسی سے سنہ 1999 میں ’ورلڈ سمائل ڈے‘ منانے کا خیال آیا، جو تب سے اکتوبر کے پہلے جمعے کو منایا جاتا ہے۔ ان کا نصب العین تھا کہ ’مہربانی کا کام کرو، ایک شخص کو مسکرانے کے قابل بناؤ۔‘