ریسٹ ان پیس بلجیت۔۔۔۔ تم کتنے لوگوں کی انسپریشن تھیں۔‘
پیر کو نیپال میں واقع دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں سے ایک اناپورنا سے جب انڈین کوہ پیما بلجیت کور اور آئرئش نوئل ہنا کی ہلاکت کی خبریں آئیں تو کوہ پیماؤں کے گروپوں اور سوشل میڈیا پر ان کی یاد میں پیغامات کی کا تانتا بندھ گیا۔
نویل کی لاش تو کیمپ فور سے نیچے لانے کے انتظامات کیے جا رہے تھے مگر بلجیت کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں لاپتا ہوئی تھیں اور جس وقت دنیا انھیں مردہ سمجھ چکی تھی اس وقت ’ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈیما‘ کا شکار بلجیت اناپورنا کے ڈیتھ زون میں 27 گھنٹے سے زائد گزارنے کے بعد خود کو نیچے گھسیٹ کر لانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔
’ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈیما‘ وہ حالت ہے جس میں بلندی اور آکسیجن کی کمی کے باعث بیشتر کوہ پیماؤں کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، وہ ہذیان میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور تصوراتی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں
منگل کے روز اچانک خبر ملی کہ بلجیت زندہ ہیں اور ان کی تلاش میں جانے والے تین ہیلی کاپٹروں میں سے ایک نے انھیں لانگ لائن (ہیلی کاپٹر سے رسی پھینک کر ریسکیو کا طریقہ) کے ذریعے انا پورنا کی 7600 میٹر بلندی سے بچا لیا ہے جہاں تک وہ خود کو گھسیٹ کر لا چکی تھیں۔
بلجیت اس وقت کٹھمنڈو کے ایک ہسپتال میں زیرِعلاج ہیں۔
بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے بلجیت نے گذشتہ اتوار کے روز دن دو بجے چوٹی سر کرنے کے لیے نکلنے سے لے کر 49 گھنٹے بعد ریسکیو کیے جانے تک کے واقعات بتائے ہیں۔
اناپورنا پر بلجیت کے ساتھ کیا ہوا، ان کی کہانی سننے سے پہلے اس بہادر لڑکی کو تھوڑا سا جاننا ضروری ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ وہ اتنی ہمت کیسے دکھا پائیں۔
زمیندار گھرانے سے ہوں تو کھیتوں سے ہی جڑی ہوں، پہاڑوں سے جڑی ہوں‘
ہماچل کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والی بلجیت کور پہاڑوں میں ہی پلی بڑھی ہیں۔
27 سالہ کوہ پیما تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ جب وہ کوہ پیمائی کا اپنا شوق پورا نہیں کر رہی ہوتیں تب وہ معذور بچوں کو ڈانس سکھانے کے ساتھ ساتھ فٹنس اور یوگا کی ٹریننگ دی رہی ہوتی ہیں۔
بلجیت کہتی ہیں کہ زمیندار گھرانے سے ہوں تو ’کھیتوں سے ہی جڑی ہوں، پہاڑوں سے جڑی ہوں‘۔
ہماچل میں ان کا گھر ایسی جگہ پر ہے جہاں سے پہاڑ شروع ہوتے ہیں اور ’سردیوں میں ان کے دل میں خواہش مچلتی کہ وہ سب سے پیچھے جو کشمیر کی سفید پہاڑی ہے اسے دیکھنا ہے۔‘
کالج میں انھوں نے نیشنل کیڈٹ کورس کا انتخاب کیا جو انڈین آرمی کے ماتحت ہوتا ہے۔ 18 سال کی عمر میں آرمی ونگ میں انھیں ماؤنٹینیرینگ کورس کرنے کا موقع ملا اور بس یہیں سے اونچے پہاڑوں پر جھنڈے گاڑنے کے ان کے سفر کا آغاز ہوا۔
سب سے پہلے انھوں نے ہماچل میں ماؤنٹ ٹیبا (6001 میٹر) سر کی اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
گذشتہ برس انھوں نے نیپال میں موجود 8000 بلندی کی پانچ چوٹیاں 30 دنوں میں سر کر لی تھیں اور اُسی وقت انھوں نے اناپورنا کو دوسری مرتبہ مصنوعی آکسیجن کے بغیر سمٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بلجیت نے مناسلو بنا آکسیجن کے سر کر رکھی ہے جس سے انھیں اعتماد ملا کہ وہ اناپورنا بھی بنا آکسیجن کے سر کر سکتی ہیں۔
مگر انا پورنا میں اونچائی بہت زیادہ ہے جس کے لیے انھیں اچھی ٹیم چاہیے تھی مگر ان کے مطابق یہاں وہ کوہ پیمائی کو کمرشلائز کرنے والی نیپالی کمپنیوں کی بے حسی کا شکار بن گئیں۔
دماغ کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا‘
بلجیت بتاتی ہیں کہ وہ گذشتہ اتوار کو دن 2 بجے سمٹ کے لیے نکلی تھیں۔
پیر کی شام تک وہ چوٹی سر کر چکی تھیں مگر تب تک انھیں پہاڑ پر آکسیجن کے بغیر 27 گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا اور ان میں ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما (HACE) کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو چکی تھیں۔
’سمٹ کرتے ہی مجھے سپنے (خواب) آنے لگ گئے‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’دماغ کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا اور میں مسلسل اس کے ساتھ لڑائی لڑ رہی تھی۔‘
یہاں یہ یاد رہے کہ انسانی جسم سطح سمندر سے 2100 میٹر تک کی بُلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے اور اس سے زیادہ بلندی پر جسم میں آکسیجن کی سچوریشن تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
اتنی بلندی پر عموماً کوہ پیما ہائی پوکسیا (آکسیجن کی کمی) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہائی پوکسیا کے ساتھ نبض تیز ہو جاتی ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ خراب حالت میں کوہ پیماؤں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے اور وہ ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما (HACE) کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہاں انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی کمی سے جہاں ’آلٹیٹیوٹ سکنیس (اونچائی پر لاحق ہونے والی بیماری)‘ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں وہیں اتنی بلندی پر تیز ہوائیں بھی کوہ پیماؤں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔
انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائٹ کا باعث بن سکتا ہے۔
اتنی بلندی پر انسانی جسم کو پیش آنے والے طبی مسائل کے حوالے سے کی گئی تحقیق کے مصنف پروفیسر ہربرٹ این ہلٹگرین کے مطابق یہاں تک چڑھنے والے کوہ پیما سیریبرل اینڈیما، ریٹنا ہیمرج، شدید سر درد، متلی، بد نظمی، ہیلوسینیشن یا نظر کا دھوکا وغیرہ جیسے طبی حالات سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔
اٹھ ہزار میٹر سے اوپر پہاڑ کے ڈیتھ زون میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہاں آپ مخصوص وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتے ہیں اور یہاں نیند یا زیادہ دیر رکنے کا مطلب موت ہے۔
اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جتنا جلدی ہو سکے چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر آپ نے سنہ 2015 میں ریلیز ہونے والی ’ایورسٹ‘ فلم دیکھی ہے تو آپ بلجیت کی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
’ایورسٹ‘ فلم میں سمٹ کے بعد نیچے آتے ہوئے نیوزی لینڈ کے گائیڈ اور کوہ پیما اینڈی ہیرس کے دماغ میں ہذیانی خیالات آنے لگتے ہیں، وہ اپنے کپڑے اور گئیر سب اتار پھینکتا ہے اور موت کو گلے لگا لیتا ہے۔
اناپورنا پہاڑ 8091 میٹر بلند ہے اور اس کا ڈیتھ زون 91 میٹر ہے (پہاڑ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جو 8000 میٹر سے اُونچا ہو)۔
ماہرین کے مطابق انسانی جسم کی سروائیول کی قدرتی لمٹ 8000 میٹر ہے۔ اس سے اوپر جسم کے سارے اعضا آہستہ آہستہ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔
بلجیت نے اس خطرناک زون میں 27 گھنٹے گزارے ہیں اور ان کے ساتھ بھی وہی ہو رہا تھا جو اینڈی ہیرس کے ساتھ ہوا۔
انھوں نے سمٹ کرنے سے منع کر دیا اور کہا ’میرے لیے سمٹ ضروری نہیں ہے، چھوڑو میں اگلے سال آ جاؤں گی، نیچے چلتے ہیں‘۔
مگر ان کی بات نہیں سنی گئی اور ان دو ناتجربہ کار نوجوان شرپاؤں نے ضد پکڑ لی کہ ہمیں سمٹ کرنا ہی ہے۔
انھیں جاتا دیکھ اور تصویریں بنواتے دیکھ کر بلجیت نے سوچا تھوڑا (10 میٹر) سا ہی تو فاصلہ ہے میں بھی جا کر فوٹو کھنچوا لیتی ہوں اور یہی سوچ کر اپنے قدم بڑھا دیے۔
سمٹ کر کے اپنی ویڈیو تو انھوں نے فوراً بنا لی مگر تصویر بنوانے کے لیے بلجیت کو ان دونوں کی منتیں کرنا پڑیں۔
شام کو سمٹ کے بعد بلجیت کو سمجھ آ چکی تھی کہ اس کے بعد آگے کیا ہونے والا ہے اور یہ ’دونوں مجھے نہیں سنبھال پائیں گے۔‘
پھر وہی ہوا جس کا بلجیت کو ڈر تھا۔
بلجیت کے مطابق دونوں ناتجربہ کار شرپا بلجیت میں ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما کی علامات سمجھنے سے قاصر تھے ’انھیں یہ بھی نہیں پتا تھا یہ کس چیز کی علامات ہیں۔‘
مگر بلجییت فوج سے تربیت یافتہ ہیں اور وہ اپنی حالت خود سمجھ چکی تھیں، اور اسی حساب سے ایکشن لے رہیں تھیں، انھوں نے ان دو شرپاؤں کو کہا کہ ’جلدی نیچے چلو، مگر وہ دو بہت نئے تھے اور شاید وہ خود بھی ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما کا شکار ہو چکے تھے اور دنیا کے سب سے خطرناک پہاڑ کی چوٹی پر کھیلنے لگ گئے۔‘
بلجیت کہتی ہیں کہ ’انھیں کھیلتے دیکھا تو میں یہ کہتے ہوئے نیچے کی جانب مڑ گئی کہ ’مجھے یہاں نہیں رکنا، یہ دونوں یہاں مریں گے اور مجھے بھی ماریں گے۔‘
ان شرپاؤں کے پاس بلجیت کے آکسیجن ٹینک کے علاوہ اپنا اپنا آکسیجن کا ایک ایک ٹینک تھا۔
بلجیت اس مرتبہ آکسیجن کے بغیر اناپورنا کا سمٹ کر رہی تھیں، وہ بتاتی ہیں کہ مجھے آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑتی مگر کچھ وقت کے بعد انھیں بہت نیند آنے لگی۔
اس وقت بلجیت نے ان دو شرپاؤں کو کہا کہ ’میں چل نہیں پا رہی ہوں اور مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما ہو چکا ہے۔‘
جیسی دنیا میں چاہتی تھی ویسی ہی دنیا مجھے دکھائی دینے لگی‘
بلجیت کے الفاظ میں جب وہ ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما کا شکار ہوئیں تو ’جیسی دنیا میں چاہتی تھی ویسی ہی مجھے دکھائی دینے لگی۔۔۔۔ ٹینٹ لگا ہے۔۔۔ میرے اردگرد بہت سے لوگ جمع ہیں۔۔۔‘
’مگر تھوڑی دیر بعد مجھے دھیان آتا کہ نہیں یہاں کچھ نہیں ہے سب میرے دماغ کا فتور ہے، جلدی نیچے چل۔۔۔‘
بلجیت اس وقت مسلسل اپنے دماغ سے لڑائی لڑ رہی تھیں۔ مگر رات کے 10 سے 11 کے درمیان تقریباً 7800 میٹر کی بلندی پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ دونوں شرپا بھی بلجیت سے لڑنے لگے۔۔۔
مجھے یہاں انھیں روک کر پوچھنا پڑا کہ یہ لڑائی ان کے تصورات میں ہو رہی تھی یا واقعی ان کا شرپاؤں سے جھگڑا ہوا؟
بلجیت کہتی ہیں کہ یہ حقیقت تھی اور میں سمجھ سکتی تھی کہ وہ دونوں شرپا مجھ سے جھگڑ رہے ہیں، وہ الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے تو ’میں نے انھیں بولا کہ تم دونوں میرے ساتھ یہاں مرو گے، پلیز تم چلے جاؤ تمھارے پاس آکسیجن بھی محدود ہے اور وہ ختم ہو گئی تو تم بھی ختم ہو جاؤ گے اور میری وجہ سے تمھاری فیملی بھی ختم ہو جائے گی‘۔
ایک شرپا بلجیت کو چھوڑ کر چل دیے پھر دوسرا شرپا آیا اور بولا ’میں چلا جاؤں؟‘
بلجیت نے اسے کہا ’میں تو آکسیجن استعمال کر نہیں رہی مگر تمھارے پاس صرف ایک ٹینک ہے، جلدی چلے جاؤ ورنہ دونوں یہیں مر جاؤ گے۔ میں خود آ جاؤں گی اور بیس کیمپ میں آ کر ملتی ہوں۔‘
رات بھر خود کو گھسیٹتی رہی‘
بلجیت بتاتی ہیں کہ ان دونوں شرپاؤں کے جانے کے بعد 7800 میٹر کی بلندی پر ’شاید میں دو سے تین گھنٹوں کے لیے سو گئی تھی۔‘
جب وہ رات میں اٹھیں تو انھیں لگا ’میں ٹینٹ میں ہوں اور میرے اردگرد لوگ ہیں مگر جب میں آنکھیں کھولتی تو وہاں کچھ نہیں تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ انھیں دور کیمپ فور پر روشنی نظر آ رہی تھی اور وہ خود کو سمجھا رہی تھیں کہ ’مجھے وہاں تک پہنچنا ہے، مجھے نہیں پتا کہ کیسے کیا مگر میں رات بھر خود کو گھسیٹی رہی۔‘
انسٹرکٹر نے کہا تھا ’بے شک پوری دنیا چھوڑ دو مگر اپنا سیفٹی اینکر اور رسی نہیں چھوڑنی‘
وہ اس کی وجہ اپنی ٹریننگ کو قرار دیتی ہیں، بلجیت بتاتی ہیں کہ انھوں نے انڈین آرمی سے تربیت لی ہے ’مجھے لگتا ہے یہ میری ٹریننگ ہی تھی جس کے باعث میں خود کو گھسیٹ پائی۔۔۔ مجھے اپنے انسٹرکٹر کی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں کہ پہاڑوں میں جب تم ہوش و ہواس کھو بیٹھو تو ایک بات نہیں بھولنی کہ بے شک پوری دنیا چھوڑ دو مگر اپنا سیفٹی اینکر اور رسی کسی صورت نہیں چھوڑنی۔‘
’میرے دماغ میں صرف ایک بات چل رہی تھی کہ بلجیت تو نے سیفٹی اینکر اور رسی کو نہیں چھوڑنا۔ سیفٹی اینکر کو اتارنا بھی ہے تو سوچ سمجھ کر شفٹ کرنا ہے۔۔۔ یہ میرے دماغ میں کلئیر تھا۔‘
’بلجیت تو اینکر کیوں لگا رہی ہے؟ چھوڑ نہ، بنا اینکر کے ہی اڑ جا‘
بلجیت بتاتی ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کسی پہاڑ پر ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما کا شکار ہوئیں تھیں ’میں بھول رہی کہ میں کون ہوں، کہاں آئی ہوں، کیا کر رہی ہوں، اپنی حالت نہیں سمجھ پا رہی تھی مگر اتنا سمجھ آ رہا تھا کہ اب میری لڑائی کسی اور سے نہیں اپنے دماغ کے ساتھ ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہ لڑائی جیتنا بہت مشکل ہے کیونکہ آپ کا اپنا دماغ ہی آپ کو بول رہا ہے ’بلجیت تو اینکر کیوں لگا رہی ہے؟ چھوڑ نہ اینکر، بنا اینکر کے ہی اڑ جا۔‘
اگلی صبح تک بلجیت کو اناپورنا کے پہاڑ پر 38 گھنٹے گزر چکے تھے اور آکسیجن کی کمی کے باعث ’میں ایک بچے جیسا برتاؤ کر رہی تھی ، جب دھوپ نکلی تو میں کہہ رہی تھی اب میں دھوپ کو اپنے گورے گورے ہاتھ دکھاؤں گی۔‘
وہ تو شکر ہے انھیں خیال آ گیا کہ ’یہ دھوپ مجھے کالا کر دے گی میں نے تو سن سکرین بھی نہیں لگایا‘ اور انھوں نے داستانے نہیں اتار پھینکے اور اپنے ہاتھ چھپا لیے۔