تحریریں

اناپورنا کے ڈیتھ زون میں 27 گھنٹے گزارنے والی بلجیت کور: ’کیمپ فور کی روشنی دیکھ کر میں رات بھر خود کو گھسیٹتی رہی‘

ریسٹ ان پیس بلجیت۔۔۔۔ تم کتنے لوگوں کی انسپریشن تھیں۔‘

پیر کو نیپال میں واقع دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں سے ایک اناپورنا سے جب انڈین کوہ پیما بلجیت کور اور آئرئش نوئل ہنا کی ہلاکت کی خبریں آئیں تو کوہ پیماؤں کے گروپوں اور سوشل میڈیا پر ان کی یاد میں پیغامات کی کا تانتا بندھ گیا۔

نویل کی لاش تو کیمپ فور سے نیچے لانے کے انتظامات کیے جا رہے تھے مگر بلجیت کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں لاپتا ہوئی تھیں اور جس وقت دنیا انھیں مردہ سمجھ چکی تھی اس وقت ’ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈیما‘ کا شکار بلجیت اناپورنا کے ڈیتھ زون میں 27 گھنٹے سے زائد گزارنے کے بعد خود کو نیچے گھسیٹ کر لانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔

’ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈیما‘ وہ حالت ہے جس میں بلندی اور آکسیجن کی کمی کے باعث بیشتر کوہ پیماؤں کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، وہ ہذیان میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور تصوراتی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں

منگل کے روز اچانک خبر ملی کہ بلجیت زندہ ہیں اور ان کی تلاش میں جانے والے تین ہیلی کاپٹروں میں سے ایک نے انھیں لانگ لائن (ہیلی کاپٹر سے رسی پھینک کر ریسکیو کا طریقہ) کے ذریعے انا پورنا کی 7600 میٹر بلندی سے بچا لیا ہے جہاں تک وہ خود کو گھسیٹ کر لا چکی تھیں۔

بلجیت اس وقت کٹھمنڈو کے ایک ہسپتال میں زیرِعلاج ہیں۔

بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے بلجیت نے گذشتہ اتوار کے روز دن دو بجے چوٹی سر کرنے کے لیے نکلنے سے لے کر 49 گھنٹے بعد ریسکیو کیے جانے تک کے واقعات بتائے ہیں۔

اناپورنا پر بلجیت کے ساتھ کیا ہوا، ان کی کہانی سننے سے پہلے اس بہادر لڑکی کو تھوڑا سا جاننا ضروری ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ وہ اتنی ہمت کیسے دکھا پائیں۔

زمیندار گھرانے سے ہوں تو کھیتوں سے ہی جڑی ہوں، پہاڑوں سے جڑی ہوں‘

ہماچل کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والی بلجیت کور پہاڑوں میں ہی پلی بڑھی ہیں۔

27 سالہ کوہ پیما تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں۔ جب وہ کوہ پیمائی کا اپنا شوق پورا نہیں کر رہی ہوتیں تب وہ معذور بچوں کو ڈانس سکھانے کے ساتھ ساتھ فٹنس اور یوگا کی ٹریننگ دی رہی ہوتی ہیں۔

بلجیت کہتی ہیں کہ زمیندار گھرانے سے ہوں تو ’کھیتوں سے ہی جڑی ہوں، پہاڑوں سے جڑی ہوں‘۔

ہماچل میں ان کا گھر ایسی جگہ پر ہے جہاں سے پہاڑ شروع ہوتے ہیں اور ’سردیوں میں ان کے دل میں خواہش مچلتی کہ وہ سب سے پیچھے جو کشمیر کی سفید پہاڑی ہے اسے دیکھنا ہے۔‘

کالج میں انھوں نے نیشنل کیڈٹ کورس کا انتخاب کیا جو انڈین آرمی کے ماتحت ہوتا ہے۔ 18 سال کی عمر میں آرمی ونگ میں انھیں ماؤنٹینیرینگ کورس کرنے کا موقع ملا اور بس یہیں سے اونچے پہاڑوں پر جھنڈے گاڑنے کے ان کے سفر کا آغاز ہوا۔

سب سے پہلے انھوں نے ہماچل میں ماؤنٹ ٹیبا (6001 میٹر) سر کی اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

گذشتہ برس انھوں نے نیپال میں موجود 8000 بلندی کی پانچ چوٹیاں 30 دنوں میں سر کر لی تھیں اور اُسی وقت انھوں نے اناپورنا کو دوسری مرتبہ مصنوعی آکسیجن کے بغیر سمٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

بلجیت نے مناسلو بنا آکسیجن کے سر کر رکھی ہے جس سے انھیں اعتماد ملا کہ وہ اناپورنا بھی بنا آکسیجن کے سر کر سکتی ہیں۔

مگر انا پورنا میں اونچائی بہت زیادہ ہے جس کے لیے انھیں اچھی ٹیم چاہیے تھی مگر ان کے مطابق یہاں وہ کوہ پیمائی کو کمرشلائز کرنے والی نیپالی کمپنیوں کی بے حسی کا شکار بن گئیں۔

دماغ کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا‘

بلجیت بتاتی ہیں کہ وہ گذشتہ اتوار کو دن 2 بجے سمٹ کے لیے نکلی تھیں۔

پیر کی شام تک وہ چوٹی سر کر چکی تھیں مگر تب تک انھیں پہاڑ پر آکسیجن کے بغیر 27 گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا اور ان میں ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما (HACE) کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو چکی تھیں۔

’سمٹ کرتے ہی مجھے سپنے (خواب) آنے لگ گئے‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’دماغ کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا اور میں مسلسل اس کے ساتھ لڑائی لڑ رہی تھی۔‘

یہاں یہ یاد رہے کہ انسانی جسم سطح سمندر سے 2100 میٹر تک کی بُلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے اور اس سے زیادہ بلندی پر جسم میں آکسیجن کی سچوریشن تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

اتنی بلندی پر عموماً کوہ پیما ہائی پوکسیا (آکسیجن کی کمی) کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہائی پوکسیا کے ساتھ نبض تیز ہو جاتی ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ خراب حالت میں کوہ پیماؤں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے اور وہ ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما (HACE) کا شکار ہو سکتے ہیں۔

یہاں انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی کمی سے جہاں ’آلٹیٹیوٹ سکنیس (اونچائی پر لاحق ہونے والی بیماری)‘ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں وہیں اتنی بلندی پر تیز ہوائیں بھی کوہ پیماؤں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔

انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائٹ کا باعث بن سکتا ہے۔

اتنی بلندی پر انسانی جسم کو پیش آنے والے طبی مسائل کے حوالے سے کی گئی تحقیق کے مصنف پروفیسر ہربرٹ این ہلٹگرین کے مطابق یہاں تک چڑھنے والے کوہ پیما سیریبرل اینڈیما، ریٹنا ہیمرج، شدید سر درد، متلی، بد نظمی، ہیلوسینیشن یا نظر کا دھوکا وغیرہ جیسے طبی حالات سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔

اٹھ ہزار میٹر سے اوپر پہاڑ کے ڈیتھ زون میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہاں آپ مخصوص وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتے ہیں اور یہاں نیند یا زیادہ دیر رکنے کا مطلب موت ہے۔

اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جتنا جلدی ہو سکے چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر آپ نے سنہ 2015 میں ریلیز ہونے والی ’ایورسٹ‘ فلم دیکھی ہے تو آپ بلجیت کی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

’ایورسٹ‘ فلم میں سمٹ کے بعد نیچے آتے ہوئے نیوزی لینڈ کے گائیڈ اور کوہ پیما اینڈی ہیرس کے دماغ میں ہذیانی خیالات آنے لگتے ہیں، وہ اپنے کپڑے اور گئیر سب اتار پھینکتا ہے اور موت کو گلے لگا لیتا ہے۔

اناپورنا پہاڑ 8091 میٹر بلند ہے اور اس کا ڈیتھ زون 91 میٹر ہے (پہاڑ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جو 8000 میٹر سے اُونچا ہو)۔

ماہرین کے مطابق انسانی جسم کی سروائیول کی قدرتی لمٹ 8000 میٹر ہے۔ اس سے اوپر جسم کے سارے اعضا آہستہ آہستہ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔

بلجیت نے اس خطرناک زون میں 27 گھنٹے گزارے ہیں اور ان کے ساتھ بھی وہی ہو رہا تھا جو اینڈی ہیرس کے ساتھ ہوا۔

انھوں نے سمٹ کرنے سے منع کر دیا اور کہا ’میرے لیے سمٹ ضروری نہیں ہے، چھوڑو میں اگلے سال آ جاؤں گی، نیچے چلتے ہیں‘۔

مگر ان کی بات نہیں سنی گئی اور ان دو ناتجربہ کار نوجوان شرپاؤں نے ضد پکڑ لی کہ ہمیں سمٹ کرنا ہی ہے۔

انھیں جاتا دیکھ اور تصویریں بنواتے دیکھ کر بلجیت نے سوچا تھوڑا (10 میٹر) سا ہی تو فاصلہ ہے میں بھی جا کر فوٹو کھنچوا لیتی ہوں اور یہی سوچ کر اپنے قدم بڑھا دیے۔

سمٹ کر کے اپنی ویڈیو تو انھوں نے فوراً بنا لی مگر تصویر بنوانے کے لیے بلجیت کو ان دونوں کی منتیں کرنا پڑیں۔

شام کو سمٹ کے بعد بلجیت کو سمجھ آ چکی تھی کہ اس کے بعد آگے کیا ہونے والا ہے اور یہ ’دونوں مجھے نہیں سنبھال پائیں گے۔‘

پھر وہی ہوا جس کا بلجیت کو ڈر تھا۔

بلجیت کے مطابق دونوں ناتجربہ کار شرپا بلجیت میں ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما کی علامات سمجھنے سے قاصر تھے ’انھیں یہ بھی نہیں پتا تھا یہ کس چیز کی علامات ہیں۔‘

مگر بلجییت فوج سے تربیت یافتہ ہیں اور وہ اپنی حالت خود سمجھ چکی تھیں، اور اسی حساب سے ایکشن لے رہیں تھیں، انھوں نے ان دو شرپاؤں کو کہا کہ ’جلدی نیچے چلو، مگر وہ دو بہت نئے تھے اور شاید وہ خود بھی ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما کا شکار ہو چکے تھے اور دنیا کے سب سے خطرناک پہاڑ کی چوٹی پر کھیلنے لگ گئے۔‘

بلجیت کہتی ہیں کہ ’انھیں کھیلتے دیکھا تو میں یہ کہتے ہوئے نیچے کی جانب مڑ گئی کہ ’مجھے یہاں نہیں رکنا، یہ دونوں یہاں مریں گے اور مجھے بھی ماریں گے۔‘

ان شرپاؤں کے پاس بلجیت کے آکسیجن ٹینک کے علاوہ اپنا اپنا آکسیجن کا ایک ایک ٹینک تھا۔

بلجیت اس مرتبہ آکسیجن کے بغیر اناپورنا کا سمٹ کر رہی تھیں، وہ بتاتی ہیں کہ مجھے آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑتی مگر کچھ وقت کے بعد انھیں بہت نیند آنے لگی۔

اس وقت بلجیت نے ان دو شرپاؤں کو کہا کہ ’میں چل نہیں پا رہی ہوں اور مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما ہو چکا ہے۔‘

جیسی دنیا میں چاہتی تھی ویسی ہی دنیا مجھے دکھائی دینے لگی‘

بلجیت کے الفاظ میں جب وہ ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما کا شکار ہوئیں تو ’جیسی دنیا میں چاہتی تھی ویسی ہی مجھے دکھائی دینے لگی۔۔۔۔ ٹینٹ لگا ہے۔۔۔ میرے اردگرد بہت سے لوگ جمع ہیں۔۔۔‘

’مگر تھوڑی دیر بعد مجھے دھیان آتا کہ نہیں یہاں کچھ نہیں ہے سب میرے دماغ کا فتور ہے، جلدی نیچے چل۔۔۔‘

بلجیت اس وقت مسلسل اپنے دماغ سے لڑائی لڑ رہی تھیں۔ مگر رات کے 10 سے 11 کے درمیان تقریباً 7800 میٹر کی بلندی پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ دونوں شرپا بھی بلجیت سے لڑنے لگے۔۔۔

مجھے یہاں انھیں روک کر پوچھنا پڑا کہ یہ لڑائی ان کے تصورات میں ہو رہی تھی یا واقعی ان کا شرپاؤں سے جھگڑا ہوا؟

بلجیت کہتی ہیں کہ یہ حقیقت تھی اور میں سمجھ سکتی تھی کہ وہ دونوں شرپا مجھ سے جھگڑ رہے ہیں، وہ الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے تو ’میں نے انھیں بولا کہ تم دونوں میرے ساتھ یہاں مرو گے، پلیز تم چلے جاؤ تمھارے پاس آکسیجن بھی محدود ہے اور وہ ختم ہو گئی تو تم بھی ختم ہو جاؤ گے اور میری وجہ سے تمھاری فیملی بھی ختم ہو جائے گی‘۔

ایک شرپا بلجیت کو چھوڑ کر چل دیے پھر دوسرا شرپا آیا اور بولا ’میں چلا جاؤں؟‘

بلجیت نے اسے کہا ’میں تو آکسیجن استعمال کر نہیں رہی مگر تمھارے پاس صرف ایک ٹینک ہے، جلدی چلے جاؤ ورنہ دونوں یہیں مر جاؤ گے۔ میں خود آ جاؤں گی اور بیس کیمپ میں آ کر ملتی ہوں۔‘

رات بھر خود کو گھسیٹتی رہی‘

بلجیت بتاتی ہیں کہ ان دونوں شرپاؤں کے جانے کے بعد 7800 میٹر کی بلندی پر ’شاید میں دو سے تین گھنٹوں کے لیے سو گئی تھی۔‘

جب وہ رات میں اٹھیں تو انھیں لگا ’میں ٹینٹ میں ہوں اور میرے اردگرد لوگ ہیں مگر جب میں آنکھیں کھولتی تو وہاں کچھ نہیں تھا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ انھیں دور کیمپ فور پر روشنی نظر آ رہی تھی اور وہ خود کو سمجھا رہی تھیں کہ ’مجھے وہاں تک پہنچنا ہے، مجھے نہیں پتا کہ کیسے کیا مگر میں رات بھر خود کو گھسیٹی رہی۔‘

انسٹرکٹر نے کہا تھا ’بے شک پوری دنیا چھوڑ دو مگر اپنا سیفٹی اینکر اور رسی نہیں چھوڑنی‘

وہ اس کی وجہ اپنی ٹریننگ کو قرار دیتی ہیں، بلجیت بتاتی ہیں کہ انھوں نے انڈین آرمی سے تربیت لی ہے ’مجھے لگتا ہے یہ میری ٹریننگ ہی تھی جس کے باعث میں خود کو گھسیٹ پائی۔۔۔ مجھے اپنے انسٹرکٹر کی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں کہ پہاڑوں میں جب تم ہوش و ہواس کھو بیٹھو تو ایک بات نہیں بھولنی کہ بے شک پوری دنیا چھوڑ دو مگر اپنا سیفٹی اینکر اور رسی کسی صورت نہیں چھوڑنی۔‘

’میرے دماغ میں صرف ایک بات چل رہی تھی کہ بلجیت تو نے سیفٹی اینکر اور رسی کو نہیں چھوڑنا۔ سیفٹی اینکر کو اتارنا بھی ہے تو سوچ سمجھ کر شفٹ کرنا ہے۔۔۔ یہ میرے دماغ میں کلئیر تھا۔‘

’بلجیت تو اینکر کیوں لگا رہی ہے؟ چھوڑ نہ، بنا اینکر کے ہی اڑ جا‘

بلجیت بتاتی ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کسی پہاڑ پر ہائی ایلٹیٹیوڈ سیریبل ایڈما کا شکار ہوئیں تھیں ’میں بھول رہی کہ میں کون ہوں، کہاں آئی ہوں، کیا کر رہی ہوں، اپنی حالت نہیں سمجھ پا رہی تھی مگر اتنا سمجھ آ رہا تھا کہ اب میری لڑائی کسی اور سے نہیں اپنے دماغ کے ساتھ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ لڑائی جیتنا بہت مشکل ہے کیونکہ آپ کا اپنا دماغ ہی آپ کو بول رہا ہے ’بلجیت تو اینکر کیوں لگا رہی ہے؟ چھوڑ نہ اینکر، بنا اینکر کے ہی اڑ جا۔‘

اگلی صبح تک بلجیت کو اناپورنا کے پہاڑ پر 38 گھنٹے گزر چکے تھے اور آکسیجن کی کمی کے باعث ’میں ایک بچے جیسا برتاؤ کر رہی تھی ، جب دھوپ نکلی تو میں کہہ رہی تھی اب میں دھوپ کو اپنے گورے گورے ہاتھ دکھاؤں گی۔‘

وہ تو شکر ہے انھیں خیال آ گیا کہ ’یہ دھوپ مجھے کالا کر دے گی میں نے تو سن سکرین بھی نہیں لگایا‘ اور انھوں نے داستانے نہیں اتار پھینکے اور اپنے ہاتھ چھپا لیے۔

مجھے لگا کہ یہ کہنا شرم کی بات ہو گی کہ مجھے آ کر بچاؤ‘

اس پوائنٹ تک کیا ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہوا تھا؟ وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے کیمپ فور تک بہت لوگ کھڑے نظر آ رہے تھے اور میں نے اس کیمپ تک آواز لگانے اور لائٹ مارنے کی بہت کوشش کی۔ پوری رات کوشش کرتی رہی مگر مجھے صرف کیمپ فور دکھ رہا تھا، نیچے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔‘

کسی سے رابطہ نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے خود کو کہا کہ یہ آخری موقع ہے، میں اتنی کمزور نہیں ہو سکتی کہ نیچے نہ جا سکوں۔ میں کھڑی ہوئی اور کیمپ فور کی جانب خود کو 100 میٹر اور گھسیٹا۔‘

اس دوران وہ ایک مرتبہ 10-20 میٹر تک پھسل کر نیچے بھی گریں۔ ’پیچھے مڑ کر اپنے اینکر کو دیکھا اور خود پر بڑا فخر ہوا کہ میرے اینکر نے مجھے بچا لیا۔‘

بلجیت بتاتی ہیں کہ ’میرا تعلق سکھ گھرانے سے ہے میں اکثر اوقات گروبانی اور کبھی کبھی غزلیں سنتی رہتی ہوں اور یہی سوچ کر میرا دھیان اپنے فون کی جانب گیا کہ کچھ بھجن سن لیتی ہوں۔‘ مگر وہ فون نہیں ان کا گارمین ڈیوائس تھا مگر ہواس کھونے کے باوجود انھیں اتنا سمجھ آ رہا تھا کہ اسے استعمال کر کے کسی کو مدد کے لیے بلا سکتی ہوں۔

تو اب تک ریسکیو کے لیے کسی کو بلایا کیوں نہیں؟

بلجیت اس کا جواب دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’مجھے لگا یہ بہت شرم کی بات ہو گی کہ آپ پہاڑ چڑھنے گئے ہو اور خود کے لیے ریسکیو بلا رہے ہیں کہ آ کر مجھے بچاؤ۔‘

’مگر پھر وہ وقت آیا جب میرے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔

اناپورنا پر شرح اموات 25 فیصد ہے جبکہ نانگا پربت پر 23 فیصد ہے

منگل کی صبح سات بجے کا وقت ہو گا جب انھوں نے سب سے پہلے اپنی ٹیم کو میسج کیا کہ ’میں زندہ ہوں اور ٹھیک ہوں‘ مگر بلجیت کو کوئی جواب نہیں ملا۔

بلجیت نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد انھوں نے اس کمپنی کو میسج کیا جس کی خدمات انھوں نے اس سمٹ کے لیے حاصل کیں تھیں، مگر وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد بلجیت نے اس کمپنی کے دوسرے نمبر اور میل پر بھی میسج کر دیا کہ ’میں ٹھیک ہوں اور زندہ ہوں مگر مجھے مدد چاہیے۔‘

اس وقت تک بلجیت اپنے پاس موجود کھانے پینے کی سب اشیا استعمال کر چکیں تھیں۔

جب انھیں ایک گھنٹے تک وہاں سے بھی جواب نہیں ملا تو بلجیت نے خود کو اٹھایا۔ وہ کہتی ہیں میں ایسے خاندان سے ہوں جہاں ہاتھ پر رکھ کر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ ہمیں سکھایا گیا ہے اپنے سپنوں کے لیے خود کماؤ، اور یہی بات ان کے دل میں تھی کہ آج سے پہلے کون میرے ساتھ کھڑا تھا؟ کوئی نہیں تھا، چل اٹھ اور نکل یہاں سے۔‘

مگر ڈیڑھ گھنٹے بعد انھیں اس نمبر سے جواب مل گیا: ’بلجیت تم ٹھیک ہو؟‘

بلجیت نے جواب دیا ’ہاں میں ٹھیک ہوں مگر آپ کی مدد چاہیے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ’مجھے چکر آ رہے تھے، میں ٹھیک سے ٹائپ بھی نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔ سب دھندلا نظر آ رہا تھا مگر وہاں بہت سارے ہیلی آ رہے تھے، میں سے سب کو ہاتھ دیا مگر کسی نے نہیں دیکھا۔‘

اس موقع پر بلجیت نے سوچا کہ ’مجھے بچانے کوئی نہیں آنے والا، بھاڑ میں جائے ہیلی، اس سے پہلا کون سا میں ہیلی میں گئی تھی۔

یہاں یہ یاد رہے کہ بلجیت دوسری مرتبہ اناپورنا سر کر رہی تھیں۔

یہی سوچتے کہ مدد نہیں آنے والی بلجیت نے خود کو مزید گھسیٹنا شروع کیا اور 50 میٹر اور نیچے لے آئیں پھر تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئیں۔

اسی وقت انھیں میسج آتا ہے جسے وہ ٹھیک سے پڑھ تو نہیں پائیں مگر کچھ ایسا لکھا تھا کہ ’بلجیت یہیں انتظار کرو، چند منٹ میں ہیلی تمھارے پاس ہو گا‘ بلجیت نے جواب دیا کہ ’اچھا ٹھیک ہے۔‘

اس کے بعد انھیں ایک اور میسج ملا اور ان سے پوچھا گیا کہ ’خود کو اور اینکر کو لانگ لائن سے اٹیچ کر لو گی؟‘ بلجیت نے جواب دیا ’مجھے نہیں پتا میں کر پاؤں گی یا نہیں، مگر میں کوشش کروں گی۔‘

تقریباً ایک سے ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک ہیلی کاپٹر پہنچا اور لانگ لائن کے ذریعے انھیں ریسکیو کیا گیا۔ بلجیت کے مطابق جب انھیں ریسکیو گیا گیا اس وقت وہ 7600 میٹر سے اوپر تھیں ’رات بھر میں خود کو 250 میٹر ہی گھسیٹ پائی تھی۔‘

بلجیت 16 اپریل کو دن کے دو بجے کیمپ فور سے سمٹ کے لیے نکلی تھیں اور جس وقت انھیں ریسکیو کیا گیا اس وقت 18 تاریخ تھی اور دن کے 3 بجے تھے۔ یعنی بلجیت نے تقریباً 49 گھنٹے اناپورنا پر گزارے تھے۔

48 گھنٹے سے زیادہ کسی کوہ پیما کے اتنی اونچائی پر زندہ رہنے کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں لیکن ڈیتھ زون میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ نیپال کے پیمبا گلجئین شرپا کے پاس ہے جو سنہ 2008 میں دو کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے 90 گھنٹے تک کے ٹو کے ڈیتھ زون میں رہے۔

اگر میں زندہ نہیں ہوں تو آپ کو خود پتا چل جائے گا، کسی کا یقین نہ کرنا میں خود فون کروں گی‘

بلجیت بتاتی ہیں کہ میرا یقین ہے کہ ’جب تک میں پہاڑوں کے ساتھ کچھ برا نہیں کروں گی وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دیں گے۔‘

انھیں اپنے بارے میں چلنے والی فیک نیوز (کہ بلجیت زندہ نہیں ہیں) کی کوئی پرواہ نہیں تھی، بس یہ فکر تھی کہ کسی طرح ’ایک بار اپنی ماں سے بات کر لوں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ یہ فیک نیوز ان کے گھر تک بھی پہنچ چکی تھی مگر ’میں ہمیشہ اپنی ماں کو بول کر جاتی ہوں کہ اگر میں زندہ نہیں ہوں تو آپ کو خود پتا چل جائے گا، کسی کا یقین نہ کرنا میں خود فون کروں گی۔‘

اسی لیے ان کی والدہ نے کسی سے بات نہیں کی تھی اور جیسے ہی بلجیت نے نئے نمبر سے فون کیا تو انھوں نے فوراً فون اٹھایا اور کہا: ’بلجیت تو زندہ ہے؟‘

بلجیت نے جواب دیا ’ہاں میں زندہ ہوں۔‘

جس پر ان کی ماں نے کہا ’ٹھیک ہے، تو آرام کر۔‘

کچھ تو رشتہ ہے جو بار بار مجھے پہاڑوں کی جانب کھینچتا ہے‘

بلجیت بتاتی ہیں کہ ہمیں شروع سے لڑکوں کی طرح پالا گیا ہے، کسی نے لڑکی سمجھا ہی نہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہمارے ہاں پنجابی فیملی میں اگر لڑکی سب سے بڑی ہے تو اسے گھر کا ’مکھیا‘ سمجھ لیتے ہیں اور ساری ذمہ داری اس پر ہوتی ہے۔

بچپن سے وہ اپنے فیصلے خود کرتی آئی ہیں مگر گھر والوں کی صلاح ضرور لیتی ہیں کہ ’اماں مجھے یہ کرنا ہے آپ بتائیں ٹھیک ہے یا نہیں۔‘ بلجیت بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ کو ان پر بہت بھروسہ ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے اماں کو بول رکھا ہے آپ میری فکر نہ کریں، میری فکر کرنے والے بہت ہیں اور وہ سب پہاڑوں میں بیٹھے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں ’مجھے نہیں پتا کیوں مگر میرا ایمان ہے میرے پہاڑ مجھے کچھ نہیں ہونے دیں گے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’پچھلی مرتبہ اناپورنا پر سامنے سے برفانی تودہ آ رہا تھا اور میں کہہ رہی تھی یہ تودہ میرے لیے نہیں ہے۔ یہ مجھے کچھ نہیں کہے گا۔ مجھے نہیں پتا یہ کیا ہے، مگر کچھ تو رشتہ ہے جو بار بار مجھے پہاڑوں کی جانب کھینچتا ہے۔‘

’ڈاکٹر کہہ رہے ہیں تم بہت خوش قسمت ہو‘

مگر اس سارے واقعے کے درمیان کسی مقام پر انھیں لگا کہ وہ اس پہاڑ پر ہی رہ جاؤں گی؟

بلجیت کہتی ہیں ’ٹریننگ کی بہت اہمیت ہے اور میں بہت زیادہ ٹریننگ کرتی ہوں اس لیے کسی لمحے مجھے ایسا نہیں لگا، مجھے خود پر بھروسہ تھا۔‘

16 اپریل کو انھیں انوراگ ملوبھی پہاڑ سے واپسی کے راستے پر ملے اور وہ اس وقت تک ٹھیک تھے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ کل چار روز یعنی تقریباً 96 گھنٹوں بعد انوراک کو انتہائی تشویشناک حالت میں اناپورنا کی شگاف میں سے بچا لیا گیا ہے۔

بلجیت 7000 میٹر سے زیادہ بلندی پر 49 گھنٹے گزارنے کے بعد چل بلین (سردی سے ہاتھ پیر کا پھٹ جانا) کا شکار ہوئیں ہیں جو فراسٹ بائیٹ کی ابتدائی سٹیج ہے۔ اور فی الحال ان کے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ان کے پھپیپھڑے ٹھیک کام کر رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’ڈاکٹر کہہ رہے ہیں تم بہت لکی ہو۔۔۔ چلو اگر وہ کہہ رہے ہیں تو لکی ہی سہی۔‘

میں نے بلجیت سے پوچھا کہ آگے کیا ارادہ ہے، جس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ ’پہاڑوں سے محبت اتنی گہری ہو گئی ہے کہ میں سوچ رہی ہوں چار دن میں یہاں سے نکل کر کوہ پیمائی دوبارہ شروع کر دوں گی۔‘

وہ نیپال میں سر کی ہوئی چوٹیاں دوبارہ کیوں سر کر رہی ہیں، باقی پانچ 8000 کی جانب کیوں نہیں جاتیں؟ اس کے جواب میں بلجیت کہتی ہیں ’باقی چوٹیاں پاکستان میں ہیں نا۔۔۔ مجھے وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔ مگر شاید کبھی آ سکوں۔‘

اناپورنا پر اپنے حالیہ تجربے کے مدِنظر وہ کوہ پیمائی کے شوقین افراد کو کہنا چاہتی ہیں کہ ’پہاڑوں میں زیادہ بھولے نہیں بننا ہوتا، سب آپ کی طرح نہیں ہوتے۔‘

بلجیت کہتی ہیں کئی بار ہم جسے اپنا دشمن مانتے ہیں وہ ہمارا دشمن نہیں ہوتا مگر اصل دشمن ہمارا دماغ ہوتا ہے۔۔۔اور وہ اتنا خطرناک ہو جاتا ہے کہ اسے ہینڈل کرنا زندگی کی سب سے بڑی جنگ بن جاتی ہے۔ اگر آپ نے اپنے دماغ کو ہینڈل کر لیا تو ساری زندگی آرام سکون سے گزار لیں گے۔

’آج پہاڑوں نے مجھے دوسری زندگی دی ہے وہ شاید اس لیے دی ہے تاکہ میں لوگوں کو بتا سکوں کہ یہاں ہم سب دوست ہیں اور کوئی کسی کا دشمن نہیں ہے۔‘

انا پورنا کی چوٹی اتنی خطرناک کیوں تصور کی جاتی ہے؟

انا پورنا کے بیس کیمپ سے کیمپ تھری تک کے سارے ایریا میں آئس فیلڈ بہت زیادہ ہے

انا پورنا نامی یہ چوٹی وسطی نیپال کے انا پورنا پہاڑی سلسلے میں 8091 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور یہ دنیا کی 10 ویں بلند ترین چوٹی ہے۔

اس پہاڑ کو پہلی مرتبہ 3 جون 1950 میں دو فرانسیسی کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا اور دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے انا پورنا کو سب سے پہلے سر کیا گیا تھا۔ اس چوٹی کو نیپال کے موسمِ بہار میں ہی سر کیا جا سکتا ہے۔

تو اس چوٹی کو دنیا بھر میں آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی والی 14 چوٹیوں میں سب سے ’ڈیڈلیئسٹ ماؤنٹین (سب سے زیادہ خطرناک، جان لیوا پہاڑ) کیوں کہا جاتا ہے؟

عمران حیدر تھہیم کوہ پیمائی کے شوقین اور گذشتہ کئی برسوں سے کوہ پیمائی کی مہمات پر تحقیق کرتے آ رہے ہیں۔

عمران کہتے ہیں کہ انا پورنا کے ’’ڈیڈلیئسٹ ماؤنٹین‘ ہونے کی سب سے بڑی وجہ اس کا ایسکپوژر ہے جسے ٹیکنیکل زبان میں ’الپائن ایکسپوژر‘ کہتے ہیں۔‘

تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پہاڑ کے اوپر مختلف سلوپس ہوتی ہیں اور آئس اور سنو کی سلپس سب سے خطرناک ہوتی ہیں۔ دوسرا اس پہاڑ پر برفانی تودے آنے کا خطرہ بہت رہتا ہے اور کسی بھی وقت کوئی ایکٹویٹی آ سکتی ہے۔‘

انا پورنا کے بیس کیمپ سے کیمپ تھری تک کے سارے ایریا میں آئس فیلڈ بہت زیادہ ہے جس کا ایکسپوژر بھی اتنا ہی زیادہ ہے لہذا ’اگر کسی وقت بھی کوئی ایکٹویٹی ہو تو آپ کو چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی۔‘

’آپ سمجھ لیں کے آپ برف کے بہت بڑے میدان میں ہیں لیکن وہ میدان ویسا نہیں جیسا زمین پر ہوتا ہے۔ یہ بہت بڑی آئس فیلڈ ہے جس میں برفانی تودے آنے کی صورت میں آپ کسی چٹان کے نیچے یا آگے پیچھے پناہ لے کر جان نہیں بچا سکتے۔‘

 

 

 

یہ بھی پڑھیں