تحریریں

گورکھ ہِل: ‘سندھ کا مری’ جہاں گرمیوں میں بھی ٹھنڈ پڑتی ہے

گورکھ ہِل میں سرکاری اور پرائیوٹ ہوٹل اور ریسٹورنٹس موجود ہیں

برف باری اور سندھ میں؟ پہلی بار سُننے میں شاید آپ یقین نا کریں مگر پاکستان کے صوبہِ سندھ کے ضلع دادو میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جہاں سردیوں کے موسم میں واقعی برف پڑتی ہے۔

اگر آپ مہم جوئی اور نئی جگہیں تلاش کرنے کے شوقین ہیں تو آپ کے لیے گورکھ ہِل سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ اگر ہماری طرح آپ کو بھی اب تک اس خوبصورت سیاحتی مقام جانے کا موقع نہیں مل سکا تو سامان باندھیں اور ہمارے ساتھ سفر میں شامل ہوجائیں۔

پیٹی کس لیں

کراچی – حیدرآباد موٹروے اور پھر انڈس ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے تقریباً 400 کلومیٹر کا فاصلہ آٹھ گھنٹے میں طے کر کے آپ گورکھ ہِل پہنچ سکتے ہیں اس لیے کراچی سے ہمارا سفر صبح سویرے شروع ہوا۔

کراچی حیدرآباد موٹر وے پر سڑک کے دونوں جانب دیوہیکل ٹرک، ٹینکر اور ٹرالر مال لادے اپنی منزل کی جانب سفر کرتے کسی دیومالائی مخلوق کی مانند نظر آتے ہیں۔سامنے دیکھیں تو طلوع ہوتا سورج ایک نئے دن کے آغاز کی نوید سنا رہا ہے۔

ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ کھانا

کراچی ٹول پلازہ سے نکلتے ہی بھوک نے ستایا تو ہم نے ناشتہ کرنے کا ارادہ کیا۔

آزمودہ نسخہ ہے کہ سڑک کنارے جس ہوٹل پر سب سے زیادہ ٹرک کھڑے نظر آئیں، آنکھ بند کر کے وہیں رُک جائیں کیونکہ ڈرائیور حضرات اچھے کھانے کے معاملے میں ذرا بھی سمجھوتہ نہیں کرتے

ہم ایسے ہی ایک ہوٹل پر رُکے اور ناشتہ آرڈر کیا۔ گرما گرم پراٹھوں اور انڈوں سے جان میں جان آئی۔

پھر کڑک چائے بھی آزمائی جو ٹرک ہوٹلوں کی خاص پہچان ہے۔ سچ ہے کہ چائے کا اصل مزا ایسے ہی مقامی ڈھابوں پر آتا ہے۔

ٹوائلٹ نہ جائیں بلکہ کنٹرول کریں

اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے ہم نے براستہ جامشورو اور سیہون، واہی پاندھی جانے کا ارادہ کیا۔

واہی پاندھی گورکھ ہِل جانے کے لیے ایک طرح کا بیس کیمپ ہے جہاں سے جیپ کے ذریعے گورکھ پہنچا جا سکتا ہے۔

جامشورو سے سیہون کے لیے روانہ ہوئے تو دائیں طرف دریائے سندھ اور بائیں جانب بلندوبالا پہاڑیاں ایک جادوئی منظر پیش کر رہے تھے۔

ہاں اس رنگ میں بھنگ اِس طرح پڑی کہ جب واش روم جانے کی ضرورت پیش آئی تو تمام راستے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جہاں ٹوائلٹ کی مناسب سہولت میسر ہو۔

ہوٹلوں اور ڈھابوں میں ٹوائلٹ ہوتے ہیں لیکن اُن میں صفائی کا انتظام ایسا نہیں ہوتا کہ انھیں استعمال کرنے کا سوچا بھی جا سکے۔

یہ صورتِ حال خواتین کے لیے خاصی پریشان کُن ہو سکتی ہے لہٰذا اگر کنٹرول ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔

انھی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ

کراچی سے گورکھ 400 کلومیٹر کا فاصلہ آٹھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے

تقریباً 350 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم ضلع دادو کے چھوٹے سے شہر واہی پاندھی پہنچے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کراچی سے آنے والی نئی نویلی چمکتی دمکتی گاڑیوں کے پر جلنے لگتے ہیں کیونکہ آگے سارا راستہ پتھریلا ہے اور سڑک کی سہولت ناپید ہے۔

ان راستوں پر صرف سخت جان فور بائی فور جیپ ہی چل سکتی ہے۔ یہ بھی کوئی عام جیپیں نہیں ہوتیں بلکہ آلٹریشن کروا کر انھیں اس سفر کے لیے 1000 سی سی سے 1600 سی سی بنایا جاتا ہے۔

اِن گاڑیوں کو چلانے والے ڈرائیور بھی معمولی لوگ نہیں بلکہ سالہا سال ان ہی پتھریلے راستوں پر گاڑیاں چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ صرف یہ سرپِھرے ڈرائیور ہی اِن خطرناک راستوں پر ڈرائیونگ کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈرائیور عبدالستار سے ہم نے کرایہ طے کیا اور اُن کی پوٹھوہار جیپ میں اپنا سامان منتقل کر کے گورکھ ہِل کی جانب روانہ ہو گئے۔

واہی پاندھی سے گورکھ ہِل کا فاصلہ ہے تو صرف 50 کلومیٹر لیکن اسے طے کرتے کرتے ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ یہ تمام راستہ سنگلاخ پہاڑوں سے اٹا پڑا ہے۔ جولائی کے گرم موسم میں جب سورج آگ برساتا ہے تو اُس کی تپش پہاڑوں سے ٹکرا کر چہرے کو جُھلسا دیتی ہے۔

واہی پاندھی سے آگے تمام راستہ پتھریلا ہے اور سڑک کا نام و نشان نہیں

ہم نے تقریباً 34 کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ ہمارے ڈرائیور عبدالستار نے ویرانے کے بیچوں بیچ بنے ایک ٹی سٹال پر گاڑی روکی اور اعلان کیا کہ آگے جانے سے پہلے نہ صرف ہمیں ایندھن یعنی چائے کی ضرورت ہے بلکہ جیپ کے ریڈی ایٹر کی پیاس بجھانے کے لیے اُس میں پانی ڈالنا بھی ضروری ہے۔

خانہ بدوشوں کے ساتھ سیلفی

جیپ کی اور ہماری سانسیں بحال ہوئیں تو مزید سفر کا ارادہ کیا۔ یہاں سے آگے کہیں کہیں سڑک بالکل ہموار ہے تو کہیں پتھر راستہ روکے نظر آتے ہیں۔

ہمارا ڈرائیور کمال مہارت سے جیپ کو کھائیوں اور گھاٹیوں سے گزارتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ جوں جوں جیپ پہاڑی راستہ طے کرتی ہوئی بلندی کی جانب بڑھتی رہی، درجۂ حرارت میں کمی کا احساس ہونے لگا۔

کچھ آگے بڑھے تو پہاڑوں پر خانہ بدوش مرد اور بچے اپنے مویشی چراتے نظر آئے۔ پہلے تو وہ جینز اور ٹی شرٹ والے اجنبی کو دیکھ کر ٹھٹکتے لیکن جب ہم کیمرے کی طرف اشارہ کرتے تو دوڑ کر آتے اور بتیسی نکال کر تصویر کھنچوانے کے لیے تیار ہو جاتے۔

یہاں سے تھوڑا فاصلے پر چرواہوں کے بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھنا بھی ایک منفرد نظارہ تھا۔ اس کھیل میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جو کرکٹ سے تعلق رکھتی ہو۔ گیند ٹینس کی ہے، بلّا لکڑی کا ایک تختہ اور وکٹیں تین پتھر جو وہیں قریبی چٹانوں سے اٹھا کر ایک کے اوپر ایک رکھ دیے گئے ہیں۔ ہاں ایک چیز خالص ہے اور وہ ہے ان بچوں کا ٹیلنٹ کیا معلوم آگے چل کر ان میں ہی سے کوئی محمد عامر اور کوئی بابر اعظم نکل آئے۔

واہی پاندھی’ سے گورکھ 50 کلومیٹر کا فاصلہ ڈھائی گھنٹے ہے اور راستے میں جیپ کا انجن ٹھنڈا کرنے کے لیے رُکنا پڑ سکتا ہے

سورج غروب ہوتے دیکھنا نہ بھولیں

گورکھ ہِل پہنچے تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ یہ منظر انتہائی دلفریب تھا۔ پہاڑ کی بلندی سے دیکھا تو سامنے ایک کے بعد ایک پہاڑی پر اندھیرا ہوتا نظر آیا۔ اگلے کچھ لمحوں میں ہر طرف اندھیرا پھیل گیا اور آسمان پر ستاروں کی آمد شروع ہو گئی۔

اس مقام پر آسمان خود سے انتہائی قریب معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ آپ ساری رات تارے گن کر گزار سکتے ہیں۔ یہ منظر ہم جیسے شہری لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا جن کی تمام زندگی ٹریفک کے شور اور دھوئیں میں ہی گزری تھی۔

گورکھ میں کچھ سستا نہیں

گورکھ ہِل میں پرائیوٹ اور حکومت کے زیرِ انتظام ہوٹل موجود ہیں جہاں رات گزاری جا سکتی ہے۔ کھانے اور دیگر لوازمات کے لیے ریسٹورنٹ اور ایک ٹک شاپ بھی ہے لیکن ہر چیز اتنی مہنگی کہ قیمت سن کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔سندھ حکومت کی جانب سے قائم کی گئی گورکھ ہِل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ایچ ڈی اے) یہاں سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن کم از کم ہمیں اس ادارے کی کوئی خاص کارکردگی نظر نہیں

گورکھ ہل میں طلوعِ آفتاب کا منظر ایک مسحور کُن تجربہ ہے

جس ہوٹل میں ہم نے ٹھہرنے کا فیصلہ کیا وہاں سہولیات دیکھتے ہوئے کمرے کا کرایہ تین ہزار روپے کچھ زیادہ لگا۔ پتا چلا کہ پورے گورکھ میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی نلوں میں پانی آتا ہے۔ گذشہ کئی دنوں سے بجلی کی فراہمی منقطع تھی اور ہوٹل والے جنریٹر سے کام چلا رہے تھے۔

یہ سہولت بھی رات ایک بجے بند کر دی گئی اور کمرے کا واحد بلب بُجھ گیا۔ نہانے اور دیگر ضروریات کے لیے بیرے نے بالٹی سسٹم استعمال کرنے کا طریقہ سمجھایا۔

ٹینٹ میں گزاری گئی رات

کمرے سے مایوس ہو کر ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر بنا بجلی پانی کے ہی رہنا ہے تو کیوں نہ صحیح معنوں میں ایڈونچر کیا جائے۔ لہذا ایک سلیپنگ بیگ اور ٹینٹ کرائے پر لیا اور پہاڑ کی چوٹی پر رات گزارنے کی تیاری کر لی۔

یہاں کراچی سے لائے گرم کپڑے بھی کام آئے کیونکہ رات کے وقت درجہ حرارت کافی کم ہو جاتا ہے۔ کچھ مدد باہر جلتے الاؤ سے بھی ملی اور خلافِ توقع جلد ہی نیند آگئی۔

صبح ٹینٹ کے اندر سلیپنگ بیگ میں آنکھ کھولنا بھی ایک منفرد تجربہ تھا۔ گورکھ ہِل میں غروب آفتاب کی طرح طلوع آفتاب کا منظر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ٹینٹ کا دروازہ یعنی زِپ کھولی تو عین سامنے سورج طلوع ہوتے نظر آیا۔ یہاں چڑیوں اور دیگر پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔

جہاں موبائل فون بجنا بھول جاتے ہیں

ٹینٹ سے باہر نکل کر حسب عادت فون چیک کیا تو پتا چلا کہ گورکھ میں موبائل سگنل ہی نہیں آتے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ پورے علاقے میں کوئی موبائل ٹاور موجود نہیں ہے۔ اُن کے مطابق موبائل کمپنیاں گورکھ میں ٹاور لگانے میں اس لیے دلچسپی نہیں رکھتیں کیوں کہ یہاں زیادہ گاہک نہیں ہیں۔

بہرحال موبائل فون کا کام نہ کرنا بھی ایک نعمت ہے کیونکہ اس طرح سیاح یک سوئی کے ساتھ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

بے نظیر ویو پوائنٹ سے بلوچستان کے ضلع خضدار میں کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ نظر آتا ہے

سندھ اور بلوچستان کی سرحد

کچھ روشنی ہوئی تو ہم سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو سے منسوب ‘بینظیر ویو پوائنٹ’ کی طرف پیدل ہی چل پڑے۔ یہاں آنے والوں کے لیے ہموار گزرگاہ بنائی گئی ہے اور حفاظت کے لیے ریلنگ بھی موجود ہے۔ اس جگہ سے صوبہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ سامنے بلوچستان کے ضلع خضدار میں کیرتھر کے مٹیالے چٹیل پہاڑ نظر آتے ہیں۔

گورکھ ہِل سٹیشن سطح سمندر سے 5600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ گرمیوں میں بھی یہاں کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے جبکہ موسم سرما میں درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔

مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ کبھی کبھی سردیوں کے موسم میں یہاں برف باری بھی ہوتی ہے۔

‘راک چاکنگ’

گورکھ ہِل میں جو چیز سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہاں آنے والے سیاحوں کی جانب سے پھینکا جانے والا کچرا ہے۔ ہمیں جگہ جگہ پلاسٹک کی خالی بوتلیں، سٹائروفوم کے کپ، چپس اور بسکٹ کے ریپرز بکھرے نظر آئے۔

مقامی لوگ کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ انتظامیہ کو صفائی کا خیال رکھنا چاہیے اور جابجا کوڑے دان رکھنے چاہییں لیکن کچھ ذمہ داری یہاں آنے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ جو چیز بھی استعمال کریں اُس کے لفافے ایک جگہ جمع کر کے اپنے ساتھ واپس لے جائیں۔

چٹانوں پر سپرے پینٹ سے کی گئی ‘چاکنگ’ مزا کرکرا کرتی ہے

ایک اور چیز جو گورکھ کے خوبصورت مناظر کا مزا کرکرا کرتی ہے وہ یہاں چٹانوں پر سپرے پینٹ سے کی گئی ‘چاکنگ’ ہے۔

یار دوست جب یہاں آتے ہیں تو نشانی کے طور پر اپنا نام لکھ جاتے ہیں تاکہ رہتی دنیا تک موجود رہے۔ کچھ عاشق اپنی محبوباؤں کے نام بھی یہاں چھوڑ جاتے ہیں جبکہ کچھ اپنے موبائل نمبر بھی لکھ دیتے ہیں تاکہ بعد میں رابطے میں آسانی ہو۔

یہاں ہمیں کچھ سیاسی ‘راک چاکنگ’ بھی نظر آئی۔ اُمید ہے کہ جن سیاسی رہنماؤں کی رہائی کے لیے نعرے یہاں کبھی لکھے گئے ہوں گے وہ اب تک جیل سے چھوٹ چکے ہوں گے۔

مہنگا ناشتہ

دلفریب مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم نے گورکھ ہل کے واحد ریسٹورنٹ کا رخ کیا۔ ہمارا ارادہ روایتی ناشتہ انڈا پراٹھا کھانے کا تھا لیکن پتا چلا کہ انڈے ختم ہو چکے ہیں۔ جو واحد آپشن موجود تھا وہ آلو کے سالن اور پراٹھوں پر مبنی تھا۔ بہرکیف وہی آرڈر کیا جو خلاف توقع انتہائی لذیذ تھا۔ گرم گرم چائے اور پراٹھوں سے موسم کا لطف دوبالا ہو گیا۔

ہاں یہ ‘مزا’ اُس وقت کرکرا ہوا جب ہمارے سامنے بل پیش کیا گیا۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ اِسی مقدار اور معیار کے کھانے کی قیمت کسی دوسری جگہ کافی کم ہو گی۔

ناشتے کی میز پر ہی ہمیں کراچی سے آئے سمیع خان ملے جو گھر والوں کے بجائے اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں پہنچے تھے۔

جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ گورکھ ہِل ہے تو دلچسپ جگہ لیکن یہاں آنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار ہے خاص طور پر واہی پاندھی سے گورکھ تک کا جیپ ٹریک خواتین اور بچوں کے لیے موزوں نہیں۔

مقامی لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ لوگ گورکھ ہل سٹیشن آنے کا ارادہ نہیں کرتے۔

یہیں ہماری ملاقات ریستوران اور ہوٹل چلانے والے زاہد جمالی سے ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت واہی پاندھی سے گورکھ ہِل تک 50 کلومیٹر روڈ بنا دے تو نہ صرف یہاں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا بلکہ جس سفر میں اس وقت ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں وہ 30 منٹ سے بھی کم وقت میں طے ہو جائے گا۔

زاہد جمالی نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں اندرون ملک سیاحت میں اضافے کے بعد اب کئی نجی ٹور کمپنیاں سیاحوں خاص طور پر نوجوانوں کے گروپس کو ہفتہ وار تعطیلات میں گورکھ ہِل سٹیشن لے کر آتی ہیں۔

بھیڑیے جو مویشی کھا جایا کرتے تھے

جب ہم نے مقامی رہائشیوں سے گورکھ نام کے بارے میں پوچھا تو کئی کہانیاں سننے کو ملیں۔ کچھ نے کہا کہ یہ بلوچی زبان کے لفظ کُرک کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کے معنی کچھ لوگ لگڑبگھا بتاتے ہیں۔

جبکہ بعض افراد کے مطابق اس کا مطلب بھیڑیا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق یہاں کسی زمانے میں بھیڑیے ہوا کرتے تھے جو مویشی کھا جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ نام پڑا۔

کچھ روایات کے مطابق برسوں پہلے ایک سادھو سری گورکھ ناتھ اس علاقے میں رہا کرتے تھے اور اس طرح اس پہاڑ کا نام گورکھ پڑ گیا۔

سنسکرت کی ایک روایت بتاتی ہے کہ گورکھ کے معنی مویشیوں کو چرانا ہے جبکہ سندھی زبان میں لفظ گورکھ کے معنی مشکل اور دشوار گزار کے ہیں۔

نام کا مطلب کچھ بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ گورکھ ہِل کا قدرتی حسن یہاں آنے والوں کی سانسیں روک دینے کے لیے کافی ہے۔ چاروں جانب دُھند میں لپٹی پہاڑیوں اور خطرناک کھائیوں کا نظارہ انسان پر سحر طاری کردیتا ہے۔

اگر آپ بھی کراچی کی سارا سال چلنے والی چلچلاتی گرمی سے جان چھڑا کر کسی ٹھنڈے سیاحتی مقام کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو گورکھ ہل سٹیشن سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔

یہاں آنے کے لیے موسمِ گرما میں جون اور جولائی جبکہ سردیوں میں دسمبر اور جنوری بہترین وقت ہے۔ اگر قسمت ساتھ دے تو کیا پتا آپ یہاں برف بھی گرتی دیکھ لیں اور پھر واپس جا کر اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو بتا سکیں کہ ہاں واقعی سندھ میں برف باری ہوتی ہے۔

تو پھر آپ کب گورکھ ہِل جا رہے ہیں؟

 

 

یہ بھی پڑھیں