عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت کی چھت کو سفید رنگ کرنے سے سورج کی گرمی اس پر پڑ کر واپس ہو جاتی ہے جو درجۂ حرارت کم کرنے کا سب سے درست طریقہ ہے لیکن یہ طریقۂ کتنا موثر ہے اور اس کے منفی اثرات کیا ہیں؟
اقوامِ متحدہ کے سابق جنرل سیکریٹری بان کی مون نے حال ہی میں بی بی سی کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ یہ 30 ڈگری تک کم ہو سکتا ہے اور گھر کے اندر کا درجۂ حرارت سات ڈگری تک گر سکتا ہے۔
یہ اعداد و شمار کہاں سے آئے اور کون سی تحقیق انھیں درست ثابت کرتی ہے؟
بانکی مون انڈیا کی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں جاری ایک پائلٹ پروجیکٹ کی بات کر رہے تھے۔ احمد آباد میں گرمیوں میں درجۂ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔
سنہ 2017 میں شہر بھر کی تین ہزار سے زیادہ چھتوں کو سفید رنگ کا خاص پینٹ لگایا گیا۔
یہ چھت ٹھنڈا کرنے کا ایسا عمل ہے جو سورج سے پیدا ہونے والی گرمی کو کم کرتا ہے تاکہ کم سے کم گرمی عمارت کے اندر پہنچے۔
جتنی گرمی عمارت نے جذب کی، چھت ٹھنڈا کرنے کا یہ عمل اس گرمی کو باہر نکال کر درجۂ حرارت کم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔
اس پروجیکٹ کی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ منعکس کرنے والی چھت کی یہ تہہ چھت کا درجۂ حرارت 30 سینٹی گریڈ جبکہ گھر کے اندر کا درجۂ حرارت تین سے سات ڈگری تک کم کر سکتی ہے
درجۂ حرارت میں دو سے پانچ ڈگری تک کمی
امریکہ میں قدرتی وسائل کے بچاؤ کے ادارے سے منسلک انجلی جیسوال احمد آباد پروجیکٹ کے معائنے کے بعد کہتی ہیں ’اس کا انحصار ترتیب پر ہے لیکن عام گھروں کے مقابلے میں چھت ٹھنڈا کرنے کا یہ عمل گھر کے اندرونی درجۂ حرارت کو دو سے پانچ ڈگری تک کم کرنے میں مدد گار ہے۔‘
یہ بانکی مون کے اندازے سے کچھ کم لیکن پھر بھی اہم ہے۔
انڈیا کی جنوبی ریاست حیدرآباد میں جاری ایک اور پائلٹ پروجیکٹ میں چھت ٹھنڈا کرنے کے لیے جھلی دار شیٹ استعمال کی گئی ہے جس سے گھر کے اندر کا درجۂ حرارت باہر کے مقابلے میں دو ڈگری سے بھی کم پایا گیا۔
جہاں تک درجۂ حرارت کے 30 ڈگری تک گرنے کا سوال ہے تو گجرات کے پائلٹ پروجیکٹ میں اس کا کوئی جواب نہیں ملا لیکن امریکی ریاست کیلیفورنیا کی برکلے لیبارٹری میں ایسے نتائج سامنے آئے ہیں۔
تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ سفید چھت سے 80 فیصد تک روشنی ٹکرا کر واپس ہو جاتی ہے اور سخت گرمیوں کے دنوں کے میں یہ چھت 31 ڈگری تک درجۂ حرارت کم کر سکتی ہے۔
یقیناً کیلیفورنیا کے حالات انڈیا سے مختلف ہوں گے۔ وہاں 60 فیصد سے زیادہ چھتوں کی تعمیر میں دھات، ایسبسٹوس اور کنکریٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں سفید پینٹ کی تہہ کے باوجود گرمی عمارت کے اندر ہی موجود رہتی ہے۔
تاہم احمد آباد اور حیدر آباد جیسے انڈین شہروں میں چلنے والے پائلٹ منصوبوں میں کامیابی دیکھی گئی۔
یہ کوئی نیاخیال نہیں
تو مزید شہروں کی زیادہ سے زیادہ چھتوں پر سفید پینٹ کیوں نہیں کیے جا رہے ہیں؟ آئیڈیا نیا نہیں، صدیوں سے جنوبی یورپ اور شمالی افریقی ممالک میں سفید چھتیں اور دیواریں دیکھی جا رہی ہیں۔
حال ہی میں نیویارک شہر کے 10 ملین مربع فٹ چھتوں پر سفید پینٹ کیا گیا۔
کیلیفورنیا جیسی جگہوں پر سرد چھتوں کو فروغ دینے کے لیے بلڈنگ کوڈز کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ اسے توانائی بچانے کا اہم طریقہ سمجھا جا رہا ہے۔
ٹھنڈی چھتیں آپ کے ایئر کنڈیشنگ بل کو بھی 40 فیصد تک کم کر سکتی ہیں۔
کم قیمت اور بچت بھی
بھوپال میں کیے گئے ایک تجربے میں معلوم ہوا کہ ایسی عمارتیں جو کم اونچائی پر ہوں ان میں سورج کی روشنی منعکس کرنے والا پینٹ زیادہ سے زیادہ گرمی میں 303 کلو واٹ تک توانائی بچا سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اگر چھت ٹھنڈا کرنے کے پینٹ کو دنیا بھر میں ہر چھت پر استعمال کیا جائے تو اس سے عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں کمی کا امکان ہے۔
برکلے لیبارٹری کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی کو واپس پلٹانے والی کنکریٹ چھت 24 گیگاٹن تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ٹھنڈا کر سکتی ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے 20 سال کے لیے 300 ملین گاڑیاں سڑکوں سے ہٹا لی جائیں۔ یقینی طور پر یہ کم قیمت والا آپشن ہے، خاص طور پر غریب ملکوں کے لیے۔
جیسوال کا کہنا ہے ’روشنی منعکس کرنے والے مہنگے پینٹ یا چھت ٹھنڈا کرنے والی جھلی دار شیٹ کے مقابلے میں چونے کی ایک تہہ کی قیمت محض ڈیڑھ روپیہ فی فٹ ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’ذاتی آرام، توانائی کی بچت اور ٹھنڈا کرنے کے درمیان فرق بہت اہم ہے تاہم سیاسی عزم کے فیصلوں پر عمل درآمد کی بہت اہمیت ہے۔‘
منفی اثرات
جیسوال کہتی ہیں کہ ’ہاں، اس کے چند منفی پہلوؤں پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔‘
جن شہروں میں سردی زیادہ پڑتی ہو یا جہاں سردی کا موسم ہو وہاں چھتوں کو گرم کرنے ضرورت پیش آ سکتی ہے لیکن ایسا کرنے میں ان چھتوں سے پڑنے والے دباؤ کا ایک قدرتی خطرہ بھی موجود ہے۔
اس وجہ سے یونیورسٹی کالج لندن کی ٹیم نے نئی دہلی میں بحالی کے تعمیراتی منصوبے میں سفید پینٹ کا استعمال نہیں کیا۔
نئی دہلی سینٹر کے اربن اور ریجنل اتھارٹی کے مرکز میں رینو کھوسلا کہتے ہیں کہ ’یہاں رہنے والے ان کی چھتوں کو سفید پینٹ کرنے کے خلاف تھے کیونکہ ان کی چھتوں کو کئی دوسرے کاموں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘