تحریریں

انسانی ذہانت کی معراج:پارکر سولر پروب

*انسانی ذہانت کی معراج – پارکر سولر پروب*

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

بچوں کو سنائی جانے والی کہانیوں میں جادوئی قالین یا اڑن کھٹولے کا ذکر آتا ہے تو یہی لگتا ہے کہ یہ چیزیں صرف خیالی دنیاؤں میں ہی ہو سکتی ہیں لیکن انسانی عقل اور ذہانت کی بدولت آج ہم ایسی ناقابل یقین صلاحیتوں والی خلائی مشینیں بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو کسی جادوئی اڑن کھٹولے سے کم نہیں۔

ایسی ہی ایک حیران کن خلائی مشین کا نام پارکر سولر پروب ہے جو انسانی صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی کی معراج کا منہ بولتا ثبوت اور خلائی علوم کی تاریخ کے سب سے شاندار مشنز میں سے ایک ہے۔

آئیے! اس جادوئی شمسی اڑن کھٹولے کو ایک نئے انداز سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

1. حیران کن مرکزی خیال

اگرچہ سورج سے مناسب فاصلے پر موجود ہونے اور کرہ فضائی، اوزون اور مقناطیس میدان کی حفاظتی تہہ میں لپٹے ہونے کی وجہ سے ہمیں سورج کی خوفناک تابکاری کے اثرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور ہم سورج کے بارے میں صرف مثبت ہی سوچتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ توانائی کا واحد منبع ہونے کے ساتھ ساتھ سورج نظام شمسی میں ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ بھی ہے۔ یہ کئی ارب ٹن مادے کو بے پناہ انرجی اور ریڈی ایشن میں بدلنے والا ایک ایسا ایٹم بم ہے جو غیر مناسب حالات میں ہمارے لئے تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ سورج کی سطح پر پیدا ہونے والے شدید قسم کے شمسی طوفان زمین کے ماحول اور ٹیکنالوجی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ طوفان ہمارے سیٹلائٹس کو خراب، جی پی ایس نظام کع مفلوج اور الیکٹرومیگنیٹک لہروں پر چلنے والی تمام مواصلات کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔ ایک حد سے زیادہ شدت والے شمسی طوفان زمین پر زندگی کے لیے بھی نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان تمام وجوہات کی بناء پر سورج کی سرگرمی اور طرز عمل کا مطالعہ کرنا اور اس سے جڑے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لئے تیاری کرنا بہت ضروری ہے اور پارکر سولر پروب اس مقصد میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ گویا پارکر پروب کے ذریعے انسانیت پہلی بار کائنات میں کسی ستارے کی بے پناہ طاقت کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کررہی ہے جو یقیناً ایک بہت بڑا قدم ہے۔

2. سورج کو چھونے والا مشن

یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ کائنات میں ایک نظام شمسی کے مرکزی ستارے کے گرد محو گردش اور اس ستارے سے 13 لاکھ گنا چھوٹے ایک سیارے پر بسنے والی مخلوق کی بنائی ہوئی ایک مشین اپنے ستارے کے اس قدر نزدیک تک گئی کہ اس عمل کو ستارے کو چھونے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔
پارکر سولر پروب نے انسانیت کا سر فخر سے بلند کیا جب 24 دسمبر 2024 کو یہ سورج کی سطح سے صرف 6.2 ملین کلومیٹرز کے فاصلے تک پہنچا جو سورج اور زمین کے درمیانی فاصلے کا محض 4 فیصد کی قریب بنتا ہے۔ سادہ انداز میں سمجھانے کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر سورج زمین سے 100 میٹرز کے فاصلے پر ہو جو کہ ایک فٹبال گراؤنڈ جتنا فاصلہ ہے تو اس پیمانے پر پارکر سولر پروب سورج سے صرف 4 میٹرز تک قریب گیا ہے جو کہ پنالٹی کک لگانے کے مقام سے بھی زیادہ قریب ہوگا۔ مزید سادہ کریں تو اگر سورج اور زمین کے درمیان فاصلہ 1 میٹر ہو تو پارکر پروب سورج کے 4 سینٹی میٹرز تک نزدیک پہنچا۔ اگر آپ تخیل کو استعمال میں لا کر سوچیں تو یہ فاصلہ بے حد کم بلکہ کائناتی پیمانے پر کچھ بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور یقیناً یہ سورج کو چھونے کے برابر ہی ہے۔

3. ناقابلِ یقین رفتار

یہ خلائی مشن انسان کی بنائی ہوئی سب سے زیادہ تیز رفتار مشین بھی ہے جس نے تقریباً 700,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کی ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ رفتا اتنی تیز ہے کہ اس رفتار سے چلنے والی گاڑی ایک گھنٹے کے اندر اندر کراچی سے پشاور تک 650 چکر لگا سکتی ہے۔ مزید آسان طریقے سے سمجھنے کے لئے سوچیں کہ بندوق کی گولی ہماری دنیا میں تیز ترین چیز ہے اور پارکر پروب کی رفتار ایک گولی کی رفتار سے بھی 350 گنا تک زیادہ تیز ہے۔
یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ پارکر پروب کی انتہائی تیز رفتار کا آخر فائدہ کیا ہے؟۔ جانتے ہیں کہ سورج نظام شمسی میں سب سے زیادہ کمیت اور کشش ثقل رکھنے والا جسم ہے اور اسی وجہ سے پارکر پروب کو انتہائی تیز رفتار درکار تھی تاکہ وہ سورج کے بے حد قریب پہنچ کر اپنا مدار برقرار رکھ سکے۔ لیکن رفتار کا صرف یہی ایک فائدہ نہیں ہے۔ اسی رفتار کی بدولت پارکر سولر پروب سورج کے گرد بیضوی مدار بناتے ہوئے سورج کے کورونا میں بار بار داخل ہو کر مختلف فاصلے سے ڈیٹا اکٹھا کر سکتا ہے اور یہی رفتار اس خلائی جہاز کو سورج کی فضا میں داخل ہو کر کسی گولی کی رفتار سے بھی کئی سو گنا تیزی سے سفر کرتے ہوئے بغیر کسی نقصان کے براہ راست ڈیٹا اکٹھا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ لاکھوں ڈگری درجہ حرارت کے علاقے میں سے بغیر کسی نقصان کے گزرنے کے عمل میں پارکر پروب کی رفتار کا بھی بہت اہم کردار ہے اور اس قدر تیز رفتار کا حاصل کرنا اب تک کی تاریخ انسانی کا ایک قابل ذکر واقعہ ہے۔

3. جادوئی ہیٹ شیلڈ

پارکر سولر پروب کی ساڑھے چار انچ موٹی ہیٹ شیلڈ کاربن کمپوزٹ (Carbon Composite) مواد سے بنی ہے جو اپنی طبیعی اور کیمیائی خصوصیات کی بنیاد پر ہلکا، مضبوط اور حرارت کو روکنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ اس کے اندرونی حصہ میں کاربن-کاربن فوم (Carbon-Carbon Foam) استعمال کیا گیا ہے جس میں 90 فیصد تک ہوا بھری ہوئی ہے اور یہ حرارت کے لئے غیر موصل ہونے کے سبب حرارت کی اندرونی حصوں کی جانب ترسیل کو روکتا ہے۔ ہیٹ شیلڈ کی بیرونی سطح چمکیلے سفید رنگ سے ڈھکی ہوئی ہے جو سورج کی روشنی کو موثر طریقے سے منعکس کر کے درجہ حرارت کو کم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ حیرت انگیز مضبوطی اور حفاظت فراہم کرنے کے باوجود ہیٹ شیلڈ کا وزن صرف 72 کلوگرام تک بنتا ہے جو کہ خلائی جہاز کا وزن کم سے کم رکھنے کے لئے بہت ضروری تھا۔ ہیٹ شیلڈ سورج سے آنے والی زیادہ تر روشنی اور حرارت کے موثر انعکاس اور باقی حرارت کی ترسیل کو روکنے کے اصول پر کام کرتے ہوئے اندرونی آلات کو محفوظ رکھتی ہے۔ اس شیلڈ کی تیاری اور وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ جدید ترین لیبارٹریز میں کی گئی تاکہ خلا میں کام کرنے کی صلاحیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ ہیٹ شیلڈ پارکر سولر پروب کی کامیابی کی ضمانت اور جدید ٹیکنالوجی کا ایک ایسا شاہکار ہے جو مستقبل کے مشنز کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوگی۔
دلچسپ بات ہے کہ پروب کے اندرونی حصے کا درجہ حرارت تقریباً 30 ڈگری سیلسیس رہتا ہے جو زمین پر ایک ایئرکنڈیشنڈ کمرے کے برابر ہے۔ گویا پارکر سولر پروب میں نصب آلات اس کی جادوئی ہیٹ شیلڈ کی بدولت سورج کی سطح کے بے حد قریب پہنچ کر بھی ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں کام کر رہے ہیں۔

4. انسانی ناموں کا سورج سے تعارف

ناسا نے اس مشن کے ساتھ سورج تک بھیجنے کے لئے دنیا بھر سے لوگوں کو اپنے نام جمع کروانے کی دعوت عام دی تھی جس پر تقریباً ایک کروڑ سے زائد افراد نے اپنے نام درج کروائے تھے۔ ان افراد کے نام پارکر سولر پروب میں ایک چِپ پر محفوظ کئے گئے اور وہ نام پروب کے ساتھ ہی سورج کو چھو کر گزریں گے۔

5. خلائی موسم کی پیش گوئی

جس طرح زمین پر موسموں کے بارے میں پیشگی اطلاعات کے ذریعے قدرتی آفات کے نتیجے میں نقصان کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح سورج کی سرگرمیوں اور طرز عمل کے مطالعے سے ہم خلائی موسم کے حوالے سے پیش گوئی کرنے اور خود کو کئی خطرات سے محفوظ رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ پارکر سولر پروب شمسی طوفانوں اور شمسی ہواؤں کے منبع اور ان کے روئیے کو سمجھنے میں انسان کی مدد کر رہا ہے جس سے خلائی موسم (Space Weather) کی پیش گوئی ممکن ہو سکے گی۔ گویا انسانیت تاریخ میں پہلی بار زمینی موسم سے خلائی موسم کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے جو ایک ذہین مخلوق کے طور پر بہت حوصلہ افزا بات ہے۔

7. گریویٹی کا حیران کن استعمال

پارکر سولر پروب نے سورج کے قریب جانے کے لیے زمین اور زہرہ (Venus) کی کشش ثقل کا حیران کن انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ مدار کو حاصل کیا۔ اس طریقہ کار کے تحت پارکر پروب نے سیارہ زہرہ کے قریب سے 7 بار پرواز کی تاکہ سیارہ زہرہ کی کشش ثقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی رفتار کو بڑھا سکے اور اپنے مدار کو مطلوبہ فاصلے پر سورج کے قریب کر سکے۔ اگر یہ کام تھرسٹ پیدا کرکے کیا جاتا تو اس سے نہ صرف ایندھن کی صورت میں مشن کی لاگت کئی گنا بڑھ سکتی تھی بلکہ ایندھن کی موجودگی کے باعث مشن کا وزن بھی نامناسب حد تک بڑھ جاتا اور یوں کئی اہم آلات سمیت رفتار کی قربانی بھی دینا پڑ سکتی تھی۔ زمین سے کئی کروڑ کلومیٹرز دور ایک دوسرے سیارے کی کشش ثقل کو عمدگی سے استعمال کرنا انسانی ذہانت، صلاحیت اور خلائی علوم میں مہارت کا ایک زبردست نمونہ ہے۔

8. سورج کی آواز سننا

اس نے سورج کے ماحول میں مقناطیسی میدان کی حرکات اور شمسی ہواؤں کے روئیے کے بارے میں بے حد قریب جا کر کئی نئی معلومات فراہم کیں جو اس سے پہلے پہلے ممکن نہیں تھیں۔ اس نے سورج کے قریب سے نظام شمسی کے تمام سیاروں کی نایاب تصاویر اور ویڈیو بھیجیں جسے سیاروں کا فیملی پورٹریٹ کہا گیا۔
سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ کہ پارکر پروب نے سورج کے کرونا سے پیدا ہونے والی پلازما کی لہروں کی "آوازیں” ریکارڈ کیں جو ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز دریافت ہے۔ گویا پارکر سولر پروب کی بدولت انسان پہلی بار کسی ستارے کے ماحول کی آواز سننے میں کامیاب ہو سکا جو انسانیت کے لئے ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔

9. انسانی تاریخ کا طویل ترین سائنسی منصوبہ

پارکر سولر پروب کی بنیاد 1958 میں ناسا کے قیام کے وقت رکھی گئی تھی لیکن اس کی ٹیکنالوجی پر کام اور غور و فکر 60 سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا تاکہ سورج کے قریب جانے والے اس غیرمعمولی مشن کو زیادہ سے زیادہ مستحکم اور کامیاب بنایا جا سکے۔ گویا یہ صرف ناسا ہی نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے سب سے لمبے عرصے تک جاری رہنے والے سائنسی اور تحقیقی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مشن نوع انسانی کی کئی نسلوں کے ذہین ترین افراد کی محنت کا نتیجہ ہے۔

اگرچہ انسانی تاریخ میں ہر سائنسی پیش رفت کا ایک الگ مقام ہے لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ پارکر سولر پروب کا سورج کو چھونا انسان کے چاند پر قدم رکھنے سے کسی طور کم نہیں اور اس مشن کے نتائج مستقبل میں انسانیت کو خلائی میدان میں زیادہ با اثر اور طاقتور مخلوق بننے میں مدد دیں گے۔

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

یہ بھی پڑھیں