تحریریں

وسیم اکرم کی سوانح عمری: ‘ایک سینیئر کرکٹر نے جوتے اور کپڑے بھی صاف کروائے‘

18 اپریل سنہ 1986کو شارجہ سٹیڈیم میں ایشیا کپ فائنل تھا۔ عالمی چیمپیئن انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کو 50 اوورز میں 245 رنز کا ہدف دیا۔

اس میں سری کانت کے 75، سنیل گواسکر کے 92 اور دلیپ وینگسرکر کے 50 رنز کی اہم اننگز شامل تھیں۔

جب کپتان عمران خان آؤٹ ہو کر پویلین لوٹے تو پاکستان کو آخری 30 گیندوں پر 51 رنز درکار تھے۔

دوسرے سرے پر جاوید میانداد چٹان کی طرح کھڑے تھے اور آخری اوور سے قبل اپنی سنچری مکمل کر لی تھی۔ آخری چھ گیندوں پر 11 رنز درکار تھے اور وسیم اکرم اور میانداد کریز پر موجود تھے۔

جاوید نے وسیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ‘مجھے لمبے ہینڈل والا بیٹ چاہیے؟’

پاکستان کے ڈریسنگ روم میں ایسا صرف ایک بیٹ تھا جو وسیم اکرم کی کٹ میں تھا۔

"وہ آخری اوور یاد کر کے اب بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جاوید کو سٹرائیک پر رکھنے کی کوشش میں، میں رن آؤٹ ہو گیا لیکن جاوید نے چیتن شرما کے آخری اوور میں پہلے چوکا اور پھر آخری گیند پر چھکا لگا کر پاکستان کو تاریخی جیت دلائی۔ وہ بیٹ مجھے واپس نہیں ملا، جاوید بھائی نے اس کو دس گنا قیمت پر نیلام کر دیا ہو گا! اور یہ درست بھی ہے۔’

یہ باتیں پاکستان کے سابق کپتان اور مشہور کرکٹر وسیم اکرم نے اپنی سوانح عمری ’سلطان: اے میموئیر‘ میں لکھی ہیں۔

اس ایشیا کپ کو ہوئے 36 سال ہو چکے ہیں لیکن وسیم اکرم کے مطابق اس سال تک انڈیا کو ون ڈے میچوں میں پاکستان پر 8-7 کی برتری حاصل تھی جو اس میچ کے بعد پلٹ گئی۔

پاکستان ٹیم میں سرپرستی

حال ہی میں جاری ہونے والی اس خود نوشت میں وسیم اکرم نے کئی بڑے دعوے بھی کیے ہیں اور کچھ دلچسپ باتوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر، اکرم کے مطابق، ‘پاکستان کرکٹ میں جگہ بنانے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی کی سرپرستی بڑا کردار ادا کرتی ہے۔’

انھوں نے اپنی سوانح میں کھل کر بتایا کہ موجودہ ٹیم میں بابر اعظم، عبداللہ شفیق، امام الحق، عثمان قادر اور اعظم خان جیسے کھلاڑی کسی نہ کسی پرانے کھلاڑی کے بیٹے، بھتیجے یا بھائی ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سنہ 1984 میں اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کرنے والے وسیم اکرم کا شمار اب تک کے خطرناک ترین فاسٹ باؤلرز میں ہوتا ہے، جن کے بارے میں سچن تنڈولکر نے کہا ہے کہ ‘وسیم ایک ایسے ماسٹر تھے جو اپنی گیند سے کرتب دکھاتے تھے۔’

بائیں ہاتھ سے بولنگ کرنے والے وسیم اکرم نے 104 ٹیسٹ اور 356 ون ڈے کھیلے اور 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم میں بھی ان کا کلیدی کردار تھا۔ انھوں نے 25 ٹیسٹ میں پاکستان کی کپتانی بھی کی۔

اے آر وائی نیوز کے سپورٹس ایڈیٹر اور سینیئر صحافی شاہد ہاشمی نے وسیم کے طویل کرئیر کو کور کیا ہے۔ انھوں نے کراچی سے بتایا کہ وسیم اکرم مجھے کئی سالوں سے کہتے آ رہے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی باتیں دنیا کے سامنے رکھیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا شمار بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا اور ہوتا رہے گا۔ لیکن میچ فکسنگ کے الزامات سے انھیں بہت نقصان پہنچا اور شاید اس کتاب کے ذریعے اب وہ اپنی بات بتانا چاہتے ہیں۔’

پاکستانی کرکٹ پر گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی بار میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ کے سائے منڈلا چکے ہیں، جن میں وسیم اکرم کا نام بھی شامل رہا ہے۔

اکرم نے کیا لکھا؟

بہرحال، وسیم اکرم نے اپنی کتاب کے ذریعے پہلی بار اپنے بچپن کی کچھ خاص باتیں شیئر کی ہیں۔

اپنی سوانح عمری ‘سلطان: ایک یادداشت’ میں اکرم نے لکھا:

  • ‘میرے والد چوہدری محمد اکرم ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد لاہور چلے آئے۔ وہ عدالت میں پروف ریڈر کا کام کرتے تھے۔
  • ہر صبح میرے والد کوٹ اور ٹائی میں کام پر جاتے تھے اور ہر اتوار کی شام ان کے پاس سکاچ وسکی کا ایک پیگ ہوتا تھا۔ یہ ان کا شوق تھا۔
  • میرے دو بھائی اور ایک بہن تھی لیکن جب میری ماں اور باپ نے الگ رہنے کا فیصلہ کیا تو خاندان ٹوٹ گیا۔ میں اپنی بہن اور والدہ کے ساتھ لاہور میں ہی اپنے ماموں کے گھر رہنے آگیا۔
  • میرے نانا لاہور کے موچی دروازے پر سبزی کا کاروبار کرتے تھے اور ہم شہر کے پرانے علاقے احمد پورہ کی گلیوں میں رہتے تھے۔ گھر میں پیسے کم ہوتے تھے اور ہم کئی بار بھوکے بھی رہتے تھے۔

ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے وسیم لکھتے ہیں: ‘آج بھی میں پلیٹ میں پیش کیے جانے والے کھانے کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔’

پاکستان کے جیو نیوز اور جنگ نیوز گروپ کے سینیئر سپورٹس ایڈیٹر اور کرکٹ ناقد عبدالماجد بھٹی اور وسیم اکرم ایک دوسرے کو اس وقت سے جانتے ہیں جب وسیم منتخب ہونے کے بعد پہلی بار کراچی کی کرکٹ اکیڈمی پہنچے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وسیم نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے، وہ اپنی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔ انھیں سب سے پہلے جاوید میانداد نے دیکھا اور پھر عمران نے انھیں بہت سے ہنر سکھائے، انھیں انگلینڈ میں تجربہ دیا، وسیم ہمیشہ ان دنوں کو ذہن میں رکھ کر ہی آگے بڑھے ہیں۔’

عبدالقادر نے میانداد کو چاقو لے کر دوڑایا

وسیم اکرم نے اپنی سوانح عمری میں یہ بات کئی بار دہرائی ہے کہ سابق کپتان اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ان کے کریئر کو کس طرح بہتر کیا۔

1980 کی دہائی میں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور سنہ 1987 میں انھوں نے ‘کرکٹ فار پیس’ کے نام سے ایک پیش قدمی کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو انڈیا میں پانچ ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے بھیجا تھا۔

وسیم یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ‘عمران خان کے جلوے پہلی بار انڈیا میں دیکھے۔ پوری ٹیم ممبئی کے تاج ہوٹل میں ٹھہری تھی لیکن عمران گودریج بزنس گروپ کے مالک اور ان کی اہلیہ پرمیشور گودریج کے مہمان خصوصی تھے۔ وہ خود مجھے گودریج کے پالی ہل میں موجود عالیشان بنگلے میں لے گئے جہاں پورا بالی وڈ موجود تھا۔’

اس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان اتنی طویل ٹیسٹ سیریز کبھی نہیں ہوئی لیکن اس سیریز کے دوران ہولی کا تہوار بھی آ گیا۔

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہنے والے ‘کنگز گروو کرکٹ سپر سٹورز’ کے مالک ان دنوں انڈیا میں تھے اور ‘سائمنڈز’ کے مشہور کرکٹ بیٹ کی سپانسر شپ میں حصہ خریدا تھا۔

انھوں نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا: ‘میں نے 40 سال تک انڈیا، پاکستان، سری لنکا اور آسٹریلیا کی ٹیموں کو فالو کیا ہے، ایک ساتھ دورے کیے۔ لیکن انڈیا پاکستان کے درمیان ہونے والی سیریز میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان میدان سے باہر کی دوستی حیرت انگیز تھی۔ انھیں ہوٹلوں میں دیکھتا تھا، سب ایک ساتھ مزے کر رہے ہوتے تھے۔’

وسیم اکرم نے بھی اپنی کتاب میں اس کی بڑی مثال پیش کی ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ‘ہولی کے دن آرام کا دن تھا اور ہم نے تاج ہوٹل میں ہولی کھیلی۔ روی شاستری دھوپ سینک رہے تھے جب اعجاز احمد اور منندر سنگھ نے انھیں اٹھایا اور سوئمنگ پول میں پھینک دیا۔ اسی شام میں نے پول کے کنارے بیٹھے دیکھا کہ عبدالقادر جاوید میانداد کو ہاتھ میں پھلوں کو کاٹنے والا چھوٹا چاقو لیے پول کے گرد دوڑا رہے ہیں۔ کیا معاملہ تھا کبھی پتہ نہیں چلا!’

سلیم ملک اور رمیز راجہ

بہر حال اکرم کی سوانح عمری ‘سلطان: اے میموئر’ میں کئی متنازع باتیں ہیں اور شاید اسی وجہ سے بہت سے لوگ اس بات کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں کہ وہ کرکٹرز وسیم کو کیا جواب دیں گے جن کے بارے میں انھوں نے جھوٹے دعوے کیے ہیں؟

ابتدا سلیم ملک کے واقعے سے۔

سلیم ملک پاکستان کے ایک بہترین مڈل آرڈر بلے باز رہے ہیں جو وسیم اکرم سے دو سال قبل ٹیم میں آئے تھے۔

وسیم نے اپنی کتاب میں لکھا: ‘میرے جونیئر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے میرے ساتھ نوکر جیسا سلوک کیا، انھوں نے مجھے اپنی مالش کرنے، اپنے کپڑے دھونے اور جوتے صاف کرنے کو کہا۔’

اس کتاب کے دعوؤں سے کئی سال قبل سلیم ملک نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی جانب سے اپنے ساتھ اچھا سلوک نہ کرنے پر تنقید کی تھی۔ سلیم ملک نے یہاں تک کہا تھا کہ اکرم ان سے کپتانی چھیننا چاہتے تھے۔

یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ وسیم اکرم نے 20-30 سال بعد ایسے الزامات کیوں لگائے یا کیا اب ان الزامات کی ضرورت بھی تھی۔

اے آر وائی نیوز کے سپورٹس ایڈیٹر شاہد ہاشمی کے مطابق ‘عمران خان نے بھی اپنی کتاب میں اس طرح کی باتیں لکھی ہیں کہ بڑے گھرانے سے ہونے کے باوجود جب وہ ٹیم میں آئے تو صادق محمد نے انھیں پانی پلانے کے لیے کہا، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، لیکن وسیم نے جس طرح لکھا ہے وہ انھیں اچھا تو نہیں لگا۔’

اکرم کے حالیہ دعوؤں پر بات کرتے ہوئے سلیم ملک نے پاکستان کے ’24 نیوز’ کو بتایا: ‘میں اس کتاب پر تب تک تبصرہ نہیں کر سکتا جب تک میں اسے پڑھ نہ لوں۔ لیکن ہم جس ہوٹل میں ٹھہرتے تھے وہاں کپڑے دھونے کے لیے واشنگ مشین ہوا کرتی تھی۔’

‘دی ویک’ میگزین کی ڈپٹی بیورو چیف-سپورٹس نیرو بھاٹیہ نے بھی وسیم اکرم کے تقریباً تمام بڑے میچوں کا احاطہ کیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ‘وسیم اکرم سوئنگ باؤلنگ کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب کپتان اور آل راؤنڈر بھی رہے ہیں۔ اب اگر وہ اپنی بات دنیا کو بتانا چاہتے ہیں تو یہ بالکل درست ہے، ان کے اندر ایک ٹیس تھی اور انھیں اس پر لکھنے کا حق ہے، کیوں نہیں۔’

پاکستان ٹیم میں جگہ ملنے سے قبل وسیم اکرم کو کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں شروع ہونے والے پی سی بی کیمپ میں ٹریننگ کا موقع ملا، جس میں جاوید میانداد کا بڑا ہاتھ تھا۔

اس کے بعد، کراچی کے وائی ایم سی اے میں رہتے ہوئے، 19 سالہ وسیم نے 600 روپے ماہانہ (پاکستانی) کی تنخواہ پر ‘پاکو شاہین’ نامی کلب کے لیے کھیلنا شروع کیا۔

چند ماہ بعد ‘بی سی سی پی پیٹرنز الیون’ ٹیم میں ان کے انتخاب کی خبر وسیم کو ان کے والد نے لاہور سے ایک فون کال پر دی۔ انھوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ ‘وسیم تم پنڈی جا رہے ہو۔’

دراصل نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی اور یہ وسیم کا کسی بین الاقوامی ٹیم کے ساتھ پہلا میچ ہونے جا رہا تھا۔

میچ ہوا اور وسیم اکرم نے وکٹیں بھی لیں۔ لیکن اس ٹیم میں اکرم کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ سربراہ اور سابق کرکٹر رمیز راجہ بھی تھے۔

وسیم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ‘رمیز کو ہمیشہ سلپ فیلڈنگ ملتی تھی کیونکہ ان کے والد پولیس کمشنر تھے۔ لیکن سچ پوچھیں تو وہ کیچ سے زیادہ کيچ چھوڑتے تھے۔’

رمیز راجہ نے ابھی تک ان دعوؤں کا جواب نہیں دیا ہے لیکن میں نے کئی ورلڈ کپ کور کیے ہیں جہاں اکرم اور رمیز دونوں کمنٹری ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور میچز کے دوران پریس باکس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے تھے۔

دونوں کے تعلقات کو دیکھیں تو ایسی کشیدگی کبھی محسوس نہیں ہوئی جب کہ دونوں 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔

سینیئر سپورٹس ایڈیٹر اور کرکٹ ناقد عبدالمجید بھٹی نے کہا کہ ‘وسیم 90 کی دہائی میں نیوزی لینڈ جانے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے اور آٹھ نو کھلاڑیوں نے اکرم کی قیادت میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔’

‘دراصل پاکستان کرکٹ میں مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب عمران 1992 میں ریٹائر ہو گئے۔ وسیم، عامر سہیل، وقار یونس، سلیم ملک یا عاقب جاوید میں تناؤ تھا کیونکہ سب ایک ہی عمر کے تھے۔ کرکٹ کے بعد کی ملاقاتوں میں ان سب سے بہت سی کہانیاں سنی گئیں۔ لیکن وسیم نے اب وہ باتیں لکھی ہیں جو ذاتی سطح پر کہی گئی تھیں، اس لیے شاید یہ کچھ بہت آگے نکل گئی ہیں۔’

وسیم اکرم کی کتاب میں کیے گئے دعوؤں پر ماہرین کی رائے بھی بالکل واضح ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان کے کریئر کو بھی فالو کیا ہے جس میں وسیم کے اچھے اور برے دونوں وقت شامل ہیں۔

اگرچہ ’سلطان: اے میموئر‘ ابھی پاکستان میں ریلیز ہونا باقی ہے لیکن یہ کتاب میڈیا میں طوفان برپا کر رہی ہے کیونکہ خود وسیم اکرم کے مطابق ’پاکستان میں قومی کرکٹ ٹیم کے 11 کھلاڑیوں سے بڑا کوئی نہیں۔’

پاکستان کے سینیئر کرکٹ ناقد عبدالرشید شکور نے اپنی بات دو ٹوک الفاظ میں کہی۔

‘جہاں تک مجھے یاد ہے، رمیز راجہ زیادہ تر کورز یا مڈ آف میں فیلڈنگ کرتے تھے۔ بات یہ ہے کہ رمیز عموماً آؤٹ فیلڈ میں ہوتے تھے۔ اگر 1992 کے ورلڈ کپ کے جیت کی بات کی جائے تو رمیز نے مڈ آف سے دوڑتے ہوئے عمران خان کی باؤلنگ پر ایلنگ ورتھ کا کیچ کیا تھا جو کہ آخری وکٹ تھی۔اب چونکہ رمیز پی سی بی کے سربراہ ہیں اس لیے شاید وہ میڈیا میں اس دعوے کا جواب نہ دیں لیکن کچھ عرصہ پہلے تک ان دونوں کی دوستی کا چرچا ہوا کرتا تھا۔ کئی لوگ تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ رمیز کی تقرری میں وسیم اکرم سے بھی مشاورت کی گئی تھی۔’

یہ بھی پڑھیں