تحریریں

دربان ـ شاعرہ:فائزہ صابری نوا

"دربان”

کاش کہ تم دربان نہ ہوتے
کاش کہ میں مرجان نہ ہوتی
کاش کہ تم نہ دیکھا کرتے
مجھ کو روز جھروکے سے
کاش کہ تم نہ پانی دیتے
میرے باغ کے پودوں کو
کاش کہ تم کو دیکھ کے میں نے
یوں نہ چین گنوایا ہوتا
کاش کہ پھول میں رکھ کے تم نے
سپنا ہی نہ بھیجا ہوتا
بھیج ہی بیٹھے تھے گر تم تو
میں نے اس کو روندا ہوتا
پیر کے نیچے کُچلا ہوتا
میں نے اُس کو طاق میں رکھ کر
روز روز نہ سینچا ہوتا
لیکن اب انجام بھی دیکھو
میرے صبح شام بھی دیکھو
ٹوٹ چکی ہوں ٹوٹ چکی ہوں ٹوٹ چکی ہوں

فائزہ صابری نوا

یہ بھی پڑھیں