کراچی میں خاتون کا پولیس اہلکار کو تھپڑ: ’کارِ سرکار‘ میں مداخلت کیا ہوتی ہے اور خاتون اس کی مرتکب کیسے ٹھہریں؟ ملک میں کیسے اثرات نظر آ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے شہر کراچی سے ایک ویڈیو حال ہی میں سامنے آئی جس میں ایک پولیس افسر ایک گاڑی کو روک رہے ہیں جبکہ گاڑی سے نکلنے والی خاتون ان کے ساتھ الجھ رہی ہیں۔
خاتون ان کو دھکا دے کر گاڑی کے سامنے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن پولیس آفیسر بدستور گاڑی کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور گاڑی چلانے والے کو رکنے اور باہر آنے کا اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔
اسی دوران ان سے الجھنے والی خاتون پولیس آفیسر کو تھپڑ رسید کرتی ہیں اور انھیں دھکا دے کر پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتی ہیں ساتھ ہی وہ ان کے ہاتھ میں موجود سرکاری چھڑی چھیننے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ تاہم پولیس آفیسر بدستور گاڑی کو روکتے رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون پولیس آفیسر اور ایک دوسرے اہلکار کو دھکے دے کر ایک طرف کرنے کے ساتھ ساتھ گاڑی میں بیٹھے شخص کو اشارہ کرتی رہتی ہیں جو گاڑی کو آہستہ آہستہ چلاتے آگے لے کر جاتے رہتے ہیںلیکن سوشل میڈیا کی ویڈیو میں یہ نظر نہیں آتا کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ خاتون اور گاڑی سوار وہاں سے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھر پولیس ان کو روک لیتی ہے؟
اور یہ بھی نہیں معلوم ہو پاتا کہ خاتون پولیس آفیسر سے کیوں الجھ رہی ہیں۔ پولیس نے انھیں کیوں روکا اور انھوں نے پولیس آفیسر کے کہنے پر گاڑی کیوں نہیں روکی۔ ویڈیو سے لیا گیا ایک سکرین شاٹ جس میں الجھنے والی خاتون پولیس آفیسر کو تھپڑ رسید کرتی دیکھی جا سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر صارفین اس ویڈیو کو لے کر بحث کر رہے ہیں جس میں زیادہ تر صارفین خاتون کے خلاف کارروائی کرنے کی تجویز دے رہے۔
جبکہ کچھ صارفین یہ سوال کرتے بھی نظر آ رہے ہیں کہ خاتون کے ردِ عمل کے پیچھے وجوہات کیا ہے۔ معاملہ کیسے شروع ہوا اور بات الجھنے تک کیوں پہنچی۔
کراچی پولیس کے مطابق ضلع ساؤتھ کراچی کے تھانہ سول لائن میں خاتون، ان کے شوہر اور بھائی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق خاتون جن پولیس کے آفیسر کے ساتھ الجھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں وہ ٹریفک پولیس کے ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ یعنی ڈی ایس پی اشتیاق حسین ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈی ایس پی اشتیاق حسین نے بتایا کہ وہ گاڑی بنیادی طور پر ٹریفک سگنل پر رکنے کے بجائے آگے آگے آ رہی تھی۔ انھوں نے ڈرائیور کر رکنے کا اشارہ کیا کیونکہ اس وقت ان کی بتی سرخ تھی اور باقی ٹریفک بھی رکی ہوئی تھی۔
’پہلے میں نے ان کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا وہ پھر پھر بھی گاڑی آگے آگے کیے جا رہا تھا پھر میں نے ہاتھ میں چھڑی پکڑی ہوئی تھی اس کے اشارے سے میں نے ان کو گاڑی روکنے کا کہا۔ ڈرائیور تو رک گیا مگر اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون باہر نکل آئیں اور انھوں نے لڑائی جھگڑا شروع کر دیا۔‘
ڈی ایس پی اشتیاق حسین کے مطابق خاتون نے ان سے کہا کہ ’تم ہمارے نوکر ہو، تم جانتے نہیں ہو میرے بھائی نیوی میں کمانڈر ہیں‘
ڈی ایس پی اشتیاق حسین کے مطابق خاتون نے ان سے کہا کہ ’تم ہمارے نوکر ہو، تم جانتے نہیں ہو میرے بھائی نیوی میں کمانڈر ہیں۔‘
اشتیاق حسین نے بتایا کہ انھوں نے خاتون کو جواب میں کہا کہ ’وہ قانون پر عمل کرنے والوں کے نوکر ہیں اور وہ ان کو صرف اس لیے روک رہے ہیں کہ انھوں نے قانون توڑا ہے۔‘
ڈی ایس پی اشتیاق حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گاڑی خاتون کے شوہر چلا رہے تھے اور رکنے کے بجائے خاتون کے کہنے پر گاڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے پولیس کے اہلکاروں پر چڑھا رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ تھوڑی دیر میں وہاں خاتون کے بھائی اور والد بھی پہنچ گئے لیکن انھوں نے بھی پولیس کے ساتھ بدتمیزی کا رویہ روا رکھا۔
ڈی ایس پی اشتیاق حسین بتاتے ہیں ’ہم نے جب خاتون کے شوہر کو تھانے لے جانے کے لیے پولیس کی گاڑی میں بٹھایا تو خاتون نے بازو سے پکڑ کر انھیں پولیس کی گاڑی سے نیچے اتار لیا۔ ہم نے انھیں بتا دیا کہ ان کے خلاف کارروائی ہو گی اور جب میں تھانے پہنچا تو وہ پیچھے تھانے آئے۔‘