تحریریں

شہزادہ داؤد، سلیمان اور ’مسٹر ٹائٹینک‘: بدقسمت ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافر کون تھے؟

امریکی کوسٹ گارڈ نے تصدیق کی ہے کہ ٹائٹن آبدوز میں سوار پانچوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکام کے مطابق ٹائٹینک کے ملبے کے قریب ہی اس تفریحی آبدوز کے چند حصے ملے ہیں۔

اس آبدوز میں اوشیئن گیٹ کمپنی کے سی ای او، ایک برطانوی ارب پتی مہم جو، ایک فرانسیسی ڈائیور کے علاوہ پاکستانی کاروباری شخصیت شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان سوار تھے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں مل سکیں گی یا نہیں۔

لیکن سمندر کی گہرائیوں تک جانے والے یہ پانچ مسافر کون تھے؟

سٹاکٹن رش

سٹاکٹن رش اوشیئن گیٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو تھے جو ٹائٹینک کے ملبے تک کے تفریحی سفر کا انتظام چلاتی ہے۔ کمپنی نے تصدیق کی ہے کہ سٹاکٹن اس آبدوز پر سوار تھے۔

سٹاکٹن ایک تجربہ کار انجینیئر تھے جو اس سے پہلے ایک تجرباتی فضائی جہاز ڈیزائن کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی چھوٹی آبدوزوں پر بھی کام کیا۔

سٹاکٹن رش نے اوشیئن گیٹ کمپنی کا آغاز 2009 میں کیا تھا۔ انھوں نے صارفین کو سمندر کی گہرائیوں تک سفر کرنے کی پیشکش کی اور 2021 میں ٹائٹینک کے ملبے تک کے سفر کی پیشکش کرنے کے بعد شہرت پائی

ڈھائی لاکھ ڈالر کے عوض ان کی کمپنی سیاحوں کو اس مشہور اور بدقسمت جہاز کے ملبے کا قریب سے نظارہ کرنے کا موقع فراہم کر رہی تھی۔

اس سفر کے لیے پہلے ایک بحری جہاز پر 370 کلومیٹر کا سمندری سفر کرنا پڑتا جس کے بعد ٹرک کے حجم والی آبدوز نما ٹائٹن میں سوار ہو کر سمندر میں آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد ٹائٹینک تک پہنچا جاتا۔

2022 میں امریکی اخبار نیوز یارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں انھوں نے اپنے کاروباری ماڈل کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ٹکٹ کی قیمت خلا میں جانے کی قیمت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے کیوں کہ وہاں تک جانے میں کافی خرچہ ہوتا ہے۔‘

2017 میں پرنسٹن یونیورسٹی کے لیے لکھے جانے والے ایک مضمون میں کہا گیا تھا کہ سٹاکٹن رش اوشیئن گیٹ کی جانب سے ہر سمندری سفر کا حصہ ہوتے تھے۔

سٹاکٹن کی اہلیہ وینڈی رش کے خاندان کے دو افراد ٹائٹینک جہاز پر سوار تھے اور حادثے کے بعد جہاز کے ساتھ ہی ڈوب گئے تھے۔

ہمیش ہارڈنگ

برطانوی مہم جو ہمیش ہارڈنگ ایکشن ایوی ایشن نامی کمپنی چلاتے تھے جو دبئی میں نجی جیٹ ڈیلر شپ ہے۔

ہمیش ساوتھ پول یا قطب جنوبی کا کئی بار دورہ کر چکے تھے جن میں سے ایک میں مشہور سابق خلا باز بز ایلڈرن بھی ان کے ساتھ تھے۔ 2022 میں ہمیش نے خلا کا سفر بھی کیا۔

ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے۔ ان کے پاس سمندر کی تہہ میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ بھی تھا۔

2022

میں انھوں نے ایوی ایشن میگزین سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ہانگ کانگ میں پلے بڑھے اور 1980 کی دہائی میں پائلٹ بنے جب وہ کیمبرج میں پڑھ رہے تھے۔ بینکنگ سافٹ ویئر میں پیسہ کمانے کے بعد انھوں نے اپنی فضائی کمپنی کا آغاز کیا۔

ان کے مطابق ٹائٹینک تک کا سفر جون 2022 میں ہونا تھا لیکن اس سے پہلے کے سفر میں ایک واقعے میں آبدوز کو نقصان پہنچا جس کی وجہ سے ان کا سفر ملتوی ہوتا گیا۔

گزشتہ ہفتے انھوں نے فیس بک پر لکھا تھا کہ اب ان کا ٹائٹینک کے ملبے تک کا سفر 2023 کا پہلا اور آخری سفر ہو گا کیوں کہ کینیڈا میں جس مقام سے سفر کا آغاز ہوتا ہے وہاں موسمی حالات اچھے نہیں ہیں۔

ان کے دوست ڈیوڈ میرنز کے مطابق وہ کافی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے جنھیں مہم جوئی کا شوق تھا۔

ٹیری ورٹس، جو ناسا کی سابق خلاباز ہیں، نے بی بی سی ریڈیو فور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ لوگ نیٹ فلکس دیکھتے ہیں، کچھ گالف کھیلتے ہیں، اور ہمیش کو سمندر کی تہہ تک یا خلا میں جانا پسند تھا۔‘

ہمیش ہارڈنگ ایکسپلورر کلب کے رکن بھی تھے جو تقریبا ایک صدی پرانا گروپ ہے۔ اس گروپ میں ایڈمنڈ ہلری اور امییلیا ایئر ہارٹ جیسے لوگ بھی شامل رہ چکے ہیں۔

شہزادہ داؤد اور سلیمان داؤد

داؤد خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے لیکن ان کے برطانیہ کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ داؤد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں برطانیہ منقتل ہو گئے جہاں انھوں نے یونیورسٹی آف بکنگھم سے شعبہ وکالت میں تعلیم حاصل کی جبکہ انھوں نے گلوبل ٹیکسٹائیل مارکیٹنگ میں فلاڈیلفیا یونیورسٹی سے ایم ایس سی بھی کی۔

شہزادہ داؤد خلا میں ریسرچ کرنے والے ایک کمپنی ’ایس ای ٹی آئی‘ انسٹیٹیوٹ کے ٹرسٹی بھی تھے اور اس ادارے کی ویب سائیٹ پر ان سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

ان تفصیلات کے مطابق شہزادہ داؤد اپنی اہلیہ کرسٹین اور اپنے بچوں سلیمان اور علینا کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم تھے۔ انھیں فوٹو گرافی کا شوق تھا اور وہ جانوروں سے محبت کرنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے تھے۔

شہزادہ داؤد ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ کے وائس چیئرمین تھے۔ ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ داؤد گروپ کا حصہ ہے اور یہ خاندان گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے کاروبار کی دنیا میں مصروف عمل ہے۔

شہزادہ داؤد سنہ 1996 میں خاندانی کاروبار میں شامل ہوئے۔

داؤد ہرکولیس کارپوریشن صنعتوں کے ایک متنوع سلسلے کا انتظام و انصرم سنبھالتی ہے جہاں شہزادہ داؤد توانائی، زرعی و غذائی اشیا، خوراک، پیٹرو کیمیکلز اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں کے انضمام اور ترقی و اختراع کے مواقع تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن لمیٹڈ اور داؤد لارنس پور لمیٹڈ کے بورڈز میں بطور شیئر ہولڈر ڈائریکٹر بھی شامل تھے۔

ان کے بیٹے سلیمان گلاسکو کی یونیورسٹی کے طالب علم تھے جہاں بزنس سکول میں انھوں نے اپنا پہلا سال مکمل کیا تھا۔

ان کے خاندان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ سائنس فکشن کے شوقین تھے اور والی بال کھیلنا پسند کرتے تھے۔

پال ہنری

77 سالہ فرانسیسی پال ہنری ایک سابق نیوی غوطہ خور تھے جن کو ’مسٹر ٹائٹینک‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

انھوں نے ٹائٹینک کے ملبے پر کسی بھی اور شخص سے زیادہ وقت بتایا۔ وہ 1987 میں ٹائٹینک کے ملبے تک جانے والی پہلی مہم کا بھی حصہ تھے۔

وہ ایک ایسی کمپنی کے ڈائڑیکٹر تھے جس کے پاس ٹائٹینک کے ملبے کے جملہ حقوق ہیں

کمپنی کے مطابق پال ہنری ٹائٹینک کے ملبے سے بہت سی چیزوں کی دریافت میں شامل تھے جن میں جہاز کا بیس ٹن کا ایک حصہ بھی شامل تھا۔

ان کے خاندان کے ترجمان کے مطابق فرانس میں وہ ایک ’سپر ہیرو‘ تھے۔

’وہ ٹائٹینک کے عالمی ماہر تھے، اور دنیا کے چاروں کونوں میں سمندر میں جا چکے تھے۔‘

پال ہنری کی فرانسیسی اہلیہ کنیٹیکٹ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ان کے بچے فرانس سے باہر رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں