سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ یونان کے الگ تھلگ دیہاتوں میں بسنے والے لوگ طویل اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔
انھیں ایک نئی جینیاتی تبدیلی کے بارے میں معلوم ہوا ہے جو دیہات میں رہنے والوں میں مشترک ہے اور بظاہر ان کے دل کو ’بری‘ چربی اور کولیسٹرول کو کم کر کے محفوظ رکھتی ہے۔
جانوروں کی چربی سے بھری ہوئی خوراک کے باوجود شمالی کریٹ میں میلوپوٹامس کے لوگ دل کی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔
اور یہ لوگ پنیر کو بے حد پسند کرتے ہیں۔
ان یونانی دیہاتوں میں خاص کیا ہے؟
زونیانا اور انوگیا کے گاؤں جزیرے کریٹ میں اونچی اونچی پہاڑیوں پر واقع ہیں۔
چند افراد گاؤں کے اندراور باہر آتے جاتے رہتے ہیں اور یہاں کے رہائشی بڑی عمروں میں اچھی طرح زندگی گزارنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
یہ بات بھی زیر غور ہے کہ یہاں ہر سال چیز فیسٹیول کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔
پھر غیر صحت بخش؟
اس قسم کی خوراک عام طور پر صحت کے بہت سے مسائل کا باعث ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ کہ چربی سے بھرا کھانا کھانے سے خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھتی ہے اور بڑی مقدار میں ’لو ڈنسٹی لپو پروٹین‘ کولیسٹرول کے خون میں ہونے سے امراضِ قلب اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
دیہات کے رہنے والوں کو بھی اتنی ہی جلدی دوسرے درجے کی ذیابطیس ہوتی ہے جتنی کہ یونان کے دوسرے لوگوں کو ہوتی ہے، لیکن بظاہر انھیں ذیابطیس کے باعث گردوں کا مسائل کا سامنا نہیں ہوتا۔
تو ان کی جین میں الگ ہے؟
یہی وہ چیز ہے جو ویلکم ٹرسٹ سنگر انسٹیٹیوٹ کے محقق جاننا چاہتے ہیں۔
کیا ان دیہاتوں کے رہنے والوں کے جین میں ایسا کچھ ہے جو انھیں دل کے امراض سے محفوظ رکھتا ہے؟
نیچر کمیونیکیشن میں شائع ہونے والی تحقیق میں نئی جنین کی شناخت کی گئی ہے جس میں دل کو محفوظ رکھنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
دو پہاڑیوں پر واقع ان دیہاتوں کے رہائشیوں میں موجود مختلف جنین انتہائی خاص ہے۔
انھیں کیسے معلوم ہوا؟
اس پہیلی کو سلجھانے کے لیے انھوں نے 250 دیہاتیوں کے تمام جینوم کو ترتیب میں رکھا۔
یعنی کے انھوں نے خون کے نمونوں میں سے ڈی این اے حاصل کیے اور انسانی جینوم بنانے والے تین بلین ریشوں کا تجزیہ کیا۔
اس کے بعد انھوں نے اس کے نتائج کی مدد سے مزید تین ہزار رہائشیوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔
ہمارے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟
اس دریافت کا مطلب یہ نہیں کہ باہر جائیں اور خوب جانوروں کی چربی اور پنیر کھانا شروع کر دیں۔
اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے، کیونکہ ہمارے اندر ایسے جنین نہیں پائے جاتے ہیں۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ کیوں بعض لوگوں میں دل کے امراض ہوتے ہیں اور بعض میں نہیں۔