اگر ہم آپ کو ایسی معجزاتی خوراک کے بارے میں بتائیں جسے کھانے کے بعد آپ کی عمر دراز ہو جائے گی تو کیا آپ اس میں دلچسپی ظاہر کریں گے؟
یہ قدرتی طور پر دل کے دورے، فالج اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کے خطرے کو بھی کم کر دیتی ہے اور یہ آپ کے وزن، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول لیول کو بھی قابو میں رکھتی ہے۔
یہ بھی بتا دیں کہ یہ سستی اور بازار میں عام میں دستیاب ہے
آخر یہ کیا ہے؟
یہ فائبر ہے، ایک تحقیق میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ہمیں کتنا فائبر کھانا چاہیے اور یہ ہماری صحت کے لیے کیسے مفید ہے۔
محققین میں سے ایک پروفیسر جان کمنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بہت ٹھوس ثبوت ہیں۔ اس سے سب تبدیل ہو جائے گا۔ لوگوں کو اس حوالے سے کچھ کرنا پڑے گا۔’
فائبر یا سیلولوز پر مشتمل خوراک قبض کا جانا مانا علاج ہے لیکن اس کے صحت کے لیے فوائد اور بھی زیادہ ہیں۔
ہمیں کتنا فائبر چاہیے؟
نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ڈنڈی کے محققین یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کی خوراک میں کم از کم روزانہ 25 گرام فائبر شامل ہونا چاہیے۔
ان کے نزدیک صحت بہتر کرنے کے لیے یہ مقدار ’مناسب‘ ہے جبکہ 30 گرام سے تجاوز کرنے کے اپنے فوائد ہیں۔
بس اتنا ہی فائدہ ہے؟
ایک کیلے کا کل وزن 120 گرام ہوتا ہے مگر یہ خالص فائبر نہیں ہوتا۔ اس میں سے قدرتی چینی اور پانی سمیت سب نکال دیا جائے تو تین گرام فائبر رہ جاتا ہے۔
دنیا کے بیشتر لوگ روزانہ 20 گرام سے کم فائبر کھاتے ہیں۔ اوسطاً ہر روز خواتین 17 گرام جبکہ مرد 21 گرام فائبر کھاتے ہیں۔
کن چیزوں میں فائبر زیادہ ہوتا ہے؟
آپ کو یہ پھلوں، سبزیوں، ناشتے میں استعمال ہونے والے سیریلز، بریڈ، چھلکےدار اناج سے بنے پاستا، دالوں، چنوں، میوہ جات اور بیجوں میں ملے گا۔
30 گرام فائبر کتنا ہوتا ہے؟
ایلین رش، آک لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی پروفیسر ہیں۔ انھوں نے 25-30 گرام فائبر کی حد تک پہنچنے کا طریقہ بتایا ہے۔
- آدھا کپ جو- 9 گرام فائبر
- دو ویٹابکس- 3 گرام فائبر
- براؤن بریڈ کا بڑا سلائس- 2 گرام فائبر
- ایک کپ پکی ہوئی دال – 4 گرام فائبر
- چھلکے کے ساتھ پکا ہوا آلو – 2 گرام فائبر
- آدھا کپ سفید چقندر- 1 گرام فائبر
- ایک گاجر- 3 گرام فائبر
- چھلکے کے ساتھ سیب- 4 گرام فائبر
تاہم وہ کہتی ہیں:’فائبر کو بڑھانا آسان نہیں‘۔ پروفیسر کمنگ بھی اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’یہ کافی بڑی تبدیلی ہے۔ یہ کافی بڑا چیلنج ہو گا‘۔۔
کیا کوئی آسان ترکیب یا طریقہ ہے؟
یہ کچھ چند آسان تراکیب ہیں۔
- چھلکے کے ساتھ آلو پکانا۔
- سفید بریڈ، پاستا اور چاولوں کو ان کی چھلکے کے ساتھ والی قسم کے ساتھ تبدیل کر لیں۔
- چنے اور دالوں کا سالن بنا کر یا سلاد میں ڈال کر کھائیں۔
- بے وقت بھوک کے لیے میوہ جات اور تازہ پھل۔
- دن میں پانچ پھل اور سبزیاں کھائیں۔
اس کا فائدہ کیا ہو گا؟
متعدد تحقیقات کا جائزہ لینے کے بعد اس کے نتائج طبی جریدے لینسٹ میں شائع کیے گئے۔
ان کے مطابق اگر ایک ہزار افراد جو کہ پہلے کم فائبر والی خوراک (15 گرام سے کم) کھاتے تھے ان کو زیادہ فائبر والی خوراک (25 سے 29 گرام) پر منتقل کرنے سے 13 امراض اور دل کے امراض کے چھ معاملات سے بچا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ زیادہ فائبر والی غذا کے استعمال سے ٹائپ ٹو ذیابیطس اور پیٹ کے کینسر کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں جبکہ وزن کم کرنے، بلڈ پریشر پر قابو پانے اور کولیسٹرول کی سطح بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
تحقیق کے مطابق جتنا زیادہ فائبر کھایا جائے اتنا مفید ہوتا ہے۔
فائبر جسم پہ کیا اثر چھوڑتا ہے؟
پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ فائبر کچھ زیادہ نہیں کرتا۔ انسانی جسم اسے ہضم نہیں کر سکتا اور یہ بس آنتوں سے گزر جاتا ہے۔
لیکن فائبر سے ہمیں پیٹ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے یعنی بھوک نہیں لگتی اور یہ چھوٹی آنت میں چربی جذب ہونے کے طریقے کو بھی متاثر کرتا ہے اور جب بڑی آنت میں جا کر جراثیم کی باری آتی ہے تو یہ عمل اور دلچسپ ہو جاتا ہے۔
بڑی آنت میں اربوں کے حساب سے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں اور فائبر ان کی غذا ہے۔
جراثیم فائبر کو استعمال کرتے ہوئے مختلف کیمیکل بناتے ہیں۔ اس میں چھوٹے مالیکیول والے فیٹی ایسڈ ہوتے ہیں اور یہ عمل پورے جسم پر اثر کرتا ہے۔
پروفیسر کمنگ کہتے ہیں: ’یہ جسمانی عضو فائبر ہضم کرنے کے لیے ہے جو بیشتر افراد استعمال ہی نہیں کرتے۔‘
’لوگ فائبر کو چھوڑ رہے ہیں‘
یہ حقیقت حیران کن نہیں کہ فائبر اور چھلکے والے اناج، پھل اور سبزیاں صحت کے لیے اچھے ہیں۔
لیکن یہ بات تشویش ناک ہے کہ کم نشاستہ والی خوراک کی مقبولیت کی وجہ سے لوگ فائبر کو چھوڑ رہے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر نیتا فوروہی کہتی ہیں:’ہمیں اس تحقیق کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔’
اس تحقیق کے نتائج سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اگرچہ غذائی طریقے جن کی بنیاد کم نشاستے والی خوراک ہیں معاشرے میں مقبول ہو رہی ہے، ’یہ تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ فائبر اور چھلکے والا اناج لمبی زندگی کے لیے یقیناً ضروری ہے۔‘