عورت کیا ہے؟شیطان کا آلہ کار، ایک جال جس میں پھنس کر ہم موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ عورت کیا ہے؟ برائی کی جڑ، ساحل پر پھنسا تباہ شدہ جہاز، گندگی کا ڈھیر، ایک گھناؤنی غلطی، آنکھوں کا بہکاوا۔‘
عورت کے بارے میں یہ الفاظ 13ویں صدی میں بازنطین کے مسیحی دانشور تھیوناسٹس کے ہیں۔
اسی صدی میں عورتوں کے بارے میں ایک اور نظریے کے مطابق ’بادشاہ کے نوکروں کو کبھی اقتدار نھیں ملنا چاہیے، اس سے ان کی شان و شوکت تباہ ہو جاتی ہے۔ یہ بات خاص طور پر عورتوں کے لیے سچ ہے جو نقاب پہننے والی ہیں اور کم عقل ہیں۔۔۔ بادشاہوں کی بیویاں اگر حکمرانوں کا کردار ادا کرنا شروع کر دیں تو وہ صرف دوسروں کے کہنے پر چلتی ہیں کیونکہ وہ دنیا کو اس طرح نھیں دیکھ سکتیں جس طری مرد دیکھتے ہیں جن کی ہر وقت عالمی امور پر نظر ہوتی ہے۔۔۔ تمام ادوار میں جب بھی بادشاہ اپنی ملکاؤں کے زیر اثر رہے ہیں اس کا نتیجہ صرف افراتفری، شرمندگی، بدنامی اور بدعنوانی کی صورت میں سامنے آیا۔‘
یہ الفاظ 11ویں صدی کی مشہور شخصیت نظام الملک کے بادشاہوں کے لیے ہدایت نامے ’سیاست نامہ یا سیار الملوک‘ سے لیے گئے ہیں جس سے 13ویں صدی میں بھی رہنمائی لی جا رہی تھیایک مؤرخ کے بقول یہ وہ زمانہ تھا جب حکمرانی کے بارے میں ہدایت ناموں میں، چاہے وہ مسیحی تھے یا مسلم، عورتوں کے موضوع پر ایک ہی جتنی زن بیزاری جھلکتی تھی۔
ایک طرف یہ نظریاتی ماحول اور دوسری طرف زمینی حقائق۔ ان دونوں میں تضاد کا فائدہ اٹھا کر قرون وسطیٰ میں بھی عورتیں پردے کے پیچھے سے اور سامنے آ کر طاقت کی جدوجہد میں متحرک نظر آتی ہیں، کئی بار انھیں کامیابی ملی اور کبھی وہ ناکام ہوئیں۔
ان میں ایوبی سلطنت کی ملکہ بننے والی ایک سابقہ کنیز شجر الدر ہیں جن کا ذکر ہم اس سے پہلے ایک مضمون میں کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے بیٹے کی کم عمری میں منگولیا کی حکمران تورگین خان، جارجیا کی ملکہ ٹیمر، ملکہ ٹیمر کی وارث ان کی بیٹی ملکہ روسوڈان، حلب کی حکمران ضیفہ خاتون، کرمان کی حکمران ترکان خاتون اور ہماری آج کی کہانی کی مرکزی کردار جارجیا اور آرمینیا کی مشترکہ فوج کے سپہ سالار ایوان کی بیٹی ٹیمٹا شامل ہیں۔
ٹیمٹا کو اپنی پیدائش پر وہ تمام تر کمزوریاں ورثے میں ملی تھیں جو کسی بھی بیٹی کو بہت سے زمانوں اور معاشروں میں ملتی تھیں۔ ان کی تاریخ پیدائش نامعلوم ہے اور امکان تھا کہ جارجیا جیسی ایک طاقتور سلطنت کے دربار میں خاندان کی اہم پوزیشن کے باوجود ان کا نام بھی شاید کسی کو معلوم نہ ہوتا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے خاندان کی طرف سے کسی گرجا گھر یا مذبی عمارت کی تعمیر کے بعد مردوں کے نام لکھے گئے اور مردوں میں بھی ان کی زیادہ اہمیت تھی جنھیں ممکنہ طور پر کوئی سیاسی مقام مل سکتا تھا، خواتین کا بہت کم ذکر ہے اور ٹیمٹا کا ذکر خاندان کی کسی عمارت پر نھیں۔ ان کی شناخت اپنے والد سے تھی اور ان کی زندگی کیا رخ اختیار کرے گی اس کا انحصار بھی ان کے والد کے مفادات پر تھا۔
تو پھر اُس زندگی کی شروعات کیسے ہوئی کہ مؤرخ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ ’ٹیمٹا کی کہانی میں کوہ قاف(جارجیا اور آرمینیا) کے مسیحی، ایوبی، سلجوک ترک اور اناطولیہ اور شام کی دیگر ترک امارات ایک ہو جاتی ہیں۔‘
یہ 13ویں صدی کے اوائل کی بات ہے جب مشرقی اناطولیہ کی ریاستوں کے لیے ہر سال موسم گرما میں ایک دوسرے خلاف جنگی مہمات معمول کی بات تھی۔
ٹیمٹا کے والد ایوان بھی جارجیا کی فوج لے کر اسی طرح کی ایک مہم پر اخلاط گئے تھے لیکن وہاں حالات نے ایسی صورت اختیار کی کہ محاصرے کے دوران وہ قیدی بن گئے۔ ان کی رہائی کے لیے دونوں طرف سے سفارتی حلقے حرکت میں آ گئے اور ایک معاہدہ طے پایا جس میں ان کی بیٹی ٹیمٹا کی اخلاط کے حکمران الاوحد سے شادی کی شرط بھی شامل تھی۔
اس طرح ٹیمٹا کا ذکر تاریخی دستاویزات میں پہلی بار سنہ 1210 میں ہونے والے اس معاہدے میں اپنے والد کی رہائی کے لیے ادا ہونے والے ’تاوان‘ کے طور پر ملتا ہے۔ اس کے بعد حالات یہاں تک پہنچے کہ ٹیمٹا نے منگول قیدی کی حیثیت سے کوہ قاف سے منگولیا تک کا ہزاروں کا میل کا سفر کیا۔ ’یہ اس زمانے میں مرد کے لیے بھی بہت بڑی بات تھی کجا کے ایک عورت کے لیے۔‘
مؤرخ اینٹنی ایسٹمنڈ نے اپنی کتاب ’ٹیمٹاز ورلڈ‘ (ٹیمٹا کی دنیا) میں شہزادی ٹیمٹا کی کہانی شروع کرتے ہوئے لکھا کہ جارجیا کے سپہ سالار ایوان کے قیدی بننے کی گونج مسلسل ٹیمٹا کی باقی زندگی میں سنائی دیتی رہی۔
اپنی شادی اور موت کے درمیان ان تقریباً 45 برسوں میں، تاریخ بتاتی ہے، ٹیمٹا دو ایوبی شہزادوں اور چنگیز خان کا سامنا کرنے والے مشہور جنگجو جلال الدین خوارزمی کی بیوی بنیں۔ اس دوران وہ ایک بار ‘ریپ’ کا شکار ہوئیں، ان کے شہر پر سلجوکوں کا قبضہ ہوا اور پھر جب مشرق سے فتوحات کرتے ہوئے منگول آئے تو انھیں اخلاط سے قیدی بنا کر کئی ہفتوں کے دشوارگزار سفر پر تقریباً 5000 ہزار کلومیٹر دور منگولیا روانہ کر دیا گیا۔
ان کی کہانی کا انجام غالباً سنہ 1254 میں اخلاط میں ہی ان کی موت پر ہوتا ہے جہاں اس وقت وہ منگولوں کی نمائندے کے طور پر شہر کی حکمران تھیں اور اس کے ایوبی حکمران ماضی کا حصہ بن چکے تھے۔ ان کی آخری آرامگاہ کے بارے میں معلومات وقت کی گرد میں گم ہو چکی ہیں۔ قرون وسطیٰ کے مؤرخین کے لیے عورت کی زندگی اتنی دلچسپ نھیں تھی کہ اس کا مکمل ریکارڈ رکھا جائے۔
لیکن، مؤرخ اینٹنی ایسٹمنڈ نے لکھا ہے کہ، اس زمانے کی مختلف زبانوں میں محفوظ ذرائع میں کہیں کہیں ان کا اتنا ذکر ضرور ملتا ہے جس سے ایک کہانی بنائی جا سکتی ہے۔
ٹیمٹا کی ایوبی دنیا میں آمد اور یک بعد دیگر دو شادیاں
الاوحد سلطان صلاح الدین ایوبی کے کئی بھتیجوں میں سے ایک تھے۔ سنہ 1210 میں االاوحد کو اخلاط کا حاکم بنے زیادہ دیر نھیں ہوئی تھی لیکن ان کا دور زیادہ طویل نھیں تھا۔ ٹیمٹا سے شادی کے کچھ ہی عرصے کے بعد ان کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ ان کے بھائی الاشرف موسیٰ اخلاط کے حکمران بنے۔
نتیجتاً جارجیا کے ساتھ ٹیمٹا کے والد کی رہائی کے لیے ہونے والے معاہدے کو پرا کرنے کی ذمہداری ان پر آ گئی اور ٹیمٹا کی شادی بھی اب ان سے ہو گئی۔ ایسٹمنڈ بتاتے ہیں کہ اس شادی کے بعد ٹیمٹا ایک بار پھر تاریخ کے اوراق سے غائب ہو جاتی ہیں۔ ان کی زندگی کا اگلا دور سنہ 1230 میں چنگیز خان کا سامنا کرنے والے مشہور جنگجو جلال الدین خوارزمی کی اخلاط کی فتح سے شروع ہوتا ہے جب وہ ایوبیوں کی عربی دنیا سے نکل کر ترک فارسی دنیا کا حصہ بن گئیں۔
ایوبی دربار میں مسیحی شہزادی
یہاں سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ مختلف مذہب کے ماننے والوں کے درمیان شادیاں اس زمانے میں عالمی سفارتکاری کا اہم حصہ تھیں اور خطے میں عام بات تھی۔ ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ 12 اور 13 ویں صدی میں اس کی بہترین مثالیں اناطولیہ میں ایوبیوں کے طاقتور مسلمان مخالف سلجوک حکمرانوں میں ملتی ہیں جہاں ایک بار پانچ نسلوں تک مسلسل سلطانوں نے مسیحی شہزادیوں سے شادیاں کیں۔
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایوبیوں کا مسیحی اشرافیہ کے کسی رکن کے ساتھ شادی کا ذکر نھیں ملتا اور ٹیمٹا کی شادی ایوبی خاندان کے لیے غیر معمولی واقعہ تھا۔
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ سلجوک اور ایوبی سلطنتیں بیویوں کے لیے مشکل دنیائیں تھیں۔ انھیں ایک طرف تو پردے اور حجاب کا خیال رکھنا تھا اور دوسری طرف دربار کی حقیقی سیاست اور اپنے مالی سکیورٹی پر بھی نظر رکھنی تھی۔
لیکن اس کے باوجود، مؤرخ ایسٹمنڈ بتاتے ہیں، ٹیمٹا نے اخلاط میں اختیار استعمال کرنے کے راستے نکال لیے تھے، جیسا کے خطے کی کچھ دوسری خواتین نے بھی کیا۔
آرمینیائی مؤرخ کراکوس گاندزاکیتسی لکھتے ہیں کہ ’سلطانوں کے گھر میں اس خاتون کے آنے کا سلطنت میں بسنے والے مسیحی لوگوں کو بہت فائدہ ہوا۔۔۔۔مسیحی خانقاہوں پر ٹیکس کم کیا گیا اور نصف پر تو بالکل ختم کر دیا گیا تھا۔‘ اس کے علاوہ انھوں نے مسیحی مقدس مقامات کی زیارت کے لیے جانے والوں کے لیے رعایات بھی حاصل کیں۔
ایسٹمنڈ بتاتے ہیں کہ ٹیمٹا کی زندگی کے بارے میں زیادہ تر معلومات آرمینیا کے مؤرخ کراکوس کے ذریعے ہی ملتی جو ٹیمٹا کے زمانے میں حیات تھے۔
مسلمان بیویاں اور مسیحی بیویاں
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ مسلمان ریاستوں میں حکمرانوں کی مسلمان بیویوں کی زندگی مسیحی بیویوں سے اس طرح کچھ مختلف تھی کہ مسیحی عورتوں کو کم سے کم اصولی طور پر اپنے اور اپنے بچوں کے لیے دوسری بیویوں سے خطرہ نھیں تھا۔
ٹیمٹا کے کیس میں وہ ایوبی طاقت کے مرکز سے دور ایک سرحدی علاقے میں مقیم ہونے کی وجہ سے کسی حد تک بہت سی مشکلات سے محفوظٌ تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے شوہر الاشرف کی کسی بیوی کا بیٹا نھیں تھا اس لیے ان سب میں سیاست کی ایک بڑی وجہ موجود نھیں تھی لیکن وہیں پر بیوگی کی صورت میں ان کے لیے مستقبل میں بیٹے کے سہارے کا امکان بھی نھیں تھا۔
ایک ایوبی کی بیوی کے طور پر ٹیمٹا کو پہلے سے زیادہ دولت اور اثر و رسوخ حاصل ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی مسیحی ہونا ان کی پوزیشن کمزور بھی بنا دیتا تھا۔ وہ ایک ایسے دربار میں تھیں جہاں ان کا کوئی رشتہ دار اور دوست نھیں تھا۔ لیکن پھر بھی سب منفی نھیں تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ انھیں مذہب تبدیل کرنے کے لیے نھیں کہا گیا۔
آرمینیا اور جارجیا کی فوج کے کمانڈر ایوان کو رہائی کے لیے ایک طرف انھیں اپنی بیٹی کی شادی تو کرنا پڑی، لیکن اس کا مطلب طاقتور ایوبی خِاندان سے تعلق قائم ہونا بھی تھا۔ ایوبیوں کے لیے اس معاہدے کے نتیجے میں مشرق میں ایک دشمن کم ہو گیا تھا۔ ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ ٹیمٹا محتلف گروپوں کے مفادات کی علامت بن گئیں۔ ’
’اس طرح اپنی شادی کے فیصلے میں مرضی شامل نہ ہونے اور ایک مہرے کی حیثیت کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ساری کارروائی میں سب سے زیادہ فائدہ ٹیمٹا ہی کو ہوا۔
ٹیمٹا کے لیے مثال جارجیا کی ملکہ ٹیمر
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ الاشرف کے لیے ٹیمٹا سے شادی کرنا ضروری نھیں تھا۔ انھوں نے اگر اپنے بھائی کی بیوہ سے یہ رشتہ قائم کیا تو اس کا مطلب ہے کہ ٹیمٹا مسیحی اکثریت والے اس شہر میں اپنی اہمیت ثابت کر چکی تھیں۔
اس کے علاوہ شہر کی مسیحی آبادی کے لیے حاصل ہونے والی رعایات اور خاص طور پر یورشلم میں مقدس مقامات کا سفر کرنے والوں کے لیے رعایات حاصل کرنے کے لیے انھیں دیگر ایوبی ریاستوں کے حکمرانوں سے بھی بات چیت کرنی پڑی ہو گی۔ ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ یقیناً انھوں نے عربی زبان پر بھی دسترس حاصل کی ہو گی۔
لیکن ایوبی سلطنت میں مشکل ماحول سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس کیا مثالیں تھیں۔ یاد رہے کہ ٹیمٹا کا بچپن اس زمانے میں گزرا جب جارجیا میں ایک عورت ملکہ ٹیمر تخت نشیں تھیں جو اس خطے میں حکمران بننے والی پہلی خاتون تھیں۔
ٹیمٹا نے جس صدی میں آنکھ کھولی اس میں مسلمان ہوں یا مسیحی عورت کے اقتدار کو غیر فطری سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ وہ دور بھی تھا جب ملکہ ٹیمر کی قیادت میں ’جارجیا سنہ 1199 میں گریٹر آرمینیا کے زیادہ تر علاقے پر، جو آجکل مشرقی ترکی اور آرمینیا میں شامل ہے کنٹرول حاصل کر چکا تھا اور اگلی دہائی میں اناطولیہ کی کئی چھوٹی مسلمان ریاستیں بھی اس کے زیر تسلط تھیں۔‘ مثال کے طور پر، ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ، ارض الروم کے حکمران تغرل شاہ جارجیا کی ملکہ کے تابع تھے اور ان کے اسلامی پرچم پر صلیب کا نشان بھی تھا۔
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ اس زمانے کے مسلمان مؤرخین جارجیا کی وسعت پسندی سے پریشان تھے۔ ’ٹیمر کی فوج مشرقی ایران میں خوراسان پر بھی حملہ کر چکی تھی اور ایک مؤرخ نے اس خطرے کا اظہار بھی کیا تھا کہ جارجیا بغداد کے خلیفہ کو ہٹا کر کیتھولک مسیحیوں کو وہاں بٹھانا اور شہر کی مساجد کو گرجا گھروں میں بدلنا چاہتا تھا۔‘ ملکہ ٹیمر کے دور کو جارجیا کی تاریخ کا سنہرا دور اور انھیں ’سینٹ‘ کہا گیا۔
لیکن ملکہ ٹیمر کی تمام تر طاقت کے باوجود ٹیمٹا کے ساتھ ہونے والا سلوک ثابت کرتا ہے کہ ایک عورت کے ملکہ بننے کا یہ مطلب نھیں تھا کہ ہر عورت اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی تھی۔
ایسٹمنڈ نے اپنی کتاب میں شاہی خِاندانوں میں عورتوں کی اہمیت بیان کی لیکن ساتھ یہ بھی لکھا کہ ’قرون وسطیٰ میں بہنوں، بیٹیوں اور بھتیجیوں بھانجیوں کی حیثیت مال کی طرح تھی جسے ان کے مرد رشتہ دار اپنے سیاسی مقاصد پورا کرنے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔‘
ٹیمٹا کی ایوبی سلطنت میں زندگی سنہ 1220 کی دہائی کے آخر میں اچانک مشرق سے ایک حملہ آور کی آمد پر ختم ہو گئی۔ اس تبدیلی کے کئی پہلو ہیں۔ ایک سلجوک شہزادی کے اپنے شوہر سے اختلافات بھی ٹیمٹا کی تیسری شادی اور ایوبیوں کی دنیا سے نکل کر فارسی ترک دنیا میں جانے کی ایک بڑی وجہ گنے جاتے ہیں۔
سلجوک سلطنت کی شہزادی ملیکہ اور جلال الدین خوارزمی کی شادی
تاریخ بتاتی ہے کہ منگولوں کی مشرق سے مغرب کی طرف پیشرفت کی وجہ سے وسطی ایشیا کے ترک-فارسی قبائل اپنے علاقے چھوڑ کر آگے بڑھنے پر مجبور ہوئے۔ ان میں خوارزمی بھی شامل تھے اور ،ایسٹمنڈ بتاتے ہیں کہ، ان کے لیڈر جلال الدین خوارزمی نے ایران، آذربائجان اور کوہ قاف میں سلطنت قائم کر لی تھی۔
اسی زمانے میں ایران کے سلجوک سلطان تغرل شاہ سوم کی بیٹی ملیکہ اپنے شوہر اور آذربائجان کے عطا بیگ مظفرالدین ازبک کی اہلیہ تھیں۔ مظفرالدین کی ایک جنگی مہم کی وجہ سے اپنے علاقے سے غیرموجودگی میں ان کی بیوی ملیکہ کو تبریز شہر کی ذمہ داری سنبھالنی پڑی تھی۔
المختصر جب جلال الدین خوارزم نے تبریز کا محاصرہ کیا تو ملیکہ نے یقینی شکست دیکھتے ہوئے شہر کے امرا کی رضامندی سے حملہ آور کے ساتھ معاہدہ کر کے شہر اس کے حوالے کر دیا۔
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد ملیکہ نے اہنے خاوند کو انھیں طلاق دینے پر مجبور کیا اور جلال الدین خوارزم کے ساتھ شادی کر لی اور نئے شوہر سے انھیں تین شہر حکومت کرنے کے لیے ملے۔ وہ بتاتے ہیں کہ طلاق کے حصول کے لیے ملیکہ نے بغداد اور دمشق میں علما سے فتوے بھی حاصل کیے۔
ایسمنڈ لکھتے ہیں ’ملیکہ کی کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں طاقت اور اختیار استعمال کرنے کے طریقہ کار سے اچھی طرح واقف تھیں اور اپنے علاقوں کے دفاع اور اپنے فائدے کے لیے ان کا استعمال کرنا جانتی تھیں۔‘
تاہم جلال الدین سے ان کی یہ شادی بھی بعد میں ختم ہو گئی اور یہیں سے ملیکہ، جلال الدین اور ٹیمٹا کی کہانی ایک ہو جاتی ہے۔
ٹیمٹا کاریپ
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ جلال الدین خوارزمی کے اخلاط آنے کی ایک وجہ ان کی بیوی ملیکہ کا انھیں چھوڑ کر اس شھر میں آنا بتائی جاتی ہے۔ مؤرخین کے بقول ملیکہ نے پھر یہاں سے آذربائجان میں جلال الدین کے خلاف بغاوت اکسانے کی کوشش بھی کی تھی۔ لیکن جب جلال الدین یہاں پہنچے تو ملیکہ اخلاط میں نھیں تھیں۔ لیکن ٹیمٹا وہاں موجود تھیں، جنھیں سلطان کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔
ایسٹمنڈ نے اس زمانے کے مؤرخ علاؤ الدین عطا ملک جوینی کے حوالے سے لکھا کہ ’وہ (جلال الدین) محل میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے ایوان کی بیٹی کے ساتھ رات گزاری جو ملک اشرف کی بیوی تھیں اور اس طرح انھوں نے اپنی بیوی ملیکہ کے بھاگ جانے پر اپنے غصے کی پیاس بھجائی۔‘
جلال الدین خوارزمی اور ٹیمٹا کی شادی
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں اس زمانے کے مؤرخوں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شہر کی شکست کے بعد ریپ معمول کی بات تھی لیکن اشرافیہ کی خواتین اس سے محفوظ رہتی تھیں اور اس کے بارے میں عالمی سطح پر حکمرانوں میں ایک ان کہا معاہدہ تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس ماحول میں ٹیمٹا اور سمیونس(13ویں صدی کے آخری سالوں کی ایک بازنطینی شہزادی) کا ریپ عالمی رواج کی خلاف ورزی تھی۔ ’اس ریپ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کی حیثیت اپنی ریاستوں کی نظر میں صفر تھی۔‘ ’ٹیمٹا کا ریپ ایک ہی وقت میں جارجیا، آرمینیا اور ایوبیوں کے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔‘
کچھ ہی عرصے بعد جلال الدین کے ساتھ شادی کے بعد ان کے تعلق کو قانونی حیثیت مل گئی تھی۔ تاہم یہ شادی صرف چار ماہ ہی قائم رہی۔ اگست 1230 میں جلال الدین کو الاشرف اور سلجوکوں کی مشترکہ فوج کے ہاتھوں شکست ہو گئی۔ ایسٹمنڈ لکھتے ہیں جنگ کے بعد معاہدے کے نتیجے میں ہی شاید ٹیمٹا اخلاط واپس آ سکیں۔ تاہم اس کے بعد الاشرف دمشق چلے گئے اور ان کی اخلاط میں دلچسپی ختم ہو گئی۔
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ جلال الدین کے لیے ٹیمٹا سے شادی کرنے کی کوئی مجبوری نھیں تھی لیکن پھر بھی ان کے ایسا کرنے سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ ٹیمٹا نے مقامی سطح پر اتنی حیثیت حاصل کر لی تھی جس کا جلال الدین فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔
لیکن ٹیمٹا کی پہلی شادی کا کیا ہوا؟ ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ ’اس شادی کی قانونی حیثیت اس میں جبر کے پہلو اور اس بنا پر مشکوک تھی کہ الاشرف ابھی زندہ تھے اور انھوں نےٹیمٹا کو کبھی طلاق نھیں دی تھی۔‘
ٹیمٹا کی اخلاط واپسی امن مذاکرات کے نتیجے میں ہوئی۔ اور وہ اپنے پہلے شوہر کے پاس واپس آنے کے بعد ایک بار پھر تاریخ کے صفحات سے غائب ہو جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ جلال الدین خوارزمی کا سنہ 1231 میں انتقال ہو گیا تھا۔
جلال الدین کی یلغار اور اقتدار کی اتھل پتھل
جس طرح ملیکہ نے جلال الدین کے حملوں میں اپنا فائدہ دیکھا تھا، ایسٹمنڈ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ، اسی طرح جلال الدین کے حملوں نے اور عورتوں کے لیے بھی راستے بنائے۔ مؤرخ ابن واصل لکھتے ہیں کہ آذربائیجان میں ریندیز کا قلعہ جلال الدین کے حملے میں حکمران دو بھائیوں کی ہلاکت کے بعد ان کی بہن کو مل گیا۔ اس عورت کا نام کیا تھا؟ تاریخ نے وہ درج نھیں کیا۔
مؤرخ بتاتے ہیں کہ ایوبی دور کی عورتوں کے بارے بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ سفارتی اہمیت کے باوجود ان کی ذاتی حیثیت کو بہت کم تسلیم کیا گیا ہے۔
زیادہ تر دستاویزات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے ان کے القابات درج کیے گئے تھے۔ مثلاً، ایسٹمنڈ بتاتے ہیں کہ، اخلاط کے حاکم الاشرف کی بہن اور ایوبی سلطنت کے سلطان العادل کی بیٹی کے لیے جس کی شادی ایک سلجوک سلطان سے ہوئی تھی ’ملکہ عادلیہ‘ لکھا گیا ہے اور اسی طرح دوسری خواتین کے لیے عصمت الدنیا والدین اور صفوت الدنیا والدین کے الفاظ درج ملتے ہیں۔
مسلمان سلطانوں سے بیاہ کر آنے والی کئی مسیحی شہزادیوں کے نام مسیحی دستاویزات سے ملتے ہیں۔ ٹیمٹا کی زندگی میں اگلا موڑ منگولوں کی خطے میں آمد کے ساتھ آیا۔
ٹیمٹا کے شوہر الاشرف کا انتقال اور منگولوں کی قید
سنہ 1236 میں منگولوں کے حکمران اور خان اوگدئی نے اپنی فوج کو کوہ قاف میں مستقل قبضے کا حکم دیا۔ ایسٹمنڈ کہتے ہیں یہ واضح نھیں کہ اس وقت ٹیمٹا کہاں تھیں۔
ایک خیال یہ ہے کہ وہ آرمینیا میں اپنے بھائی اواگ کے پاس تھیں جس نے منگولوں سے معاہدے کے لیے اہنی بیٹی کی شادی کی بھی پیشکش کی لیکن یہ ان کے شہر کو نھیں بچا سکی۔ کچھ عرصے میں ہی اخلاط بھی منگولوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد الاشرف کا انتقال ہو گیا اور ٹیمٹا بیوہ ہو گئیں۔
چنگیز خان کے پوتے کا خیمہ اور بھائی بہن کی پیشی
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ اواگ کو دریائے وولگا کے کنارے خیمہ زن چنگیز خان کے پوتے باتو کے سامنے لایا گیا جو مغرب میں منگول فوج کے کمانڈر تھے۔ اواگ نے اہنی اطاعت کا اعلان کیا اور ان کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے انھیں ایک منگول دلہن بھی دی گئی۔ اب اواگ کی ذمہ داری آرمینیا کی اشرافیہ کو منگولوں کی اطاعت میں لانا تھا۔
ٹیمٹا کو بھی باتو کے سامنے پیش کیا گیا لیکن وہاں سے انھیں واپس بھیجنے کی بجائے قراقرم میں اوگدئی خان کے پاس بھیج دیا گیا۔ آرمینیا میں اواگ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، ایسٹمنڈ لکھتے ہیں، ان کی بہن ٹیمٹا کو یرغمال بنانے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ ٹیمٹا منگول کیمپ سے نو سال بعد واپس آئیں۔ منگولیا جانے کے بعد ٹیمٹا ایک بار پھر تاریخ کے اوراق سے غائب ہو جاتی ہیں۔
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ منگولیا میں انھوں نے کیا کیا یا ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا اس کے بارے میں تاریخ کی دستاویزات خاموش ہیں۔ لیکن اس زمانے میں منگولوں کے قیدی بننے والے مسیحیوں کی زندگی کے بارے معلومات سے انھوں نے ایک خاکہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
منگولوں کا عورتوں کے بارے میں رویہ اور ٹیمٹا کی حکمران کے طور پر نامزدگی
اخلاط سے قراقرم میں منگولوں کے کیمپپ تک کا فضائی فاصلہ تقریباً 4800 کلومیٹر تھا لیکن پیدل اور گھوڑے پر یہ سفر اور بھی لمبا تھا۔ ٹیمٹا نے سفر دو بار کیا۔ ایک بار قیدی کی حیثیت سے منگولیا جاتے ہوئے اور پھر حکمران کی حیثیت سے اخلاط واپس آتے ہوئے۔
ٹیمٹا نے جو سفر کیا اس پر ان کے بعد جانے والے دو افراد کے احوال محفوظ ہیں۔ ان میں سے ایک آرمینیا کے بادشاہ ہیٹم اوّل تھے جو ٹیمٹا سے تقریباً 10 برس بعد سنہ 1246 میں گایوک کے منگولوں کے خان بننے کی تقریب میں شرکت کے لیے منگولیا کے ’عظیم دربار‘ (کورلتائی)میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
منگولوں نے ٹیمٹا کو جارجیا اور آرمینیا کی سیاسی زندگی میں واپس آنے کا موقع دیا۔ اس سے پہلے الاشرف کی بیوی ہوتے ہوئے ان کا قیام اخلاط میں تھا اور آرمینیا کے لوگوں کے ساتھ ان کے قریبی رابطے تھے لیکن ان کے خطے کی سیاسی زندگی میں متحرک ہونے کے شواہد موجود نھیں۔
ایسٹمنڈ لکھتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری دور میں جب وہ منگول گورنر کی حیثیت سے اخلاط واپس آئیں تو بظاہر ان کا سیاسی کردار بڑھ چکا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹیمٹا کی اپنی زندگی اور جارجیا اور آرمینیا کی سیاست میں اس دور کی کچھ دیگر خواتین کے بڑھتے ہوئے کردار کی ایک بڑی وجہ منگولوں کا عورتوں کے بارے میں رویہ تھا۔
منگولوں میں روایتی طور پر عورتوں کو ان علاقوں کی عورتوں سے زیادہ خود مختاری اور مقام حاصل تھا جو انھوں نے فتح کیے تھے۔
منگول عورتوں کے دربار
ایسٹمنڈ نے لکھا ہے کہ چنگیز خان کے خاندان میں بیاہ کر آنے والی عورتوں کو کافی حقوق حاصل تھے۔ ’ہر ایک کا اپنا دربار تھا جو کئی خیموں پر مشتمل ہوتا تھا، ہر خیمے کے لیے دو سو بیل گاڑیاں تھیں اور ان میں سے کئی بیل گاڑیوں کو بائیس جانور کھینچتے تھے۔ ان کی ذاتی دولت تھی، وہ جائداد رکھ سکتی تھیں اور تجارت کر سکتی تھیں اور یہ سب ان کی موت پر کسی اور عورت کو منتقل ہو سکتا تھا۔ وہ فوج کی قیادت کر سکتی تھیں، خود بھی لڑائی میں حصہ لے سکتی تھیں اور اپنے بچوں کی تعلیم اور مذہب کے تعین پر ان کا اختیار تھا۔‘
ٹیمٹا کے منگولیا میں قیام کے دوران زیادہ وقت تورگین خاتون عملاً منگولیا کی حکمران تھیں۔ سنہ 1241 میں اپنے خاوند اوگدئی کے انتقال کے بعد نئے حکمران کے فیصلے تک حکمرانی ان کے ہاتھ میں تھی۔ ان کا بیٹا گایوک چھوٹا تھا اور اس طرح باگ ڈور کئی برس تک ان کے ہاتھ میں رہی۔ گایوک ہی کی تاج پوشی کے موقع پر بڑا دربار منعقد ہوا تھا جس میں دور دور سے حکمران حاضر ہوئے تھے۔
تورگین خاتون کے دور میں کئی عورتوں کو اہم انتظامی عہدے ملے۔ ان میں ایران سے آئی ایک سابق غلام فاطمہ بھی تھی۔
کرمان کی شہزادی ترکان خاتون کا منگولوں سے اتحاد اور تخت نشینی
مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتوں کی حکمرانی کے نتائج ٹیمٹا کے اقتدار کے آخری دنوں میں سامنے آئے جب مزید عورتوں نے طاقت حاصل کی۔ جنوب مشرقی ایران میں کرمان میں سنہ 1257 میں اپنے خاوند کے انتقال کے بعد ترکان خاتون اقتدار میں آئیں۔
منگول سلطنت کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر وہ سنہ 1281 تک حکمران رہیں۔ انھیں فوج پر براہ راست کنٹرول حاصل تھا اور بعض ذرائع کے مطابق ان کے نام کا جمعے کا خطبہ بھی پڑھا جاتا تھا۔ ان کے بعد ان کی بیٹی پاد شاہ خاتون کو اقتدار ملا جن کا دور پانچ سال کا تھا۔
تاہم، مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتوں کا اقتدار مکمل نھیں تھا۔ ہر مثال میں عورت کو اقتدار کسی مرد سے تعلق کی وجہ سے ملا تھا۔
تورگین خاتون کی مشیر اور ان کی سابقہ غلام فاطمہ کا انجام
اس کے علاوہ منگول خواتین کو مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور ان کی مخالفت میں ان کے عورت ہونے کو ہی بہانا بنایا جاتا تھا اور خاص طور پر اشرافیہ سے باہر سے طاقتور پوزیشن پر آنے والی عورتوں کو اس چیز کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اس کی ایک مثال منگول دربار میں تورگین خاتون کی مشیر اور سابقہ غلام فاطمہ کی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ منگول دربار میں اپنے مرد ہم منصبوں کے بر عکس جن پر رشوت ستانی اور غداری جیسے الزامات لگتے تھے فاطمہ پر جسم فروشی، دلالی اور جادو ٹونے جیسے الزامات لگائے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ تورگین خاتون حکمران ہونے کے باوجود انھیں بچا نہ سکیں۔
ایسٹمنڈ نے مؤرخ جوینی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ انھیں ننگا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ’ان کے جسم کے تمام سوراخ سی کر انھیں ایک قالین میں لپیٹ کر دریا میں پھینک دیا گیا۔