ماہرِ نفسیات انسانی یادداشت کی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہیں لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ یادداشت کے دھوکہ دے جانے کی صلاحیت کو اہمیت نہیں دیتے۔
اپنی زندگی کے پہلے چند برسوں کے بارے میں کچھ یاد رکھنا ناممکن ہے۔۔۔ لیکن کچھ لوگوں کو لگتا ہے انھیں ایسی چیزیں یاد ہیں۔
اپنی آپ بیتی میں مشہور ہسپانوی مصور سیلواڈور ڈالی لکھتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میرے قارئین کو اپنے پیدا ہونے سے پہلے ماں کی کوکھ میں گزرنے والے زندگی کے اہم ایام کے بارے میں کچھ یاد نہیں ہو گا یا شاید کچھ دھندلا دھندلا سا یاد ہو۔ لیکن مجھے یہ سب ایسے یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔‘
انھیں توقع تھی ان کی اس ’آفاقی جنت‘ کی یادیں باقی لوگوں کو پیدائش سے پہلے کے گمشدہ لمحات کو یاد کرنے میں مدد دیں گی۔
حقیقت میں ڈالی کی یادیں ان کے گہرے تخیل کا نتیجہ ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے فوری بعد کے چند برس کے بارے میں کچھ بھی یاد رکھنا ناممکن ہے۔ یادداشت کے لیے درکار دماغ کا بنیادی ڈھانچہ اس وقت مکمل طور پر بنا ہوا نہیں ہوتا جس کا مطلب ہے کہ ابتدائی عمر سے لے کر بچپن میں ہونے والے ذاتی واقعات کو یاد رکھنا جسمانی طور پر ناممکن ہے۔
بلکہ اُس وقت کی یادیں بعد میں اکٹھے کیے گئے تجربات اور معلومات کا مرکب ہوتی ہیں جو محض فریبِ نظر ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کی ماہرِنفسیات اور کتاب ’دا میمری اِلوژن‘ کی مصنف جولیا شا نے اس عمل کی وضاحت کی ہے۔
یادداشت کے بارے میں بی بی سی سے
آپ کی یادداشت کا انحصار درجۂ حرارت پر بھی ہو سکتا ہے
ماہرِ نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی یادداشت واقعات کو یاد رکھنے کے لیے اردگرد کے حالات پر انحصار کرتی ہے۔ اس بات کو بہتر طریقے سے سمجھانے کے لیے ایک تجربہ کیا گیا جس کے شرکا کو یخ پانی سے بھری بالٹی میں ہاتھ ڈال کر فہرست سے الفاظ یاد کرنے کے لیے کہا گیا۔ کچھ ٹیسٹ کرنے کے بعد محققین کو معلوم ہوا کہ دوبارہ یخ پانی میں ہاتھ ڈالنے سے لوگوں کی یادداشت بہتر ہو گئی۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جب یادیں ابتدائی مراحل میں ریکارڈ ہو رہی ہوں تو بظاہر غیرمتعلقہ لگنے والے چھوٹے ماحولیاتی یا فعلیاتی اشاروں کی تجدید کر کے حقائق بہتر طرح سے یاد کیے جا سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جس رات لوگ شراب کے نشے میں مدہوش ہوتے ہیں اس رات کے واقعات شراب سے دور رہ کر تو نہیں مگر بیئر کے چند پیگ پینے کے بعد ضرور یاد آ جاتے ہیں۔ اپنی کتاب دا میمری الوژن میں شا نشاندہی کرتی ہیں کہ لوگوں کو اپنے فائدے کے لیےان فعلیاتی اشاروں کا استعمال کرنا چاہیے۔
جو لوگ پڑھائی کرتے وقت کافی پیتے ہیں یا چیونگ گم چباتے ہیں، یہی فعل امتحان کے وقت دہرانے سے ان کی یادداشت بہتر ہو سکتی ہے۔ بُو بھی خاصی پرتاثیر ہوتی ہے۔ اس لیے امتحان کے لیے پڑھائی کی دہرائی کرتے ہوئے مخصوص پرفیوم لگایا کریں تاکہ اسے دہرائی سے منسوب کر سکیں۔
آپ کی ذہنی ٹائم لائن بےترتیب ہوسکتی ہے
ذرا سوچ کر بتائیے کے مندرجہ ذیل واقعات کس سال کے کس مہینے میں پیش آئے:
- مائیکل جیکسن کی وفات
- بیونسے کے البم ’لیمنیڈ‘ کی ریلیز
- آسکرز میں غلطی سے ’لالا لینڈ‘ کو سال کی بہترین فلم کا اعزاز ملنا
- انگیلا میرکل کا اعلان کہ وہ 2021 میں جرمن چانسلر کے عہدے سے دستبردار ہو جائیں گی
جب تک کہ آپ غیر یقینی طور پر خبریں سننے کے عادی نہ ہوں تو آپ کے جوابات کافی مختلف ہوں گے اور ان کا ایک انداز ہو گا۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اکثر لگتا ہے کہ کسی پرانے واقعے (مائیکل جیکسن کی موت) کو ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا جبکہ حال ہی میں ہوا کوئی واقعہ (انگیلا میرکل کا اعلان) ہمیں زیادہ پرانا لگتا ہے۔ اسے ’ٹمپورل ڈِسپلیسمنٹ’ یا ’ٹیلی سکوپنگ’ کہا جاتا ہے، ہماری ذہنی ٹائم لائن بےترتیب ہوتی ہے اور واقعات کے اصل وقت سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اصل تاریخیں ہیں:
- جون 2009
- اپریل 2016
- فروری 2017
- اکتوبر 2018
دھندلی یاداشت کے بھی فوائد ہوتے ہیں۔۔۔
یادداشت پر زور ڈال کر اپنے کسی دوست کی تصویر بنانے کی کوشش کیجیے۔ یا تصویر دیکھے بغیر اس کے بارے میں بہت تفصیل سے وضاحت کیجیے۔ اگر آپ نابینا نہیں ہیں تو اس کے چہرے کے خدوخال کو اچھی طرح بیان کر پائیں گے۔ البتہ ان کی آنکھوں کے رنگ جیسی مخصوص اور بنیادی بات شاید آپ کو یاد نہ رہے۔
یہ اس بات کی مثال ہے کہ ہمیں مخصوص تفصیلات کے بجائے چیزوں کا خلاصہ یاد رہتا ہے۔ یہ کوئی غیر مفید بات نہیں ہے۔ چہرے کی باریک جزئیات میں روزانہ تبدیلی آتی رہتی ہے مگر شکل ویسے کی ویسی ہی رہتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے دوست کو مختلف رنگ کی روشنیوں یا ہیئر سٹائل میں بھی پہچان سکتے ہیں۔ (اتفاق سے اپنی شکل کے بارے میں بھی ہماری یادداشت کوئی خاص درست نہیں ہے اور ہم اپنے چہروں کو حقیقت سے زیادہ خوبصورت تصور کرتے ہیں۔)
۔لیکن یاداشت پر ناز کرنے والوں کی خوش فہمی جیب پر بھاری پڑ سکتی ہے
اگر آپ اپنے چہرے کو بیان کرنے یا اس کی تصویر بنانے کی کوشش کریں تو آپ سوچیں گے کہ آپ کو اپنی شکل کے بارے میں بہت کچھ یاد ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ان کی یادداشت اوسط سے بہتر ہے جبکہ یہ شماریاتی طور پر ناممکن ہے۔
ہم ان وقتوں کو بھول جاتے ہیں جب ہماری یادداشت ہمارا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور ترجیحی طور پر ان وقتوں کو یاد کرتے ہیں جب یادداشت کامیاب ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں لگتا ہے کہ اگلی بار ہماری یادداشت ہمیں بالکل درست معلومات فراہم کرے گی۔ پولیس افسروں کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کیس میں ان کی یادداشت کی پختگی پر انحصار کرتے ہوئے مجرم کو سزا دے دی جائے اور یہ ان طالب علموں کے زوال کی وجہ بن سکتی ہے جنھیں لگتا ہے کہ انھوں نے امتحان کے لیے کافی زیادہ تیاری کر لی ہے۔
ہم اپنی ’پراسپیکٹِو میمری‘ یا مستقبل بینی کی یادداشت کی وجہ سے خوش فہمی کا شکار ہیں۔ یادداشت کی یہ قسم ہمیں مستقبل میں چیزیں یاد رکھنے کی صلاحیت مہیا کرتی ہے اور اس کی مالی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ جولیا شا نے نشاندہی کی ہے کہ سبسکرپشن سروسز محدود مدت کے لیے مفت ٹرائل دے کر کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ کے اکاؤنٹ سے خود کار ادائیگی کے نام پر پیسے بٹور کر فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اچھی مستقبل بینی کی یادداشت کی خوش فہمی کا شکار کچھ لوگ مفت ٹرائل ختم ہونے پر سبسکرپشن کو بند کرانا بھول جاتے
ممکن ہے کہ آپ ڈیجیٹل بھلکڑپن کا شکار ہوں
سمارٹ فونز کی دستیابی ہماری یادداشت کے لیے بہت بڑا عطیہ ہے۔ ذرا سوچیے کہ فیس بُک اور انسٹاگرام پر ہماری طرف سے شائع کیا جانے والا مواد مختلف واقعات اور تقریبات کو یاد رکھنا کتنا آسان بنا دیتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ماضی کی یادوں کو توڑ مروڑ کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ ہے ’یادداشت پر مبنی
فراموشی۔‘ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ شعوری طور پر یاد کرنے سے یادیں کمزور اور غیرمستحکم ہو جاتی ہیں اور ہمارا دماغ یہ یادیں توڑمروڑ دیتا ہے۔ نتیجتاً کسی واقعے کی ایک خاص تفصیل کے بارے میں سوچنے سے اس تفصیل کے بارے میں ہماری یادداشت تو پختہ ہو جاتی ہے مگر اس سے جڑی باقی تفصیلات ہمیں بھول جاتی ہیں۔
ہم اس کی مثال سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔ فیس بُک پر لگی کسی شادی کی کوئی مخصوص تصویر اگر آپ کو اپنی طرف مائل کرے تو اُس دن سے جڑے باقی پہلو آپ کو بھول جائیں گے۔ یہ خاص طور پر پریشان کُن بات ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر ڈالا جانے والا مواد پہلے سے ہی آپ کو اپنا آپ غیرحقیقی طور پر دکھانے کے لیے بنایا اور پیش کیا جاتا ہے۔
جولیا شا لکھتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کون سی چیزیں سب سے زیادہ بامعنی ہیں، اس کی وجہ سے ہماری کم پسندیدہ یادیں ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔’
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ان یادوں کو زیادہ تقویت دے رہا ہے جو مشترکہ طور پر چنی گئی تھیں۔ ممکنہ طور پہ یہ ان یادوں کو زیادہ اہمیت دے دیتا ہے جو شاید واقعی اتنی بامعنی اور یادگار نہیں تھیں۔’