گزشتہ دو ہزار سال کے دوران ان گنت زلزلوں، سیلابوں اور جنگوں کے باوجود روم کی دو عمارتیں ’کولوزیم‘ اور ’پینتھیون‘ جُوں کی تُوں اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔ آخر وہ کیا راز ہے جو روم کے عظیم الشان ماضی کی ان دو یادگاروں کی ’طویل عمری‘ کی وجہ ہے؟
مٹی اور پتھر سے بنے پیالہ نما ’کولوزیم‘ کے اندر داخل ہوں تو اس کے ماضی کے مناظر تصور کرنا کچھ مشکل نہیں۔ یہاں کبھی پچاس ہزار تک تماشائی ایک وقت میں بھر جاتے تھے جب گلیڈئیٹرز کی خونی لڑایاں ہوتی تھیں یا پھر جب چیریٹ کی دوڑ اور امرا کے شان و شوکت جلوس نکلتے تھے۔
اسے فلیوین ایمفی تھیٹر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس کی تعمیر سنہ 80 میں مکمل ہونے کے بعد عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ اس کی افتتاحی تقریب بھی کسی جشن سے کم نہیں تھی جس کے دوران 100 روز تک کھیلوں کا اہتمام کیا گیا اور نو ہزار سے زیادہ جانوروں کو ذبح کیا گیا۔
چار منزلہ اونچی یہ عمارت اپنے وسیع ترین مقام پر 188 میٹر پھیلی ہوئی ہے۔ بیضوی شکل کی اس عمارت کو آج بھی دنیا کا سب سے بڑا ایمفی تھیٹر مانا جاتا ہے
کولوزیم کے 40 سال بعد تعمیر ہونے والی ایک اور عمارت پینتھیون ہے جس کا حیران کن گنبد ایک ایسی گول کھڑکی پر ختم ہوتا ہے جو عمارت کی اندرون کو روشنی سے بھر دیتی ہے۔
پینتھیون کا لفظ دو یونانی الفاظ کو جوڑ کر بنایا گیا ہے جن کے مطلب تمام اور خداؤں کے ہیں۔ اس وجہ سے گمان کیا جاتا ہے کہ شاید اسے بنانے کا کوئی مذہبی مقصد ہو گا۔
لیکن چند ماہرین کا ماننا ہے کہ دراصل اسے روم کے بادشاہوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ گردش ایام کے باوجود یہ اپنی طرز کی ایک انوکھی عمارت ہے کیوں کہ ایک طرف تو اس کا گنبد جوں کا توں قائم دائم ہے اور دوسری جانب اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ آج بھی دنیا میں بنا کسی کنکریٹ سہارے کے تعمیر ہونے والا سب سے بڑا گنبد ہے۔
اپنی تہذیب کے عروج پر یقینا روم کے لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بڑی عمارتوں کی تعمیر کیسے کی جائے۔ اس کا ثبوت یہ دو عمارتیں ہی کافی ہیں جو تعمیر کے دو ہزار سال بعد ان گنت زلزلوں، سیلابوں اور جنگوں کے باوجود اپنی جگہ پر کھڑی ہیں جب کہ ان کو بنانے والی سلطنت کب کی زوال پذیر ہو چکی۔ روم کی تہذیب کی نشانیاں ان عمارتوں کی شکل میں پوری دنیا کو اس عظیم الشان دور کی یاد دلاتی ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ قدیم روم نے اتنی یادگار اور طویل عمر عمارات کیسے بنائیں؟
انجینیئر اور ماہرین آج بھی رومی دور کی تعمیرات کا جائزہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں اس کا راز دراصل دو چیزوں کے امتزاج میں چھپا ہے۔ اول، کمال کا ڈیزائن اور دوئم کنکریٹ بنانے کی اچھوتی ترکیب۔ آپ کو یاد دلا دیں کہ کنکریٹ روم کی ایجاد نہیں۔ لیکن اس کے استعمال کو انھوں نے ایک نئی جدت دی۔
کنکریٹ کا استعمال روم کے ماہر تعمیرات کو کسی قسم کی شکل بنانے میں مدد فراہم کرتا تھا جس کے لیے وہ پہلے لکڑی کے ایسے پھٹے بناتے تھے جن میں مائع کنکریٹ انڈیلا جاتا تھا تاکہ اپنی مرضی کی شکل میں ڈھالا جا سکے۔ رومی طرز تعمیر کی حامل عمارات جن کے گنبد، دروازے اور محرابیں ایک مخصوص طریقے سے بنائے جاتے صرف خواب کا نتیجہ نہیں تھیں۔
ریناٹو پیروچیو نیو یارک کی یونیورسٹی آف روچسٹر کے مکینیکل انجینیئر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دور جدید کے لوگوں کے لیے رومی سلطنت کی تعمیرات کے اندر قدیم انجینیرنگ کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔ ان کے مطابق روم میں تعمیر سے قبل نفیس اور اعلی طرز کا تجزیہ کیا جاتا تھا جس کے بعد ہی عمارت کا ڈیزائن بنتا تھا۔ اس کے بعد تعمیر کا عمل بھی انتہائی احتیاط سے مکمل کیا جاتا تھا۔
رومی عمارتوں کے ڈیزائن کو جوڑ کر رکھنے والا کنکریٹ بھی عام نہیں بلکہ الگ تھلگ اور بہت سوچ سمجھ کر منتخب کیا جاتا تھا۔ جدید دور کے کنکریٹ کی نسبت اس زمانے میں ایک مخلتف طریقے سے کنکریٹ بنایا جاتا تھا۔ تحقیق کرنے والوں کے مطابق اس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ مضبوط اور آسانی سے خراب نہیں ہوتا تھا۔
آج کے زمانے میں کنکریٹ زیادہ تر پورٹ لینڈ سیمینٹ سے بنایا جاتا ہے جس میں سیلیکا ریت، لائم سٹون، مٹی، چالک اور دیگر معدنیات شامل ہوتی ہیں جنھیں دو ہزار سینٹی گریڈ تک حرارت پر پکایا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کا پاوڈر بنا لیا جاتا ہے جس کے ساتھ چھوٹے ریتلے ٹکڑے بھی شامل ہوتے ہیں۔
ان ٹکڑوں کو سیمینٹ سے ملا کر کنکریٹ بنتا ہے جو مضبوط ہوتا ہے اور سیمینٹ کی بچت بھی کرتا ہے۔ جب اس میں پانی شامل کر دیا جاتا ہے تو ایک ایسا کیمیائی عمل شروع ہوتا ہے جو ان تمام اجزا کو جوڑ کر رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں کنکریٹ میں شامل ریتلے اجزا کو کیمیائی طور پر زیادہ متحرک نہیں رکھا جاتا تاکہ کہیں کوئی ایسا عمل نہ ہو جائے جو نقصان دہ ثابت ہو اور بعد میں کنکریٹ کو کمزور کر دے۔
اس کے برعکس قدیم روم میں بننے والا کنکریٹ سادہ ہوتا تھا جس میں کوئک لائم اور لائم سٹون کے پتھروں کو توڑ کر ساتھ آتش فشاں پتھر شامل کیے جاتے تھے جو اس زمانے میں روم کے آس پاس کثرت میں پائے جاتے تھے۔ ان پتھروں کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ کیمیائی طور پر نہایت متحرک ہوتے تھے جس کی وجہ سے بنایا جانے والا کنکریٹ پہلی بار سخت ہو جانے کے بعد بھی صدیوں تک کیمیائی طور پر متحرک رہتا تھا
یونیورسٹی آف یوٹاہ کی جیالوجسٹ (ماہر ارضیات) میری جیکسن کہتی ہیں کہ آج کل کے سیمنٹ کیمیائی طور پر بدلتے نہیں۔ ‘اگر ان میں کوئی تبدیلی آئے تو وہ نقصان دہ ہی ہوتی ہے۔ روم کے لوگ چاہتے تھے کہ ان کے بنائے جانے والے کنکریٹ میں تبدیلیاں آئیں۔ اسی لیے انھوں نے ایسے اجزا کا انتخاب کیا۔’
یہی وجہ ہے کہ دور جدید کی نسبت رومیوں کا کنکریٹ وقت کے ساتھ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اس میں ہونے والے کثیر المیعاد کیمیائی عمل نے تمام اجزا کو جوڑ کر بھی رکھا اور بعد میں پڑنے والی دراڑوں کو بھی خود ہی پر کرتا گیا۔ اس کی یہی خوبی، جس کی وجہ آتش فشاں پتھر تھے، روم کے کنکریٹ سے بنی عمارات کی طویل عمری کی وجہ ہے۔
پیروچیو کہتے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی زیادہ مضبوط کنکریٹ بنا سکتے ہیں لیکن جدید دور کی تعمیرات زیادہ سے زیادہ سو سال گزار سکتی ہیں جب کہ روم کی عمارات بنا کسی مدد کے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے قائم ہیں۔
محققین کو کافی سال سے شبہ تھا کہ رومی کنکریٹ کی مضبوطی کی وجہ آتش فشاں پتھر ہیں لیکن ان کی کیمیائی خصوصیت کے بارے میں صرف 2014 میں ہی معلوم ہو سکا جب جیکسن سمیت دیگر ماہرین نے یہ راز افشاں کیا۔
ان کی تحقیق میں روم کی ٹراجن مارکیٹ میں استعمال ہونے والے مواد کی طرز پر کنکریٹ مکسچر بنایا گیا اور اسے ٹیسٹ کیا گیا۔ انھوں نے دیکھا کہ آتش فشاں پتھروں اور سیمینٹ کے درمیان موجود خلا میں پلیٹ نما کرسٹل پیدا ہوا جس کو سٹریٹ لنگائٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ مقامات مذید مضبوط ہو گئے جن کو موجودہ کنکریٹ اور پورٹ لینڈ سیمینٹ سے بنی عمارات کا کمزور ترین حصہ مانا جاتا ہے۔
2021 میں جیکسن اور ان کے ساتھیوں کی ایک نئی تحقیق کے مطابق سٹریٹ لنگائٹ نامی کرسٹل قدیم کنکریٹ میں ہونے والے کیمیائی عمل کا واحد نتیجہ نہیں۔ ان کی ٹیم نے 30 قبل از مسیح میں بننے والی ایک رومی امیر خاتون کی قبر کا جائزہ لیا تو انھیں معلوم ہوا کہ اس کی تعمیر میں بھی آتش فشاں پتھر استعمال ہوئے تھے جن میں پوٹاشیم سے بھرپور لیوسائٹ مادہ موجود تھا۔
دو ہزار سال قبل تعمیر کے بعد اس مقبرے کی دیواروں پر بارشوں اور زیر زمین پانی نے لیوسائٹ کو تحلیل کر دیا جس سے نکلنے والی پوٹاشیم کنکریٹ میں جذب ہو گئی۔ جدید دور میں اگر کنکریٹ میں پوٹاشیم کی مقدار زیادہ ہو تو اس سے خرابی اور دراڑ پڑنے کے امکانات بڑھ جائیں۔
لیکن جیکسن اور ان کے ساتھیوں نے دریافت کیا کہ رومی دور کے آتش فشاں پتھروں نے ایک مختلف ردعمل دیا۔ مقبرے کی دیواروں میں جذب ہونے والے پوٹاشیم نے کنکریٹ کی کیمیائی گلو کی ساخت تبدیل کر دی جس کی وجہ سے مضبوطی میں اضافہ ہو گیا۔
ایسا کیوں ہے؟ لنڈا سیمور امریکہ کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بظاہر روم کی مختلف عمارات نے الگ الگ ماحول کا سامنا کیا جس کی وجہ سے ان میں پیدا ہونے والے کیمیائی عمل بھی مختلف تھے۔ ان کے مطابق روم میں کنکریٹ کے لیے استعمال ہونے والا مواد بھی ایک جیسا نہیں تھا لیکن ان سب کی ایک ملتی جلتی بات یہی ہے کہ ان میں موجود اجزا کے ملاپ سے جو کیمیائی عمل شروع ہوتا ہے
روم کے کنکریٹ کی مختلف تراکیب کی وجہ سے ہی اس دور کی ہر عمارت اتنی طویل العمر نہیں رہی لیکن کولوزیم اور پنتھیون کی شکل میں اس دور کی تعمیرات کی دو ناقابل تردید کامیاب گواہیاں موجود ہیں۔
کولوزیم میں شاید کنکریٹ اتنا اہم دکھتا نہیں لیکن اسے قائم رکھنے میں اس کا کردار انتہائی اہم ہے۔ کولوزیم میں سب سے واضح نظر آنے والی چیز لائم سٹون ٹریورٹین ہے لیکن اس ایمفی تھیٹر کی نشانی سمجھی جانے والی محرابوں کو جوڑ کر رکھنے والا کنکریٹ ہی ہے۔ لیکن کولوزیم کی طویل العمری میں کنکریٹ کا سب سے اہم کردار نگاہوں سے اوجھل ہے۔
جیکسن کے مطابق کوئی بھی سیاح اسے دیکھ نہیں سکتا لیکن در اصل کولوزیم کی مضبوط کنکریٹ بنیاد کی وجہ سے ہی یہ اب تک کھڑا ہے۔ اس بنیاد کو لاوا کی گھنی تہہ نے گھیر رکھا ہے جس کی موٹائی تقریبا 12 میٹر تک ہے۔ اتنی مضبوط اور دیرپا بنیاد کے بغیر شاید خطے میں آنے والے زلزلے کولوزیم کو مٹی کا ڈھیر بنا دیتے۔
روم کا دورہ کولوزیم دیکھنے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے لیکن پیروچیو کے مطابق اگر کوئی بھی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کنکریٹ کی قدیم ترین تعمیر کی معراج کیا ہے تو اس کے لیے پنتھیون کے بنا کسی سہارے کے گنبد کو دیکھنا ضروری ہے۔
پنتھیون کے اندر فرش سے گنبد کے بلند ترین مقام تک تقریبا 43 میٹر کا فاصلہ ہے جو کسی کو بھی یہ سوچنے پر مجبو کر دیتا ہے کہ اس کے اندر ایک بڑا سا گول دائرہ سما سکتا ہے۔ لیکن اس گنبد کی تعریف کرتے وقت جو بات یاد رکھنے والی ہے وہ یہ یہ ہے کہ یہ بنا کسی سہارے تعمیر ہوئی۔
پیروچیو کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی آج کی تاریخ میں پنتھیون بنانے کی کوشش کرے تو اس کی اجازت ہی نہیں ملے گی کیوں کہ بنا کسی سہارے، مثلا سٹیل کی بارز، کے اس گنبد کی تعمیر دور جدید کے انجینیرنگ اصولوں کی خلاف ورزی تصور ہو گی۔
پیروچیو کے مطابق یہ گنبد شدید تناو پیدا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود 19 صدیوں سے قائم ہے۔ اس سے آپ دو نتیجے اخذ کر سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قدیم روم میں کشش ثقل کسی اور ہی انداز سے کام کرتی تھی یا پھر اس کا مطلب ہے کہ ہم ہار گئے ہیں۔
کنکریٹ کی کیمیائی خصوصیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو روم کے ماہر تعمیرات اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اور بھی کئی طریقے اپناتے تھے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی تھا جو اس گنبد کی تعمیر میں استعمال ہوا یعنی اس گنبد کی دیواریں انتہائی اونچی تعمیر کی گئیں۔
اس کی تعمیر کے دوران گول چھت کی تیاری میں استعمال ہونے والا کنکریٹ لکڑی کے فریمز میں انڈیلا جاتا تھا جو تہہ در تہہ نیچے سے اوپر تک دائروں کی شکل میں رکھ دیے گئے تھے۔ لیکن ان میں تناو کو کم کرنے کے لیے، پیروچیو کے مطابق، جیسے جیسے تعمیر کا یہ عمل گنبد کی چھت کے قریب پہنچتا گیا ویسے ہی کنکریٹ میں ہلکے آتش فشاں پتھروں کا استعمال کیا گیا اور یہاں دیوار بھی کم موٹی بنائی گئی۔
اس گنبد کی نچلی اور سب سے چوڑی جگہ پر کنکریٹ میں بیسالٹ کے بھاری بھرکم بلاک استعمال کیے گئے جن کی چوڑائی تقریبا چھ میٹر تک ہے۔ لیکن اس کی آخری اور سب سے اونچی جگہ پر کنکریٹ میں پرومس پتھر استعمال کیا گیا جو اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ پانی میں تیر سکتا ہے اور اس کی موٹائی صرف دو میٹر ہے۔
گنبد کے اندر اس دور کے ماہرین تعمیرات کی ایک اور چالاکی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کی چھت کو فافرز نامی چوکور پتھروں سے ڈھکا گیا ہے جو اندر سے خالی ہیں۔ انھیں صرف خوبصورتی کے لیے نہیں لگایا گیا۔ بلکہ یہ گنبد کی تعمیر میں درکار کنکریٹ کی مقدار کم کرنے میں مددگار تھے اور اسے ہلکا بھی بنا دیتے تھے جس کی وجہ سے مواد میں تناو کم ہو جاتا ہے۔
پیروچیو کہتے ہیں کہ پینتھیون ایک جادوئی جگہ ہے جہاں وہ کئی بار جا چکے ہیں لیکن ہر بار وہ اس کو بنانے والوں کے لیے نئے طور سے دل میں تعریف کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ اب تک دنیا بھر میں تعمیر ہونے والی سب سے خوبصورت اور غیر معمولی عمارت ہے۔