حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ انہی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔
‘لوگ پر تکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بےفکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ خوب صورت خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔’
یہ اقتباس عبدالحلیم شرر کے 1899 میں شائع ہونے والے مشہورِ زمانہ ناول ‘فردوسِ بریں’ سے لیا گیا ہے جس میں وہ حسن بن صباح کی مصنوعی جنت کا ڈرامائی احوال بیان کر رہے ہیں۔
فردوسِ بریں کا شمار اردو کے مقبول ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ یہ آج بھی تعلیمی نصابوں کا حصہ ہے اور قریب قریب ہر سکول اور کالج کی لائبریری میں مل جاتا ہے۔مغرب میں بھی اس ناول کو خاصی پذیرائی ملی۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور 2016 میں یورپ کے کئی شہروں میں اسی ناول پر مبنی تھیئٹر ڈرامے دکھائے گئے جنھیں ذوق و شوق سے دیکھا گیا۔
کیا ہے۔ قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ حسن الصباح، مشہور شاعر، ماہرِ فلکیات اور ریاضی دان عمر خیام، اور نظام الملک طوسی تینوں اس دور کے مشہور عالم امام موفق کے شاگرد تھے اور انھوں نے ایک دن مل کر عہد کیا تھا کہ جو کوئی پہلے کسی بڑے عہدے تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرے گا وہ دوسروں کو نوازے گا۔
ہوا یوں کہ نظام الملک طاقتور سلجوق سلطان الپ ارسلان کے وزیر اعظم بن گئے اور انھوں نے لڑکپن کے وعدے کو وفا کرتے حسن الصباح اور عمر خیام کو بڑے بڑے عہدے دینے کی پیشکش کی، البتہ دونوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر انھیں رد کر دیا۔
یہ کہانی ہے تو بڑی مزیدار، لیکن کیا یہ سچائی پر مبنی ہے؟ نظام الملک 1018 میں پیدا ہوئے تھے، جب کہ حسن الصباح کا سال پیدائش 1050 کے لگ بھگ ہے، جس کا مطلب ہے کہ نظام حسن سے 32 سال بڑے تھے۔
مزید یہ کہ 1059 میں، یعنی جب حسن کی عمر نو سال کے قریب ہو گی، نظام الملک صوبہ خراسان کے گورنر بن کر پہلے ہی ‘بڑے عہدے’ تک پہنچ چکے تھے اس لیے یہ قرینِ قیاس نہیں ہے کہ وہ رے کے کسی نوعمر لڑکے کے ہم جماعت ہوں اور اس کے ساتھ کسی عہد نامے میں شریک ہوں۔
عقابوں کا نشیمن
اس زمانے میں مصر پر فاطمی خاندان کی حکومت تھی جو اسماعیلی تھے۔ قاہرہ کی جامعہ الازہر انھی نے قائم کی تھی۔ حسن 1078 میں مختلف ملکوں میں پھرتے پھراتے قاہرہ پہنچ گئے جہاں ان کے افسانے پہلے ہی سے پہنچ چکے تھے، چنانچہ فاطمی دربار میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔
حسن نے مصر میں تین سال گزارے لیکن اس دوران فاطمیوں کے سپہ سالار بدر الجمالی حسن کے مخالف ہو گئے اور انھیں زنداں میں ڈال دیا گیا۔ اتفاق سے زنداں کا مینار گر پڑا۔ اس واقعے کو حسن کی کرامت سمجھا گیا اور انھیں باعزت رہا کر دیا گیا۔
اس کے بعد حسن نے مصر میں مزید قیام مناسب نہیں سمجھا۔ وہ ایران لوٹ آئے اور اگلے نو برسوں تک مختلف علاقوں میں دعوت و تبلیغ میں مگن رہے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنی توجہ رودبار صوبے کے علاقے دیلمان پر مرکوز کرنا شروع کر دی۔ یہاں انھیں کوہ البرز کی برفانی چوٹیوں میں گھرا ہوا ایک قلعہ نظر آیا جو ان کے مستقبل کے منصوبوں کے لیے نہایت سودمند ثابت ہو سکتا تھا۔
یہ قلعہ الموت تھا۔
بظاہر تو لگتا ہے کہ اس قلعے کا نام موت یعنی مرنے سے متعلق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ الموت مقامی زبان کے الفاظ ‘الا’ اور ‘آموت’ سے نکلا ہے۔ دیلمانی زبان میں الا عقاب ہے اور آموت (فارسی میں آموخت) کا مطلب ہے سیکھنا۔ روایت مشہور ہے کہ اس علاقے کا حکمران وہاں شکار کھیل رہا تھا کہ اسے ایک پہاڑی پر عقاب اترتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے احساس ہوا کہ اس مقام کا جغرافیہ اس قسم کا ہے کہ اگر یہاں قلعہ بنایا جائے تو وہ ناقابلِ شکست ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے یہاں قلعہ تعمیر کروایا اور اس کا نام الموت پڑ گیا، یعنی ‘عقاب کا سکھایا ہوا۔’
ایک نوجوان بو طاہر آرانی نامی نے ہاتھ بلند کیا اور بعد میں جا کر شیخ الجبال کے فرمان پر عمل کر ڈالا اور اس دوران خود بھی نظام الملک کے محافظوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
یہ حسن الصباح کی مہم کا پہلا ‘خودکش’ حملہ تھا۔
ظاہر ہے کہ سیاسی قتل حسن کی ایجاد نہیں تھا کہ یہ عمل اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ۔ لیکن جس منظم طریقے سے اور جس وسیع پیمانے پر حسن نے اسے بطور آلہ استعمال کیا، اس کی وجہ سے ان کا نام اس سے منسلک ہو کر رہ گیا ہے۔
حسن کو معلوم تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ کبھی بھی سلجوقوں اور دوسرے طاقتور دشمن حکمرانوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اس صورتِ حال میں انھوں نے وہ تکینک استعمال کی کہ بجائے ہزاروں کی تعداد میں فوجوں کا میدانِ جنگ میں دوبدو مقابلہ کیا جائے، بہتر یہی ہے کہ اپنے کسی جانثار فدائی کی تربیت کر کے اس کے ہاتھوں کسی حکمران، خطرناک وزیر، سپہ سالار یا مخالف مذہبی عالم کو قتل کروا دیا جائے۔
یہ طریقہ حیرت انگیز طور پر کامیاب ثابت ہوا۔ طوسی کے بعد حسن کے فدائین کے نشانے پر کئی حکمران، شہزادے، گورنر، جرنیل، اور علما بنے، اور ان کی دہشت نزدیک و دور تک پھیل گئی۔ کئی اہم شخصیات کسی بھی اجنبی سے ملنے سے کترانے لگے اور دوسرے اپنے لباس کے نیچے احتیاطاً زرۂ بکتر پہننے لگے۔درمیان واقع وادی میں ایک وسیع و عریض اور خوشنما باغ بنوایا ہے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں ہر قسم کے پھل پائے جاتے ہیں اور تصور سے باہر حسین محلات اور خیمے ہیں جن پر سونے کے ورق چڑھے ہیں اور ان میں نفیس تصاویر ہیں۔ اس باغ میں چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جن میں شراب، دودھ، شہد اور پانی بہتا ہے، اور یہاں دنیا کی حسین ترین دوشیزائیں ہیں جو ہر طرح کے ساز بجاتی ہیں اور وہ حسین نغمے گاتی ہیں اور دل لبھانے والے رقص کرتی ہیں۔’
مارکو پولو مزید لکھتے ہیں کہ 12 سے 20 برس عمر کے نوجوانوں کو نشہ پلا کر اس باغ میں لایا جاتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں بے ہوش کر کے اس فردوسِ بریں سے نکالا جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر کسی کو بھی قتل کرنے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
مارکو پولو کا سفرنامہ اپنے دور کا ‘بیسٹ سیلر’ ثابت ہوا اور اس کی وساطت سے یہ کہانیاں یورپ بھر میں پھیل گئیں، جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جاتی ہیں۔
اس دوران کسی نے یہ نہ سوچا کہ مارکو پولو جب 1272 میں چین جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرے، تب حسن الصباح کو فوت ہوئے تقریباً ڈیڑھ صدی اور منگولوں کے ہاتھوں قلعۂ الموت کو تباہ ہوئے 15 برس گزر چکے تھے۔
دوسری طرف کچھ جدید مورخین نے کہا ہے کہ مارکو پولو چین تو کجا، ترکی سے آگے تک گئے ہی نہیں تھے اور انھوں نے ساری کہانیاں استنبول میں بیٹھ کر سیاحوں اور ملاحوں سے سن سنا کر لکھ ڈالیں۔
اس دور کی پیداوار ہے کہ کیوں کہ وہ اور بعد میں آنے والے ان کے جانشین فدائیوں کو حشیش (یعنی چرس) کے نشے میں دھت کروا کر قاتلانہ مہمات پر بھیجا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو حشیش کی نسبت سے حشاشین کہا جاتا تھا، جو مغرب میں پہنچ کر اسیسن بن گیا۔
تاریخ کی کسی کتاب ہم عصر میں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ حسن الصباح یا ان کے پیروکار کسی قسم کی نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے تھے۔ معروف تاریخ دان برنارڈ لیوس کے مطابق اس دور کے اسماعیلیوں کے لیے لفظ ‘حشاشیہ’ (حشیش پینے والا) کی اصطلاح دراصل اس لیے استعمال ہوتی تھی کہ دوسروں کو ان کے خیالات بہکے بہکے لگتے تھے، نہ کہ خود حشیش پینے کے باعث۔
کٹر انصاف
حسن الصباح بےحد ذہین سیاسی رہنما اور منتظم تھے۔ ان کے سیاسی و نظریاتی مقاصد کے حصول کے لیے نظریہ بھی درکار تھا اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تنظیم بھی۔ انھوں نے یہ دونوں کام کر دکھائے۔
ان کی کٹر انصاف پسندی کی مثال یہ پیش کی جاتی ہے کہ جب قانون کا معاملہ آیا تو انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بھی نہیں بخشا، ایک کو شراب پینے کی پاداش میں اور دوسرے کو قتل کے جرم میں مروا ڈالا۔
حسن الصباح کا انتقال 12 جون 1124 کو ہوا۔ چونکہ ان کی نرینہ اولاد زندہ نہیں بچی تھی، اس لیے انھوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے ایک وفادار داعی کِیا بزرگ امید کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا جنھوں نے ایک عرصہ قلعۂ الموت پر حکومت کی۔ یہ سلسلہ 1256 تک چلتا رہا، تاوقتیکہ منگول حکمران ہلاکو خان نے الموت کو فتح کر کے اس نزاری اسماعیلی ریاست کا خاتمہ کر ڈالا۔
حسن الصباح کی زندگی اس لحاظ سے بےحد دلچسپ ہے کہ اس پر طرح طرح کے افسانوں کی دبیز دھند چھائی ہوئی ہے جس میں ان کی اصل شخصیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ زمانے کی یہ ستم ظریفی بھی دیکھیے کہ اس نے ان کا اصل نام بھی بدل کر حسن بن صباح مشہور ہو گیا، حالانکہ ان کے والد کا نام صباح نہیں بلکہ علی تھا۔
تاہم اساطیری دھند کے پردے چاک کر کے دیکھا جائے تو ایک ایسے شخص کی تصویر سامنے آتی ہے جو صاحب میدان بھی تھا اور صاحبِ کتاب بھی، جنھوں نے نہ صرف زبردست عسکری و سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا بلکہ علمی و عقلی میدان میں بھی ان کا شمار اپنے دور کے اہم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اس کا اعتراف ان کے بدترین مخالفین نے بھی کیا ہے۔
عمر خیام سے مماثلت
ہم جماعت والی روایت کو نظر انداز بھی کر دیں تب بھی حسن الصباح اور عمر خیام میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں ایران میں ایک ہی عشرے میں پیدا ہوئے، انھوں نے لگ بھگ ایک جیسی عمریں بھی پائیں اور دونوں نے کچھ عرصہ اصفہان میں گزارا۔ اس لیے یہ مزیدار امکان بہرحال موجود ہے کہ دونوں کی ملاقات رہی ہو، آخر کو ان کے کئی علمی مشاغل اور دلچسپیاں ایک جیسی تھیں۔
لیکن ان سے بھی گہری ایک اور مماثلت ہے۔ حسن الصباح، جو دینی عالم اور فوجی کمانڈر تھے، رہتی دنیا تک ایک ایسی مصنوعی جنت کے خالق کی حیثیت سے جانے جائیں گے جہاں شراب کی نہریں بہتی تھیں اور شباب ہر سو جلوہ افروز ہوتا تھا۔
دوسری طرف عمر خیام، جو دراصل ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات تھے، انھیں شراب و شباب اور باغات سے متعلق ایسی رباعیات کا خالق سمجھا جائے گا جو انھوں نے نہیں لکھیں۔
ایرانی محقق صادق ہدایت کی تحقیق کے مطابق خیام سے منسوب سینکڑوں رباعیوں میں سے صرف آٹھ یا دس ایسی ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ خیام کے قلم سے نکلی ہیں، باقی اللہ اللہ خیر سلا۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں ہم عصروں کے سر ایک ایک ‘جنت’ تھوپ دی گئی جس کا ان دونوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا