ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایسا کرتے ہیں، لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ اس کا اعتراف کریں گے۔ اگر ہم رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں تو ہمیں شرمندگی اور افسوس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور دوسرے سر عام ایسا کرتے ہیں تو ہم ان پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ میں یقینا ناک میں انگلی ڈالنے کی بات کر رہا ہوں تاکہ اس کو کھرچنے کی کوشش کی جا سکے۔ کیا ناک کھجانا واقعی اتنا برا ہے؟ یہ واقعی کتنا عام یا برا ہے؟ اور کیوں؟ واقعی کیوں کوئی کبھی یہ جاننے کا فیصلہ کرے گا کہ اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟
کسی شحض کے ناک میں انگلی ڈالنے کے عمل کے لیے رسمی طبی اصطلاح ’رائنوٹیلیکسومینیا‘ ہے۔ اس رجحان کا پہلا منظم سائنسی مطالعہ 1995 میں تھامپسن اور جیفرسن نامی امریکی محققین کی ایک جوڑی نے کیا تھا۔ انھوں نے ڈین کاؤنٹی، وسکونسن کے1000 بالغ رہائشیوں کو ڈاک کے ذریعے ایک سروے بھیجا۔
جواب دینے والے 254 افراد میں سے 91 فیصد نے اپنی ناک کجھانے کا اعتراف کیا جبکہ صرف 1.2 فیصد نے ہر گھنٹے میں کم از کم ایک بار ایسا کرنے کا اعتراف کیا۔ دو افراد نے بتایا کہ ان کی ناک کھجانے کی عادت ان کی روزمرہ زندگی پر کتنی کم یا زیادہ اثر انداز ہوئی۔
اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ دو دیگر افراد نے اتنی زیادہ ناک کھجانے کی بات کی انھوں نے دراصل اپنے ناک کے سیپٹم میں سوراخ کر دیا، یہ وہ پتلا ٹشو ہوتا ہے جو بائیں اور دائیں نتھنوں کو الگ کرتا ہے۔ یہ ایک کامل مطالعہ نہیں تھا۔ سروے میں شامل افراد میں سے صرف ایک چوتھائی نے جواب دیا اور جن لوگوں کو پہلے سے ہی ناک کھجانے میں ذاتی دلچسپی تھی امکان ہے کہ صرف انھوں نے سروے مکمل کرکے واپس بھیجا۔ پھر بھی اس سے امکان ظاہر ہوتا ہے ہے کہ ثقافتی طور پر ممنوع ہونے کے باوجود ناک میں انگلی ڈالنا بہت عام ہے۔
نوجوانی کی عادت
پانچ سال بعد انڈیا کے شہر بنگلور میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کے ڈاکٹر چترنجن اندراڈے اور بی ایس شری ہری نے ناک میں انگلی ڈالنے کے معاملے میں تھوڑی گہرائی تک غور کرنے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے دلیل دی کہ زیادہ تر عادی رویے بالغوں کے مقابلے میں بچوں اور نوعمروں میں زیادہ عام ہیں، لہٰذا بڑی آبادی کے بجائے نوجوان آبادی کا سروے کرنا مناسب ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ناک میں انگلی ڈالنا کتنا عام ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے سروے کو سکول کے کلاس روموں میں تقسیم کیا۔
انھوں نے بنگلور کے اندر چار سکولوں کا انتخاب کیا، جن میں ایک کم سماجی اقتصادی حیثیت والے کنبوں کے بچوں کا تھا، دو کے طلبا متوسط طبقے کے خاندانوں سے آتے تھے اور چوتھا سکول جہاں طلبا زیادہ کمانے والے گھرانوں سے آتے تھے۔
چترنجن اندراڈے اور بی ایس شری ہری نے 200 نوجوانوں کا ڈیٹا جمع کیا۔ قریباً سب نے ہی دن میں تقریباً چار مرتبہ ناک میں انگلی ڈالنے کا اعتراف کیا۔ یہ کچھ ایسا نہیں تھا جو ہم پہلے سے نہیں جانتے تھے لیکن وہ دلچسپ تھا۔
صرف 7.6 فیصد طلبا نے تسلیم کیا کہ وہ دن میں 20 بار ناک مںی انگلی ڈالتے ہیں لیکن 20 فیصد کے قریب نے کہا کہ انھیں لگتا ے کہ انھیں ناک میں انگلی ڈالنے کا سنجیدہ مسئلہ درپیش ہے۔
زیادہ تر نے کہا کہ وہ ناک میں کھجلی ہونے یا ناک صاف کرنے کی غرض سےایسا کرتے ہیں لیکن 24 نے کہا کہ وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ انھیں ایسا کر کے اچھا لگتا ہے۔
اور ایسا وہ صرف انگلیوں کے ساتھ نہیں کرتے۔ 13 طلبا نے کہا کہ وہ ناک کھجانے کے لیے ٹویزرز کا استعمال کرتے ہیں اور نو نے کہا کہ وہ اس مقصد کے لیے پینسل کا استعمال کرتے ہیں۔ نو نے کہا کہ وہ ناک سے نکلنے والی چیز کھاتے بھی ہیں۔۔۔۔
اس میں کوئی سماجی تفریق نہیں، ناک میں انگلی ڈالنے کے معاملے میں ہم سب ایک ہیں تاہم اس میں صنفی تفریق ضرور ہے۔ لڑکے ایسا زیادہ کرتے ہیں اور لڑکیاں اسے گندی عادت سمجھتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق لڑکوں میں دوسری گندی عادتیں ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے جیسے کے ناخن چبانا اور اپنے بال نوچنا
چہرے کے زخم
تاہم اینڈریڈ اور سری ہری نے پایا ناک کھجانا صرف ایک بے ضرر سرگرمی نہیں ہے، کچھ انتہائی معاملوں میں ناک کھجانا زیادہ سنگین مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
ایک معاملے میں، سرجن ناک کے سیپٹم میں ہونے والے سوراخ کو مکمل بند کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ ایک مریض خود کو ناک کجھانے سے نہیں روک سکتا تھا۔ اس وجہ سے سرجری کے بعد زخم بھر نہیں پاتا تھا۔ اس کے بعد ایک 53 سالہ خاتون تھیں جن کی ناک کھجانے کی دائمی عادت کی وجہ سے نہ صرف ان کے ناک کے سیپٹم میں سوراخ ہوا بلکہ انھوں نے اپنے ناک کے اندرونی غدود تک میں سوراخ کر دیا۔
اور ایک 29 سالہ شخص کو پہلے ٹرائیکوٹیلومینیا (بال توڑنے) اور رائنوٹیلیکسومینیا (ناک کھجانے) دونوں کی عادت تھی۔ انھوں نے ڈاکٹروں کو ایک نئی اصطلاح تیار کرنے پر مجبور کیا: رائنو ٹرائیکوٹیلومینیا۔ اس کے رویے میں مجبوری سے اپنی ناک کے بال کھینچنا شامل تھا۔ جب ان کے بال بہت زیادہ بڑھ جاتے تھے، تو ان کی ناک میں سوزش ہو جاتی تھی۔
سوزش کا علاج کرنے کے لیے انھوں نے ایک محلول لگانا شروع کیا جو ان کی ناک کو جامنی رنگ کا کر دیتا تھا۔ حیران کن طور پر جامنی رنگ نے ان کی ناک کے بالوں کو چھپا دیا تھا، جس سے وہ کہیں زیادہ پرسکون ہوگئے۔ وہ اصل میں نظر آنے والے ناک کے بالوں کے مقابلے میں جامنی ناک کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے میں زیادہ آرام دہ محسوس کرتے۔
ان کے ڈاکٹر، جو دوا کے ساتھ ان کا علاج کرنے میں کامیابی ہوئے انھوں نے ان کی مجبوری کو باڈی ڈسمورفک ڈس آرڈر کے طور پر بیان کیا جسے بعض اوقات ’اوبسیسو کمپلسیو سپیکٹرم ڈس آرڈر‘ کہا جاتا ہے۔
ناک سے خطرہ
ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہ جانتے ہوئے بھی محفوظ محسوس کر سکتے ہیں کہ ہمارا کبھی کبھار ناک کھجانا شاید پیتھولوجیکل قسم کا نہیں ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ناخن کاٹنا اور ناک کے بال توڑنا اوبسیسیو کمپلسیو ڈس آرڈر کے تسلیم شدہ مظاہر ہیں، رائنوٹیلیکسومینیا عام طور پر نہیں ہوتا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مکمل طور پر محفوظ ہے۔ سنہ 2006 کے ایک مطالعے میں، ڈچ محققین کے ایک گروپ نے پایا کہ ناک کھجانے سے بیکٹیریا کے انفیکشن کو پھیلنے میں مدد مل سکتی ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ کان، ناک اور گلے کے کلینک میں ناک کھجانے والوں کی ناک میں اسٹیفیلوکوکس اوریئس بیکٹیریا ایسا نہ کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
تو ان تمام خطرات اور دوسرے لوگوں میں ناپسندیدگی کو دیکھتے ہوئے بھی ہم اب بھی ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے، لیکن جیسا کہ ٹام سٹیفورڈ نے حال ہی میں ناخن کاٹنے کے بارے میں لکھا ہے، شاید ان رویّوں کا مجموعہ ہے کہ ہمیں ’صاف کرنے‘ سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور یہ حقیقت کہ ہماری ناک ہر وقت آسان رسائی میں رہتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہم ناک میں انگلی ڈالتے ہیں کیونکہ یہ وہاں موجود ہے۔
یا شاید ناک کھجانا صرف سستی کا ثبوت ہے۔ آخر کار آپ جب نتھنوں کو صاف کرنے کی خواہش محسوس کرتے ہیں تو ٹشوز کےڈبے کی طرح انگلیاں کبھی کم نہیں ہوتیں۔