تحریریں

ہم اتنے ناآسودہ کیوں؟

اس کی عمر دس سال تھی۔ اتوار بازار میں جرابیں بیچ رہا تھا۔ زبان پشتو تھی اور اردو میں تھوڑا اٹک رہا تھا۔ اسٹال شاید باپ یا چاچے نے لگا کر دیا ہو۔

یہ کوئی گھنٹہ پہلے کی بات ہے۔ میں نے ایک جراب اٹھائی: "کتنے کی ہے؟” "اسی کا ایک، ڈیڑھ سو کا دو۔” میں نے ناپی تو سائز کچھ چھوٹا لگا۔ میں رکھنے لگا تو اس نے جھٹ پٹ اس کا ٹیگ توڑا اور مجھے رضامند کر لیا کہ پہن کر دیکھ لوں۔ اس کا دل رکھتے ہوئے میں نے پہنی تو پوری تھی۔ میں نے الگ الگ رنگوں میں پانچ جوڑے لے لیے۔ پورے دس روپے کا ڈسکاؤنٹ دے کر اس نے تین سو ستر روپے جیب میں ڈال لیے۔

یہ عمر ہے کام سیکھنے کی۔ یہ بچہ اگلے پندرہ سال میں خریدنا، بیچنا حساب کرنا اور انویسٹ کرنا، سب سیکھ جائے گا۔ اور ہمارے پڑھے لکھوں کا بچہ؟ وہ پچیس، اٹھائیس سال تک صرف پڑھتا ہے۔ کلاسوں پر کلاسیں اور امتحانات پر امتحانات۔ اس کے بعد وہ کام کے لیے بازار میں نکلتا ہے اور اس پر یہ قیمتی راز آشکار ہوتا ہے کہ اس نے جو کچھ پڑھا تھا وہ فضول تھا۔ نہ تو اپنے کاروبار کے لیے درکار تجربہ اس کے پاس ہوتا ہے اور نہ ہی حقیقی فنانشل وزڈم (مالیاتی ذہانت)۔ اسے تو نوکر بننے کے لیے تیار کیا ہوتا ہے۔

پھر وہ جوتیاں چٹخاتا ہے، نوکری تلاش کرتا ہے، زندگی بھر کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا ہے، کم آمدنی کا رونا روتا ہے، باس کے نکال دینے سے ڈرتا رہتا ہے اور اخراجات کے بوجھ تلے دبتا رہتا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیے! بہت سے سوٹڈ بوٹڈ، ٹائی لگائے، پرفیوم چھڑکے لوگوں کے چہروں کے پیچھے پریشانی کی دبیز تہہ دکھائی دے گی۔ مزے کی بات ہے کہ یہ پریشانی ان کی اپنی نہیں، ان کے باس کی ہے۔

کہتے ہیں کہ تعلیم "شعور” دیتی ہے! جب یہ جملہ اعلی تعلیم کے لیے ہو تو میں کہتا ہوں کہ پورا جملہ یوں ہے: "تعلیم کسی کی مرضی کا غلامانہ شعور دیتی ہے۔”

یہ بھی پڑھیں