تحریریں

ہماری زندگیوں کو چیزوں کی کثرت کھا گئی

ہماری زندگیوں کو چیزوں کی کثرت کھا گئی ہے۔*

کسی دور میں دس یا بارہ گانوں والا ایک کیسٹ ہوتا تھا۔ کوئی بہت شوقین ہوتا تو اپنی پسند کی لسٹ دے کر گانے بھرواتا۔ سب گانے بہت مزے سے سنتے تھے اب ہزاروں گانے ہوتے ہیں USB میں اور کوئی پسند نہیں آتا۔

دو تین دوست ہوتے تھے جن سے ہر خوشی غم سانجھا ہوتا تھا۔ جب ضرورت ہو آ موجود ہوتے۔ اب سوشل میڈیا پر ہزاروں اور کانٹیکٹ لسٹ میں سینکڑوں لوگ ہیں مگر بےکار۔

یاد پڑتا ہے کہ گھروں میں بمشکل ایک سائیکل ہوتی تھی اسی پر گھر کی ساری شاپنگ بھی ہوتی تھی، سکول ٹیوشنز اور دوستوں سے ملنا بھی۔ یہ سب کر کے بھی فراغت کا وقت بچ جاتا تھا۔ اب گاڑیاں اور بائیکس کھڑی ہوتی ہیں مگر ان پر کام ختم نہیں ہوتے، بھاگ دوڑ میں ایسے دن گزر جاتا ہے پتہ بھی نہیں چلتا۔ ‏
اور اس سے بھی مزے کی بات اس ایک سائیکل کو بھی روز پنکچر لگتا یا ٹائر میں سپرنگ والے ہینڈ پمپ ہوا بھرنی پڑتی تھی۔ کبھی اس کے کُتے فیل ہو جاتے، توکبھی ہینڈل "وِنگا” (ٹیڑھا) ہو جاتا، کبھی چین اتر جاتی تو کبھی بریک فیل۔ ان سب مشکلات کے باوجود کبھی کام نپٹانے میں مشکل نہیں پڑتی تھی۔ ‏‎۔

پیسے جمع کر کے لائبریری سے کرائے پہ رسالے لائے جاتے اور ایک ہی دن میں پورا ختم کر دیتے۔ گھر میں بچوں بڑوں ہر کسی کی بیڈ سائیڈ پر ناول، رسالہ یا کوئی کتاب ضرور ہوتی جو وہ رات کو پڑھ کر سوتے۔

پیسے ڈال کر وی سی آر منگوایا جاتا، فلموں کی لسٹ بنتی اور گروپ کی شکل میں بیٹھ کر فلمیں دیکھی جاتیں۔ اب تو موبائل پر جب چاہیں فلم دیکھ لیں مگر وہ مزہ اور طلب ختم ہوگئی۔

‏‎مجھے یاد پڑتا ہے گرمیوں میں سر شام صحن میں چھڑکاو کر کے چارپائیاں ڈل جاتیں۔ سونے سے پہلے سارے دن کی رپورٹیں ایکسچینج ہوتیں۔ ایک پیڈسٹل فین ہوتا تھا اور لائن میں پانچ سے چھ چارپائیاں ہوتی تھیں۔ دور کی چارپائی تک ہوا مشکل سے ہی پہنچتی۔ اب ہر کمرے میں اے سی ہے مگر نیند غائب۔

وقت کیساتھ ضرورتیں بھی بدل گئیں اور خلوص بھی۔ *جب چیزیں تھوڑی تھیں تب قدر تھی اب ہر چیز کی بہتات ہے پر نا قدری۔* بس ہماری زندگیوں کو چیزوں کی کثرت کھا گئی 😞

یہ بھی پڑھیں