تحریریں

گلبدن بانو: شہزادی جس نے مغل حرم سے منسلک عیش و نشاط کے تصور کو بدلا

نومبر 1525 کو جمعہ کا دن تھا جب ایک لشکر کابل کے علاقے دیہ یعقوب سے روانہ ہوتا ہے اور ہندوستان کی تاریخ کو بدل ڈالتا ہے۔

یہ لشکر مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کا تھا۔ اس عظیم الشان لشکر کی روانگی کا نظارہ بابر کی ڈھائی سالہ بیٹی گلبدن بانو نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

چنانچہ وہ لکھتی ہیں ’میں نے لشکر کو جاتے دیکھا اور دل میں یہ خیال آیا کہ پل کے پل میں یہ منظر نگاہ سے اوجھل ہو جائے گا۔ چنانچہ اس فوج کے جانے کے بعد مہینوں اور برسوں تک کابل کی مشرقی سڑک کا وہ نظارہ نگاہوں میں رہا۔‘

شاید لشکر کی روانگی کا ذکر بعد میں اس قدر ہوا ہو گا کہ گلبدن کے تخیل کی آنکھ میں وہ منظر مقید ہو گیا ہو گا، ورنہ اتنی کم عمری میں (ڈھائی سال کی عمر) کسی بچی کے لیے کوئی بات یاد رکھنا بہت مشکل امر ہے۔بہر حال جب سنہ 1526 میں پانی پت کی فیصلہ کُن جنگ کے بعد بابر کے اہلخانہ کو آگرہ بلايا گیا تو گلبدن کو اپنے بابا جان (بابر) کے پاس جانا خوب یاد ہے۔ اس وقت وہ تقریباً پانچ برس کی تھیں اور اُن کی اس عمر کی یادداشت جب صفحۂ قرطاس کی زینت بنی، تو اُس نے مغل تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ فراہم کیاگلبدن بانو نے ’ہمایوں نامہ‘ میں اِس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’رانا سانگا پر فتح کے ایک سال بعد ماہم بیگم (بابر کی پسندیدہ اہلیہ) کابل سے ہندوستان آئیں تو یہ ناچیز (گلبدن بیگم) بھی اُن کے ساتھ حضرت بادشاہ کے حضور میں باریاب ہوئی۔ جب ماہم بیگم کول پہنچیں تو حضرت بادشاہ نے دو پالکیاں آپ کے لیے بھیجیں۔ کول سے آگرے تک ماہم بیگم کی سواری کے ساتھ نو سوار اور اٹھارہ رامد گھوڑے تھے، آپ کے جلو میں ایک سو مغلانیاں تھیں جو خوب عمدہ گھوڑوں پر سوار خوب آراستہ و پیراستہ تھیں۔‘

یہ پانچ سالہ گلبدن بانو کا ہندوستان آمد کے دوران مشاہدہ ہے جو انھوں نے اپنی تصنیف ’ہمایوں نامہ‘ میں پیش کیا ہے۔

دہلی میں قائم معروف جواہر لعل یونیورسٹی میں سکول آف سوشل سائنسز کے سینٹر فار ہسٹاریکل سٹڈیز کے پروفیسر نجف حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ گلبدن بیگم کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ان کی کتاب ’احوال ہمایوں بادشاہ‘ جسے عرف عام میں ’ہمایوں نامہ‘ کہا جاتا ہے وہی اُن کا سب سے بڑا تعارف ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس میں بھی انھوں نے اپنے بارے میں بہت کم ذکر کیا ہے لیکن کتاب کے مطالعے سے حرم اور مغل سلطنت میں اُن کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے حرم کے متعلق رائج خیال کو چیلنج کیا ہے۔

دہلی کی تاریخی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تاریخ و ثقافت کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر رحما جاوید راشد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ تو سب کو معلوم ہے کہ وہ بابر کی بیٹی تھیں اور اُن کی پرورش بابر کی پسندیدہ ترین بیگم، ماہم بیگم، نے کی لیکن حقیقت میں وہ دلدار بیگم کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔‘

ہمایوں نامہ میں گلبدن بیگم نے بھی اس کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کی عمر دو سال تھی تو ماہم بيگم کی فرمائش پر انھیں اُن کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ ماہم بیگم نے اپنے بیٹے ہمایوں اور دیگر بچوں کے علاوہ اپنی سوتنوں کے بچوں کی بھی پرورش اور تربیت کی تھی۔ گلبدن بیگم نے دربار اور شاہی محل کے اطوار و آداب ماہم بیگم کی سرپرستی میں ہی سیکھے۔

ڈاکٹر رحما ہمایوں نامہ کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ کس طرح جب وہ آگرے پہنچی تو اُن کا استقبال ہوا اور انھیں ایک باغ میں آراستہ قالین پر بٹھایا گیا اور درباری وزرا اس پانچ سالہ بچی کے لیے نذرانے لے کر آئے۔

ہمایوں نامہ میں گلبدن بيگم رقمطراز ہیں: ’بادشاہ بابام (بابر) کے وزیر اپنی بیوی سلطانم کے ساتھ نوگرام تک استقبال کے لیے آئے تھے۔ میں پالکی میں تھی۔ میری ماماؤں نے مجھے باغیچے میں اتار دیا۔ وہیں چھوٹا سا قالین بچھا کر مجھے اس پر بٹھا دیا اور مجھے یہ سکھایا کہ جب بادشاہ کے وزیر صاحب آئیں تو تم کھڑے ہو کر ان سے ملنا۔ جب وہ آئے تو میں کھڑے ہو کر ان سے ملی۔ اتنے میں ان کی بیوی سلطانم بھی آ گئیں۔ میں انجانے میں ان کی تعظیم کے لیے بھی کھڑا ہونا چاہتی تھی لیکن وزیر صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ تو تمہاری پرانی بڑھیا ماما ہے۔ اس کے لیے کھڑے ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہارے والد نے اس بوڑھے غلام کی بہت عزت افزائی کی ہے۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’وزیر صاحب نے پانچ ہزار شاہ رخی اور پانچ گھوڑے مجھے پیش کیے جو میں نے قبول کیے اور ان کی بیوی سلطانم نے تین ہزار شاہ رخی اور تین گھوڑے پیش کیے اور کہا کہ کھانا تیار ہے، اگر تناول فرمائیں تو بندوں کی عزت افزائی ہو گی۔ میں نے ان کی دعوات قبول کی اور ایک اچھی سی جگہ پر ایک تخت بچھایا گیا اور اس پر ایک سرخ ریشمی چادر کا فرش کیا گیا جس پر حاشیہ گجراتی زربفت کا تھا، اور سرخ ریشم اور زربفت کے چھ شامیانے کھڑے کیے گئے تھے جن میں ہر ایک کا اپنا جدا رنگ تھا۔‘

انھوں نے اپنے والد بادشاہ بابر سے ملاقات کا ذکر اس انداز میں کیا: ’میں وزیر صاحب کے پاس بیٹھی، کھانے میں قریب پچاس بھنی ہوئی بھیڑیں اور نان اور شربت اور بہت سے پھل تھے، کھانے کے بعد میں اپنی پالکی میں بیٹھ کر بابام کے حضور گئی اور آداب بجا لائی، میں آپ کے قدموں میں گر پڑی، آپ بہت خاطر سے پیش آئے اور کچھ دیر تک مجھے اپنی گود میں بٹھایا، اس وقت مجھے ایسی خوشی ہوئی کہ اس سے بڑھ کر خوشی نہیں ہو سکتی۔‘

گلبدن بیگم کی تحریر سے مغل زنان خانے یعنی مغل حرم کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس تصویر سے یکسر مختلف ہے جو عام ہندوستانی اور یورپی مؤرخین نے پیش کی ہے۔

امریکہ میں مقیم معروف انڈین مؤرخ اور ملکہ نورجہاں پر کتاب لکھنے والی مصنفہ روبی لال نے لکھا ہے کہ بہت سارے مرد مؤرخین نے حرم کو ایک ’نسائی، جنسی نوعیت کی، الگ تھلگ جگہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ جشن و طرب اور عیش نشاط کی جگہ ہے جہاں بادشاہ اور شہزادے اپنی تسکین کے لیے جاتے تھے۔‘

روبی لال کے مطابق گلبدن کی یادداشت حرم کی ایک پیچیدہ تصویر پیش کرتی ہے جس میں رشتوں اور عمر کے لحاظ سے درجہ بندی نظر آتی ہے۔

روبی لال نے گلبدن بیگم کے ایک اقتباس کا کے ایس لال کی تصنیف ’مغل حرم‘ (اشاعت 1988) کے ایک اقتباس سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

انھوں نے گلبدن بیگم کی یادداشت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ 16 صدی کے مغل ہندوستان کی واحد تصنیف موجود ہے جسے کسی خاتون نے لکھا ہے۔

ڈاکٹر رحما نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حرم کا جو تصور گلبدن بیگم کی تصنیف ’احوال ہمایوں بادشاہ‘ سے سامنے آتا ہے وہ عام تصور سے بالکل جدا ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے بھی مسلم ہے کہ اس کی تصنیف ایک ایسی خاتون نے کی ہے جو اس کا حصہ رہی ہیں اور ان کی اپنی مستحکم پوزیشن بھی رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اگر بابر کی اہلیہ ماہم بیگم کو چھوڑ دیا جائے تو بابر کی بہن خانزادہ بیگم کے بعد حرم میں گلبدن بیگم کا ہی طوطی بولتا تھا۔ خانزادہ بیگم دوسرے قافلے کے ساتھ ہندوستان پہنچی تھیں۔

گلبدن بيگم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں نہ صرف ہمایوں اپنے ساتھ بلکہ کامران مرزا اور ہندال مرزا بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔

گلبدن بیگم لکھتی ہیں: ’جب تک آکام (ماہم بیگم) زندہ رہیں ان کے دولت خانے میں اکثر بادشاہ (ہمایوں) کو دیکھتی تھی۔ جب آکام کی حالت خراب ہوئی تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ یہ بات بہت مشکل معلوم ہوتی ہے کہ بابر کی بیٹیاں اپنے بھائی کو گلبرگ بی بی کے مکان میں دیکھیں۔ گویا آکام کی بات بادشاہ کے دل و دماغ میں بس گئی تھی کہ جب تک ہندوستان میں رہے بدستور ہمارے مکان میں آ کر ہم سے ملتے رہے اور بے انتہا مہربانی اور عنایت اور شفقت کرتے رہے۔ حضرت بادشاہ اس خاکسار کے مکان میں تشریف لاتے تھے اور معصومہ سلطان بیگم اور گلرنگ بیگم اور گل چہرہ بیگم وغیرہ سب بیگمات جو شادی شدہ تھیں وہ اس خاکسار کے مکان میں آ کر ہی حضرت بادشاہ کو آداب کرتی تھیں۔ غرض بادشاہ بابام (بابر) اور آکام (ماہم) کی وفات کے بعد حضرت ہمایوں بادشاہ اس شکستہ دل کی اس قدر عنایت اور خاطر جوئی کرتے اور اس بیچاری سے اتنی شفقت برتتے کہ میں اپنی یتیمی اور لاوارثی بھول گئی۔‘

ابھی گلبدن بیگم بہ مشکل 12، 13 سال کی رہی ہوں گی کہ ہمایوں پر پریشانی کا دور شروع ہو گیا اور انھیں شیر خان (شیر شاہ سوری) کے علاوہ اپنے بھائیوں (کامران، ہندال اور عسکری) سے بھی پریشانیاں ہونے لگیں۔ ہندال نے شیخ بہلول کو قتل کرا دیا تھا جس کی وجہ سے ہمایوں چراغ پا تھے۔

لیکن گلبدن بیگم لکھتی ہیں ’کچھ دن بعد حضرت بادشاہ میری والدہ سے ملنے آئے اور آپ قرآن شریف اپنے ساتھ لائے تھے۔ فرمایا کہ تھوڑی دیر کے لیے لوگ الگ ہٹ جائيں۔ جب سب چلے گئے اور خلوت ہو گئی تو آپ نے آجم (دلدار بیگم) اور اس ناچیز اور افغانی آغچہ، اور گلنار آغچہ، نارگل آغچہ اور میری انا کو مخاطب کر کے کہا کہ ہندال میرا دست و بازو ہے، جس طرح ہمیں آنکھ کی بینائی مطلوب ہے اسی طرح قوت بازو بھی پسند اور درکار ہے۔‘

’شیخ بہلول کے قضیہ کی بابت میرزا ہندال سے کیا شکایت کر سکتا ہوں۔ جو تقدیر الہی تھی پوری ہوئی۔ اب میرے دل میں ہندال کی طرف سے کوئی میل نہیں۔ اگر تمہیں اس کا یقین نہ ہو تو۔۔۔ آپ نے قرآن شریف کو اونچا اٹھا لیا مگر میری والدہ اور اس ناچیز نے اسے آپ کے ہاتھ سے لے اور سب نے کہا کہ یہ سب سچ ہے۔ آپ ایسی باتیں کیوں کہتے ہیں؟‘

ہمایوں کو اپنی چچی اور پھوپھیوں اور بہنوں کو کسی چیز کے لیے قائل کرنے کی کیا ضرورت تھی لیکن اس واقعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مغل حرم میں خواتین اپنی مسلم حثیت رکھتی تھیں۔

گلبدن بیگم کی اہمیت کا انداز اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ہمایوں بادشاہ نے ہندال کو منانے کے لیے ان کا انتخاب کی کیا تھا۔ چنانچہ وہ لکھتی ہیں: ’آپ نے دوبارہ فرمایا، گلبدن کیا اچھا ہوتا اگر تو جا کر اپنے بھائی ہندال کو لے آئے۔ میری والدہ نے کہا یہ ذرا سی بچی ہے کبھی اس نے اکیلے سفر نہیں کیا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں خود چلی جاؤں۔ حضرت بادشاہ نے فرمایا کہ اگر میں آپ کو یہ تکلیف دوں تو یہ اس لیے ہے کہ بچوں کی غمخواری ماں باپ پر لازم ہے۔ اگر آپ جائیں تو ہمارے حق میں آپ کی یہ عین عنایت اور ہمدردی ہو گی۔‘

چنانچہ وہ جاتی ہیں اور ہندال کو لے کر آتی ہیں اور شیخ بہلول کے قتل کا جواز ہندال یہ دیتا ہے کہ ’وہ زرہ بکتر، زین ساز اور سپاہ گری کا ساز و سامان شیر خان کو بھیجا کرتے تھے اس لیے میں نے انھیں قتل کیا۔‘

شادی بیاہ سے بھی مغل خواتین کے اثر و رسوخ اور ان کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔

گلبدن بیگم نے اپنی شادی کا ذکر تو نہیں کیا ہے لیکن ان پر ایک کتاب لکھنے والے سندھیا کالج گوالیار کے پروفیسر سید ابن حسن بیسویں صدی کے پہلے نصف میں لکھتے ہیں کہ شیر خان کے ساتھ چوسہ کی لڑائی میں ہمایوں کو شکست فاش ہوئی تھی۔ ’بہت سی عورتیں بھی اس جنگ میں ماری گئیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس جنگ میں عورتوں اور بچوں کی اتنی جانیں ضائع ہوئیں کہ ہندوستان کی جنگوں میں کبھی عورتوں اور بچوں کی اتنی جانیں ضائع نہیں ہوئی تھیں۔‘

آخر ہمایوں اس جنگ میں شکست کے بعد بے یارو مددگار بھاگا اور دریا کو بہ مشکل عبور کر کے آگرے پہنچا اور گلبدن بیگم سے حالات دریافت کیے۔ گلبدن کی عمر اس وقت 17 سال تھی اور اس کی شادی ہو چکی تھی۔ گلبدن کی شادی اس کی پھوپھی کے بیٹے سے ہوئی تھی جس کا نام خضر خواجہ خان تھا۔

اس واقعے کے بعد کامران گلبدن کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھے لیکن گلبدن نے ہمایوں کو اس حالت میں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور صاف انکار کر دیا۔

پروفیسر سید حسن لکھتے ہیں: ’گلبدن بیگم نہایت ذہین اور سمجھدار لڑکی تھی۔ کامران اس لیے اس کو اپنی حفاظت میں لینا چاہتا تھا کہ اس کے شوہر کے خاندان سے اس کے خاص تعلقات تھے۔ اور وہ ان لوگوں کو اپنا مددگار رکھنا چاہتا تھا۔‘

کامران کی مروت کے بارے میں گلبدن بیگم نے بھی لکھا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ وہ خواجہ خضر کو خط لکھیں لیکن انھوں نے صاف انکار کر دیا اس کے باوجود کامران ان سے کبیدہ خاطر نہ ہوئے۔

اس کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ جے این یو میں تاریخ اور عہد مغلیہ میں اختصاص رکھنے والے پروفیسر نجف حیدر نے بتایا کہ ’کسی نے پوچھا کہ تم اپنے شوہر کو خط کیوں نہیں لکھتیں، تو انھوں نے کہا کہ اسے پڑھنا آئے تو لکھوں نا۔‘

یہ جہاں ان کی حس مزاح کا مظہر ہے وہیں اس بات کا بھی مظہر ہے کہ مغل شہزادیاں علم و ادب میں بہت دلچسپی رکھتی تھیں۔ نجف حیدر بتاتے ہیں کہ گلبدن بیگم نہ صرف فارسی بلکہ ترکی زبان کی بھی ماہر تھیں۔

مغل بادشاہوں کے سامنے شاہی خواتین کے علاوہ وزرا اور امرا کی خواتین بھی باوقار انداز میں ہوتی تھیں۔ چنانچہ حمیدہ بانو بيگم سے ہمایوں کی شادی کا ذکر خود گلبدن بیگم نے کیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ مغل حرم میں خواتین کس قد باوقار انداز میں رہتی تھیں۔

انھوں نے لکھا کہ بکھر کی روانگی سے قبل ’بادشاہ میری والدہ سے ملنے تشریف لائے۔ اس مجلس میں میرزا ہندال کے گھر کی عورتیں بھی حضرت بادشاہ کے سلام کو آئیں۔ ان میں حمیدہ بانو بیگم کو دیکھ کر آپ نے پوچھا ’یہ کون ہے‘ اوروں نے کہا میر بابا دوست کی بیٹی ہیں۔ خواجہ معظم آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ اسے دیکھ کر آپ نے کہا تو یہ لڑکا ہمارے عزیزوں میں سے ہوا۔ اور حمیدہ بانو بیگم کی طرف دیکھ کر کہا کہ اور ان سے بھی ہماری قرابت ہوئی۔‘

’ان دنوں حمیدہ بیگم اکثر میرزا ہندال کے ہاں رہتی تھیں۔ دوسرے دن بادشاہ دوبارہ میری والدہ دلدار بیگم سے ملنے آئے اور فرمایا میر بابا دوست ہمارے عزیزوں میں سے ہیں۔ یہ بہت اچھا ہو اگر آپ ان کی بیٹی کی شادی ہم سے کر دیں۔‘ یہ سُن کر میرزا ہندال نے بہت عذر کیا اور کہا کہ اس لڑکی کو میں اپنی بیٹی اور بہن سمجھتا ہوں۔ آپ بادشاہ ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سے اس کی موافقت نہ ہو سکے اور اس سے آپ کو تکلیف ہو۔ اس پر حضرت بادشاہ خفا ہو گئے اور اٹھ کر چلے گئے۔

اس کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ جے این یو میں تاریخ اور عہد مغلیہ میں اختصاص رکھنے والے پروفیسر نجف حیدر نے بتایا کہ ’کسی نے پوچھا کہ تم اپنے شوہر کو خط کیوں نہیں لکھتیں، تو انھوں نے کہا کہ اسے پڑھنا آئے تو لکھوں نا۔‘

یہ جہاں ان کی حس مزاح کا مظہر ہے وہیں اس بات کا بھی مظہر ہے کہ مغل شہزادیاں علم و ادب میں بہت دلچسپی رکھتی تھیں۔ نجف حیدر بتاتے ہیں کہ گلبدن بیگم نہ صرف فارسی بلکہ ترکی زبان کی بھی ماہر تھیں۔

مغل بادشاہوں کے سامنے شاہی خواتین کے علاوہ وزرا اور امرا کی خواتین بھی باوقار انداز میں ہوتی تھیں۔ چنانچہ حمیدہ بانو بيگم سے ہمایوں کی شادی کا ذکر خود گلبدن بیگم نے کیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ مغل حرم میں خواتین کس قد باوقار انداز میں رہتی تھیں۔

انھوں نے لکھا کہ بکھر کی روانگی سے قبل ’بادشاہ میری والدہ سے ملنے تشریف لائے۔ اس مجلس میں میرزا ہندال کے گھر کی عورتیں بھی حضرت بادشاہ کے سلام کو آئیں۔ ان میں حمیدہ بانو بیگم کو دیکھ کر آپ نے پوچھا ’یہ کون ہے‘ اوروں نے کہا میر بابا دوست کی بیٹی ہیں۔ خواجہ معظم آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ اسے دیکھ کر آپ نے کہا تو یہ لڑکا ہمارے عزیزوں میں سے ہوا۔ اور حمیدہ بانو بیگم کی طرف دیکھ کر کہا کہ اور ان سے بھی ہماری قرابت ہوئی۔‘

’ان دنوں حمیدہ بیگم اکثر میرزا ہندال کے ہاں رہتی تھیں۔ دوسرے دن بادشاہ دوبارہ میری والدہ دلدار بیگم سے ملنے آئے اور فرمایا میر بابا دوست ہمارے عزیزوں میں سے ہیں۔ یہ بہت اچھا ہو اگر آپ ان کی بیٹی کی شادی ہم سے کر دیں۔‘ یہ سُن کر میرزا ہندال نے بہت عذر کیا اور کہا کہ اس لڑکی کو میں اپنی بیٹی اور بہن سمجھتا ہوں۔ آپ بادشاہ ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سے اس کی موافقت نہ ہو سکے اور اس سے آپ کو تکلیف ہو۔ اس پر حضرت بادشاہ خفا ہو گئے اور اٹھ کر چلے گئے۔غرض چالیس دن تک حمیدہ بانو بیگم کی طرف سے حیل و حجت رہی اور وہ کسی طرح راضی نہیں ہوتی تھیں۔ آخر میری والدہ دلدار بیگم نے ان سے کہا کہ آخر کسی نہ کسی سے تو بیاہ کرو گی۔ پھر بادشاہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے؟ بیگم نے جواب دیا، ہاں میں کسی ایسے سے بیاہ کروں گی جس کے گریبان تک میرا ہاتھ پہنچ سکے۔ نہ کہ ایسے آدمی سے جس کے دامن تک بھی میں جانتی ہوں کہ میرا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔ میری والدہ نے انھیں بہت سی نصیحتیں کیں اور آخر کار انھیں راضی کر لیا

خیال رہے کہ انھی کے بطن سے جلال الدین محمد اکبر کی پیدائش ہوئی جن کا ہندوستان کے اہم ترین فرمانرواؤں میں شمار ہوتا ہے۔

گلبدن بیگم نے ہمایوں نامہ بادشاہ اکبر کے کہنے پر تحریر کیا اور اس وقت ان کی عمر تقریبا 60 سال تھی۔

ڈاکٹر رحما راشد بتاتی ہیں کہ گلبدن بیگم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ وہ پہلی ایسی خاتون ہیں جو ایک بڑے خواتین کے وفد کے ساتھ حج کے سفر پر روانہ ہوئیں۔ ان کے ساتھ سات آٹھ درجن خواتین کا قافلہ تھا اور اس میں صرف تین مرد شامل تھے۔

پروفیسر سید ابن حسن لکھتے ہیں کہ دراصل یہ حج خود اکبر بادشاہ کرنا چاہتے تھے انھوں نے احرام بھی باندھے تھے لیکن جب وہ کسی وجہ احرام توڑ دیا تو گلبدن بیگم نے خود کو پیش کیا جسے بادشاہ اکبر نے قبول کیا اور سارے اخراجات اٹھائے۔

ابوالفضل کے حوالے سے پرفیسر ابن حسن لکھتے ہیں کہ ’15 اکتوبر سنہ 1575 کو اس قافلے کو سیکڑی میں جمع ہونے کا حکم صادر ہوا تھا اور یہی روانگی کی تاریخ تھی لیکن قافلہ مقررہ تاریخ سے پہلے ہی روانہ ہو گیا کیونکہ خواتین تیزی کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی تھیں۔ عام طور پر قافلوں کی روانگی کا دستور تھا کہ دسویں مہینے (شوال) میں عازمین حج آگرے سے روانہ ہو جاتے تھے لیکن یہ قافلہ دستور کے خلاف آٹھویں مہینے شعبان میں ہی آگرے سے روانہ ہو گیا تھا۔‘

ڈاکٹر رحما بتاتی ہیں کہ اس وقت سمندر پر پرتگالیوں کی اجارہ داری تھی۔ چنانچہ موجودہ گجرات کے ساحلی شہر سورت پہنچ کر گلبدن بیگم نے پرتگالیوں کے پاس وفود بھیج کر بحری سفر کی حفاظت کا انتظام کیا تھا اور اس طرح یہ بڑا قافلہ حج کے لیے روانہ ہوا تھا۔

ڈاکٹر رحما کے مطابق اتنے بڑے وفد کی اور خواتین کی جانے کی ایک وجہ اکبر کا عبادت خانہ بھی تھا جس کے بارے میں مسلمانوں میں اکبر کے خلاف بدگمانی پیدا ہو رہی تھی کہ وہ راہ راست سے بھٹک رہے ہیں۔ اسی بدگمانی کو زائل کرنے کے لیے اکبر کی پھوپھی گلبدن بیگم نے اتنے بڑے پیمانے پر سفر حج اختیار کیا۔

پروفیسر ابن حسن لکھتے ہیں کہ گلبدن بیگم کے حالات تاریخوں میں بہت کم اور پراگندہ ملتے ہیں۔ اس کا ذکر ایک جگہ محمد یار کے ذکر میں پایا جاتا ہے جب ان کی عمر 70 سال تھی۔ محمد یار ان کا نواسہ تھا جسے دربار سے نکال دیا گیا تھا۔ اسی طرح ان کا ذکر اس وفت سامنے آتا ہے جب سلیمہ کے ساتھ وہ شہزادہ سلیم کی خطا معاف کرانے کے لیے اکبر کے دربار میں جاتی ہیں۔ اور ایک بار جب وہ حمیدہ بانو بیگم کے ساتھ شاہی رقم کا نذرانہ اور زر و جواہر قبول کرتی ہیں۔

گلبدن بیگم کا سنہ 1603 میں 80 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ وہ چند روز بخار میں مبتلا رہیں۔ ان کے پاس حمیدہ بانو بیگم موجود تھیں۔

پروفیسر ابن حسن لکھتے ہیں: ’گلبدن کی آنکھیں غفلت کی حالت میں جب بند ہو گئیں تو حمیدہ بانو بیگم نے محبت کے لہجے میں جیوا جیوا (باجی باجی) کہہ کر پکارا لیکن کوئی جواب نہ پایا پھر اس نے گلبدن کہہ کر آواز دی۔ یہ سن کر گلبدن بیگم نے آکھیں کھول دیں اور کہا ’لو میں جاتی ہوں، تم زندہ رہو۔‘ ادھر اس کے یہ الفاظ ختم ہوئے اور ادھر روح پرواز کر گئی۔‘

بادشاہ اکبر ان کے جنازے کے ساتھ قبرستان گئے اور چونکہ گلبدن بیگم کا بیٹا وہاں موجود نہ تھا اس لیے اکبر نے اپنی پھوپھی کو قبر میں اتارا اور اس طرح کابل میں آنکھیں کھولنے والی نے آگرے میں آنکھیں موند لیں۔

پروفیسر ابن حسن ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’گلبدن بیگم نہایت فیاض طبیعت اور مخیر تھی اور کثرت سے صدقہ خیرات کیا کرتی تھی۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ بعض اوقات اس کی خیرات کا یہ حال ہوتا تھا کہ وہ دن دن بھر بیٹھی رہتی اور محتاجوں کو روپیہ پیسہ دیتی رہتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک بھی محتاج اس کے دربار سے ناکام نہ پھرتا تھا۔‘

وہ ذہین تو تھیں لیکن صاف گو بھی تھیں جس کا اظہار ان کی کتاب سے ہوتا ہے جس کی ابتدا میں ہی انھوں نے لکھا ہے کہ انھوں نے یہ کتاب کچھ اپنی یاد اور کچھ دوسروں سے سُن کر لکھی ہے۔ چنانچہ وہ واقعات جہاں وہ خود موجود نہیں تھیں وہ دوسروں کی روداد پر مبنی ہیں، اور جب پانچ سال تک ہمایوں ہندوستان سے باہر رہنے پر مجبور ہوئے تو وہاں کے واقعات انھوں نے حمیدہ بانو بيگم کے حوالے سے بیان کیے۔

انھوں نے ہمایون کی لغزشوں پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی دوسرے بھائیوں کی کوتاہیوں پر۔ ان کی کتاب سے بادشاہ بابر کے بچوں کا علم ہوتا ہے، اتنا دوسری کتابوں سے نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں