تحریریں

کیٹو ڈائٹ کیا ہے؟

انڈیا میں ہندی اور بنگالی فلموں کی اداکارہ مِشٹی مکھرجی کا جمعہ کے دن گردے کی ناکامی کے سبب انتقال ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ 27 سالہ اداکارہ کیٹو ڈائٹ پر تھیں اور ان کی طبیعت بگڑ گئی۔

میڈیا میں مِشٹی مکھرجی کے نمائندے کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘بہت سی فلموں اور میوزک ویڈیو میں اداکاری کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والی اداکارہ مِشٹی مکھرجی اب نہیں رہیں۔ کیٹو ڈائٹ کی وجہ سے بنگلور میں ان کے گردے ناکام ہوگئے۔ انھوں نے جمعہ کی رات آخری سانس لی اور اداکارہ بہت تکلیف میں تھیں۔ اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی ہے۔ خدا ان کی روح کو سکون بخشے۔ ان کے سوگواروں میں والدین اور بھائی شامل ہیں۔’

بی بی سی اس بات کی تصدیق نہیں کرسکتی ہے کہ آیا اداکارہ کی موت کا سبب کیٹو ڈائٹ ہی تھی لیکن ان کی موت کے وجہ سے اب کیٹو ڈائٹ خبروں کا حصہ ہیں اور اسی لیے بی بی سی ہندی کی سوشیلا سنگھ نے دہلی میں اور بی بی سی اردو کے اعظم خان نے اسلام آباد میں مختلف ماہر ڈائٹیشین سے کیٹو ڈائٹ کے متعلق بات کی۔

تمام ماہریین غذائیت نے گفتگو کے دوران اس سے پرہیز کا مشورہ دیا ہے۔

ماہر غذا ڈاکٹر نوشین عباس نے بی بی سی اردو کے اعظم خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیٹو ڈائٹ سے خالص غذاؤں کی طرف چلے جاتے ہیں، کریم اور گھی جیسی غذا کے استعمال سے فیٹس کو روک دیتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ لائف سٹائل نہیں بن سکتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے اس پر عمل نہیں کر سکتے ایسا کرنے سے آپ جسم کو غیر متوازن کردیتے ہیں۔ ایسی غیر متوازن غذا جسم کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ غذائیت کے توازن کے بگاڑ کا ذریعہ ہوتی ہے۔

کیٹو ڈائیٹ کیا ہے؟

کیٹو ڈائٹ کو کیٹوجینک ڈائٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زیادہ چکنائی والی غذا ہے۔ اس غذا میں جسم توانائی کے لیے چربی پر منحصر ہوتا ہے۔ اس غذا میں کاربوہائیڈریٹ بہت کم ہوتا ہے اور پروٹین بہت معتدل یا کنٹرولڈ مقدار میں دی جاتی ہے۔

غذائیت کی ماہر ڈاکٹر شیکھا شرما نے بی بی سی ہندی کی سوشیلا سنگھ کو بتایا: ‘جب جسم کیٹونز کو توانائی کے ذرائع‏ کے طور پر استعمال کرتا ہے تو اسے مختصر طور پر کیٹو ڈائٹ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت آپ کاربوہائیڈریٹ نہیں کھاتے ہیں جبکہ چربی زیادہ مقدار میں لیتے ہیں۔ اس غذا میں کیٹو شیکس، پنیر، کچھ منتخب قسم کی سبزیاں کھاتے ہیں جبکہ پھل نہیں کھاتے ہیں۔ پروٹین کے لیے آپ چکن، مٹن، مچھلی، ناریل کے تیل میں سموتھی کا استعمال کرتے ہیں جبکہ انڈیا میں لوگ اس ڈائٹ کے تحت بہت زیادہ پنیر کھاتے ہیں۔’

ایک اور ماہر غذائیت ڈاکٹر مہرین بلال نے اعظم خان سے بات کرت ہوئے کہا کہ یہ فیٹ ڈائٹ کہلاتی ہے۔

کس طرح وزن کم ہوتا ہے؟

ماہرین کے مطابق کیٹو ڈائٹ کا اثر کم سے کم ایک ہفتے میں آپ کے جسم پر ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر شکھا شرما نے بتایا: ‘جب آپ اس طرح کی غذا لے رہے ہوتے ہیں تو آپ کا جسم اس طرح کے کھانے کو ہضم نہیں کررہا ہوتا ہے اور ہر چیز آنتوں میں جا رہی ہوتی ہے۔ اور جو کھانا ہضم ہورہا ہوتا ہے وہ آپ کے جگر اور گال بلاڈر (یعنی صفرہ کی تھیلی) میں بھرتا رہتا ہے۔

‘جسم سروائول یعنی بقا کے موڈ میں چلا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جسم کیٹون سے اپنی توانائی حاصل کرتا ہے۔ لیکن اس کے ضمنی اثرات جسم پر نظر آنے لگتے ہیں۔ آپ کے جسم پر کیٹو ڈائیٹ کا اثر دو یا تین دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔’

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو پہلے سے ہی اپنے جگر یا صفرا کی تھیلی میں پریشانی ہے تو دو یا تین دنوں میں اس غذا کے اثرات ابھرنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے ان اعضاء میں کوئی پریشانی نہیں ہے تو اس کے خراب اثرات کے ظاہر ہونے میں تین سے چار ماہ لگ سکتے ہیں۔

غذا ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ کے وزن میں اضافے کی بنیادی وجہ سادہ کاربس (کاربوہائیڈریٹس) ہیں، جس میں شکر، آٹا، سوجی اور کارن فلور سے بننے والی چیزیں شامل ہیں۔

اگرچہ ان چیزوں کو یکسر ترک کرنا مشکل نظر آتا ہے لیکن جب وزن کم کرنا ہوتا ہے تو لوگ متبادل تلاش کرنے لگتے ہیں اور فوری طور پر وزن کم کرنے کا ایک متبادل کیٹو ڈائٹ کی شکل میں نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر شکھا شرما نے کہا: ‘میرے علم میں کوئی ایسا ڈائیٹشین نہیں ہے جو کیٹو ڈائٹ کا مشورہ دے۔ بہت سے لوگ گھریلو علاج کے طور پر ایسی غذا کو اپنا لیتے ہیں لیکن کسی بھی ڈائٹ پلان سے قبل ماہرین سے پوچھنا ضروری ہے اور اس پر عمل در آمد انھی کی نگرانی میں ہونی چاہیے کیونکہ اس قسم کی ڈائٹس کے مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں

جسم پر کیٹو ڈائیٹ کے اثرات

ڈاکٹر شکھا شرما نے اس بابت بتایا: ‘عام طور پر ایک دن میں جسم کو 20 گرام چربی، جسم کے وزن کے مطابق ایک گرام فی کلو کے حساب سے پروٹین لینا چاہئے۔ یعنی اگر آپ کا وزن 55 سے 60 کلوگرام ہے تو 60 گرام پروٹین لیں۔ اس کے ساتھ 50 سے 60 فیصد کاربوہائیڈریٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ آپ کے جسم، کام اور سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ مثلا اگر آپ سپورٹس پرسن ہیں تو آپ کو اس کی زیادہ ضرورت ہوسکتی ہے۔ لیکن جب آپ کے جسم کو صرف 20 گرام چربی کی ضرورت ہے اور آپ اسے 60-80 گرام تک بڑھا دیں گے یہ آپ کے جگر اور گال بلاڈر کو متاثر کرے گا۔

اس ڈائٹ میں تونائی کا ذریعہ کاربوہائیڈریٹس کے بجائے چربی یعنی فیٹس ہیں۔ آپ یہ محسوس کریں گے کہ آپ اپنا کا وزن کم ہو رہا ہے لیکن چربی کو ہضم کرنا آپ کے جگر اور صفرا کی تھیلیی کے لیے مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ آپ کا جسم روزانہ 20 گرام چربی ہی ہضم کررہا ہوتا ہے اور کیٹو ڈائٹ پر جانے کے بعد اسے ایک دن میں 100 گرام چربی کو ہضم کرنا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر نوشین عباس کے مطابق عام پر جو سیزیئر کے مریض ہو تے ہیں ان کو ڈاکٹر صرف ایک ہفتے کے لیے کیٹو ڈائیٹ کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں تا کہ ان میں ایسے فیٹس تیار ہو سکیں لیکن آپ کیٹو ڈائٹ کے ذرریعے اپنے جسم کو اوورلوڈ نہیں کر سکتے اور کیٹو ڈائیٹ کے بہت سارے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق الیکٹرو فائب کا عدم توازن بھی کیٹو ڈائٹ سے پیدا ہوتا ہے جس میں غشی کے دورے یا بے ہوش ہونے جیسی علامات بھی شامل ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ کیٹو ڈائٹ کے استعمال کا بالکل بھی مشورہ نہیں دیتیں۔

ڈاکٹر شکھا شرما کہتی ہیں کہ ‘ایسی صورتحال میں آپ کے ان دونوں اعضاء کو چربی کو ہضم کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے اور اس سے آپ کا جگر کمزور ہو جاتا ہے اور ان کے ناکام ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسی غذاؤں کا خواتین پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔ کوئی اگر عورت 40 سال کی عمر میں ہے جس کا وزن زیادہ ہے یا وہ فرٹیلیٹی کے ایام مدت میں ہے تو گال بلاڈر میں پتھری بھی بن سکتی ہے کیونکہ ایسی حالت میں آپ کے صفرا کی تھیلی زیادہ تیزابیت والے ماحول میں کام کر رہا ہوتا ہے اور جسم میں سوجن بھی بڑھ سکتی ہے

اس قسم کی غذا پر جانے سے آپ کے ہارمون کا چکر خراب ہوسکتا ہے۔ کیٹو ڈائٹ سے آپ کے بلڈ پریشر اور شوگر کی سطح بھی گڑبڑ ہوسکتی ہے۔ جو شخص ایسی غذا پر ہے وہ کمزوری محسوس کرے گا، آپ کو متلی محسوس ہوگی، عمل انہضام میں خلل پڑ جائے گا اور آپ کو گیس اور ایسیڈیٹی کی شکایت ہو سکتی ہے۔’

ڈاکٹر شکھا شرما کہتی ہیں: ‘کوئی بھی ڈاکٹر کسی بھی عام حالت میں کیٹو ڈائٹ کی سفارش نہیں کرتا ہے۔ کیٹو ڈائٹ کی سفارش صرف اسی صورت میں کی جاتی ہے جب آپ کو کسی خاص طبی حالت سے گزر رہے ہوں۔ جیسے کسی شخص کو دورے آ رہے ہوں، مرگی کی شکایت ہو، مریض کاربوہائیڈریٹ ہضم کرنے سے قاصر ہو یا ان کے جسم میں انزائم نہ ہوں۔ اس غذا سے اگر چہ وزن بھی کم ہو جاتا ہے لیکن یہ غذا کبھی بھی وزن کم کرنے والی غذا نہیں رہی ہے۔’

‘یہ فوری طور پر وزن کم کرنے کے لیے مقبول ہو گئی ہے اور یہ افسوسناک ہے کہ لوگ اسے اپنا رہے ہیں۔ انھیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے نقصانات دیر سے ظاہر ہوتے ہیں۔ درست اور معتدل کھانا بھی دوا کے طور پر کام کر سکتا ہے لیکن اگر آپ اسے زہر بنا کر کھائیں گے تو وہ آپ کے جسم کے لیے زہریلا بھی ہوسکتا ہے۔’

کیٹو ڈائیٹ کے حوالے سے ماہر غذائیت ڈاکٹر مہرین بلال کا یہ کہنا ہے کہ اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق ہماری عوام میں آگاہی نہیں ہے اور وہ جادوئی نتائج کے منتظر رہتے ہیں وہ بہت جلد اپنے آپ کو سمارٹ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ بطور ماہر غذا یہی مشورہ دیتی ہیں کہ آپ اپنی غذا کو متوازن رکھیں پانی پیئں کھانا کھائیں چاول کھائیں روٹی کھائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی چیز کی جب آپ اپنے آپ پر پابندی لگا لیتے ہیں جس طرح کیٹو ڈائیٹ میں آپ کو کہا جاتا ہے کہ آپ فروٹ نہ کھائیں تو اس سے آپ وٹامین اور منرلز سے محروم ہو جاتے ہیں۔

‘جب آپ کیٹو ڈائٹ کرتے ہیں تو اس طرح جو چیزیں آپ کو کھانے کو ملتی ہیں اس سے آپ کا پیٹ تو بھرا بھرا محسوس ہوتا ہے اور آپ کا وزن بھی کم ہو رہا ہوتا ہے مگر اس کے سائڈ افیکٹس گردوں، دل اور دوسرے اعضا پر پڑتے ہیں۔

جو غذامیں عدم توازن ہے وہ آپ کی صحت کے لیے بالکل بھی اچھی بات نہیں۔

ڈاکٹر مہرین کے مطابق کیٹو ڈائیٹ کرنے والوں میں عام طور پر جو سائڈ افیکٹس دیکھنے میں آتے ہیں وہ ان کے بالوں کا گرنا، نظر کا کمزور ہونا اور منہ پر جھریاں پڑ جانا شامل ہے۔

ان کے مطابق ان کے پاس ایسے کئی مریض آتے ہیں جو یہی شکایت کرتے ہیں، کئی دلہنیں آتی ہیں ان کا وزن تو کم ہوا لیکن اب وہ اپنی عمر سے بڑی نظر آتی ہیں تو ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کیٹو ڈائٹ متوازن غذا نہیں ہے اور اس سے کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں