تھیمز دریا کے کنارے کنگسٹن ایک عام اور چھوٹا سا قصبہ لگتا ہے۔ اس شہر کے ایک کونے میں ایک پتھر موجود ہے لیکن یہ کوئی عام پتھر نہیں۔ کسی تاج کی شکل میں نصب نیلے رنگ کی آہنی سلاخوں کے بیچ اس مقام پر سات ستون موجود ہیں جو سات بادشاہوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس پتھر پر ان ساتوں بادشاہوں کے نام بھی درج ہیں۔
روایت کے مطابق یہ تاریخی مقام برطانیہ کا تاجپوشی کا پتھر ہے۔
کنگسٹن لندن برو کا انتظامی مرکز ہے جو ہیمٹن کورٹ پیلس سے قربت اور مشہور ڈراموں کی شوٹنگ کی وجہ سے سیاحوں کے لیے کافی کشش رکھتا ہے تاہم اکثریت ان غیر معمولی تاریخی واقعات سے لاعلم ہے جو اس مقام پر پیش آئے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کنگسٹن کوئی عام شہر نہیں۔ اس قدیم قصبے کو برطانیہ کا پہلا شاہی شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہاں موجود تاجپوشی کا پتھر بھی موجودہ حالات میں کافی اہم ہے
شاہ چارلس سوم کی تاجپوشی سے قبل سکاٹ لینڈ میں یہ بحث ہوئی کہ آیا سکاٹ لینڈ کے اس روایتی مقدر کے پتھر کو اس رسم کے لیے برطانیہ منتقل کیا جانا چاہیے یا نہیں جو اب تک تمام برطانوی تاجپوشی کی رسومات میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
اس کی وجہ سکاٹ لینڈ کو آزادی کے ریفرنڈم سے محروم رکھنے پر ہونے والا احتجاج تھا تاہم اب یہ پتھر لندن پہنچ چکا ہے لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ انگلینڈ کا اپنا تاجپوچی کا پتھر کنگسٹن میں موجود ہے۔
اس شہر کی اہمیت 10ویں صدی میں شروع ہوئی جب مشہور سیکسن بادشاہ شاہ ایتھلسٹن نے وائکنگ اور سکاٹ لینڈ کے اتحادی لشکر کو یارک میں شکست دے کر برطانیہ کو متحد کیا اور کنگسٹن کو اس مقام کا درجہ دیا جہاں سے جدید برطانیہ کا آغاز ہوا۔
برطانیہ کے شاہ ایتھلسٹن کی تاجپوشی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اس مقام پر ہوئی جہاں اب آل سینٹس چرچ واقع ہے۔ اس مقام کو شاید اس لیے چنا گیا تھا کیونکہ یہ ویسکس اور مرسیا کی قدیم سلطنت کے قرب میں واقع تھی۔
اگرچہ اس پتھر کے بارے میں 1790 تک کوئی تحریر ریکارڈ موجود نہیں تھا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ ایتھلسٹن نے تاجپوشی کی رسم کے دوران اسی پتھر پر بیٹھ کر تاج پہنا تھا۔
اس تاج کی ایک کاپی اب چرچ میں موجود ہے، جسے سنہ 925 کی رسم کی ایک پینٹنگ کی مدد سے تیار کیا گیا۔
کنگسٹن میں رضاکارانہ طور پر سیاحوں کو معلومات فراہم کرنے والے جولیان مکارتھی کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس صرف تاجپوشی کا پتھر ہی نہیں بلکہ غالباً یہ برطانیہ میں پہلی باقاعدہ تاجوشی کی رسم کا مقام بھی ہے۔‘
کسنگٹن اس کے بعد بھی تاجپوشی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جہاں 946 میں شاہ ایڈریڈ، 979 میں شاہ ایتھل ریڈ ایلڈر کی تاجپوشی کی رسم بھی ادا کی گئی۔ روایتی قصوں کے مطابق یہ سب بادشاہ اسی پتھر پر بیٹھے تھے۔
تاہم اس بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں کہ اس پتھر کا استعمال کب اور کیوں ختم کیا گیا لیکن ایک روایت زندہ رہی۔ تاجپوشی کا آرڈر جسے شاہ ایتھلسٹن کے لیے اس وقت کے آرچ بشپ آف کینٹربری نے تشکیل دیا تھا اب بھی برطانوی تاجپوشی کی رسم میں استعمال ہوتا ہے۔
کنگسٹن میں ٹور کے دوران اس شہر کی تاریخی اور شاہی ثقافت نمایاں نظر آتی ہے۔ بازار کے چوک میں موجود قدیم عمارات پر ماضی کے بادشاہوں اور ملکاوں کے مجسمے نصب ہیں۔
کنگسٹن میں سیکسن بادشاہوں کی تاجپوشی کو اب ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس شہر کے ماضی کی اہم علامت کے طور پر تاجپوشی کا پتھر موجود ہے۔
کنگسٹن پل سے گزریں تو ماضی کی اور کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ یہ پل کسی زمانے میں لندن کے مشہور پل کے بعد تھیمز دریا کو پار کرنے کے لیے دوسرا مقام ہوا کرتا تھا اور بہت سے لوگ اسی پل کو استعمال کرتے تھے۔
ان میں وہ باغی بھی شامل تھے جو تاج برطانیہ کا تختہ الٹنے کی کوشش میں لندن پہنچنے کے لیے دریا کو پار کرتے تھے۔ 1554 میں ایسی ہی ایک کوشش سر تھامس ویاٹ دی ینگر نے بھی کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ کنگسٹن کے رہائشیوں نے باغیوں کو ٹاور آف لندن تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اس لکڑی کے پل کو توڑنے کی کوشش کی۔ ان کی اس وفاداری کے بدلے ملکہ میری ٹیوڈر نے کنگسٹن کو بطور انعام شاہی چارٹر کے ذریعے اضافی دنوں میں بازار کھولنے کی اجازت دی۔