منوڑا اور کراچی کی ابتدا ساتھ ساتھ
اگر کسی کو سندھ میں تاج برطانیہ کے آغاز کی کہانی میں دلچسپی ہو اور وہ یہ داستان کسی مقامی کی زبانی سننا چاہے تو اسے سیٹھ ناومل ہوت چند کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
سیٹھ ناومل کے مطابق منوڑا جزیرہ سنہ 1769 سے آباد ہونا شروع ہو گیا تھا۔ طویل قیام کے لیے یہاں ایک قلعہ تعمیر کیا گیا، جس کے دو دروازے تھے: کھارو دروازہ اور مٹھو دروازہ یعنی یہاں سے ہی منوڑا اور کراچی کی ابتدا ہوتی ہے۔
سہ ماہی رسالے ’کراچی کہانی‘ میں ماہر تعمیرات عارف حسن کا ایک طویل مضمون ’کراچی شہر تغیرات کی زد میں‘ شامل ہے۔
عارف حسن اس میں لکھتے ہیں کہ کھڑک بندر کے تاجروں کی پریشانی اس وقت بڑھ گئی، جب خوب بارشوں سے حب دریا کا دہانہ مٹی میں اٹ گیا اور وہ قابل استعمال نہیں رہا۔ نئی بندرگاہ کی تلاش کھڑک بندر کے تاجروں کو منوڑا کے ساحل تک لے آئی۔ انھیں یہ جگہ پسند آئی اور 1720سے تاجر منوڑا کے ساحل سے اپنا تجارتی سامان وسطی ایشیا اور قرب و جوار میں بھیجنے لگے۔
رچرڈ برٹن نے بھی سندھ کی یاداشتوں کو جمع کیا اور اسے سنہ 1877 میں سندھ ریوزیٹیڈ (Sindh Revisited) کے نام سے شائع کیا۔
برٹن لکھتے ہیں کہ منوڑا جیٹی پر سنہ 1852 میں لندن کا پہلا جہاز ڈیوک آف ارگل (Duke of Argyll ) لنگر انداز ہوا۔
برٹن یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’وہاں سینٹ پال چرچ ہے، جس کی چھت سرخ ٹائلز سے بنائی گئی ہے اور ہندو مندر بھی ہے جس کا گنبد اہرام مصر جیسا ہے۔ ساتھ ہی ایک قبر بھی ہے، جس پر عربی میں کچھ لکھا ہوا ہے۔‘
ہم، جب یہاں پہنچے تو صبح کا وقت تھا۔ موسمی خرابی کی وجہ سے سمندر پر نہانے پر پابندی تھی۔ جس کی وجہ سے تفریح پر آنے والے لوگ بد دلی سے واپس جا رہے تھے۔ ساحل پر سناٹا تھا۔ مقامی آبادی بھی گھروں میں چھٹی منا رہی تھی۔ پرسکون فضا اور بادل سے ڈھکے آسمان نے منوڑا کے ساحل کو اور دلکش بنا دیا تھا۔ خاموش فضا میں لہروں کی آواز ایک حسین تاثر پیدا کر رہی تھی
دو گرجا گھر
ہم سب سے پہلے سینٹ پال چرچ پہنچے جہاں مقامی عیسائی عبادت میں مصروف تھے۔ یہاں ہماری ملاقات منوڑا کی سیاحت پر آئی آمانہ رباب سے ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ منوڑا کا سب سے ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ یہاں بین المذاہب ہم آہنگی ہے۔
گوتھک طرز تعمیر کا حامل گرجا گھر سینٹ اینتھونی ایک صدی پرانا ضرور ہے مگر جب ہم وہاں پہنچے تو بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں اس کی خوبصورتی مزید بڑھا رہی تھیں۔
گرجا گھر کے اندر سروسز جاری تھیں۔ خواتین و حضرات الگ الگ حصوں میں بیٹھے فادر سے انجیل مقدس کا کلام سن رہے تھے۔
فادر بورو منگو نے بتایا کہ اس گرجا گھر کو بنے 102سال ہو چکے ہیں۔ اس وقت منوڑا میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے تقریباً 150 خاندان آباد ہیں۔
مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں کے مقامی چاہیے وہ مسیحی ہیں، مسلم یا ہندو، ان کے آپس میں اچھے تعلق ہیں۔‘
فادر نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’منوڑا کی اصل خوبصورتی یہ ہے کہ جب یہاں مختلف مذاہب کی عیدیں آتی ہیں تو سب ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، کیک کاٹتے ہیں اور اسے بانٹتے بھی ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں اور دکھوں میں شامل ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’پچھلے دنوں ہمارے ماسٹر جی کا ایکسیڈینٹ ہوا تو مسجد کے مولانا انھیں دیکھنے آئے تھے۔ یہ چیزیں ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے کر آتی ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ مقامی کشتی بانوں سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ یہ ہمیں کیماڑی سے منوڑا جزیرے پر لے کر آتے ہیں اور واپس لے کر جاتے ہیں۔‘
مذہبی تناؤ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ دوسرے علاقوں میں یہ مسئلہ موجود ہے لیکن منوڑا میں اب تک کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔
ماسٹر ایمونیل بھٹی سنہ 1979 سے منوڑا کے رہائشی ہیں۔ گرجا گھر کی خدمت کرنے والے ایمونیل سمجھتے ہیں کہ منوڑا ملک کی دیگر جگہوں سے مختلف ہے کیونکہ یہاں مذہب کوئی مسئلہ نہیں۔
’یہاں سارے مذاہب کے لوگ ساتھ رہتے ہیں۔ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا دکھ درد میں شامل ہونا، یہ ساری باتیں منوڑا کے ماحول میں شامل ہیں۔ یہاں جھگڑا نہیں ہوتا۔ جب ہمارا کرسمس اور ایسٹر آتا ہے تو لوگ ہمیں مبارکباد دیتے ہیں۔‘
ماسٹر ایمونیل نے بتایا کہ ملک کے دیگر حصوں میں جب مذہبی تشدد کا واقعہ ہوتا ہے تو اس کا اثر منوڑا پر نہیں پڑتا۔
’جب باہر کوئی خطرہ ہوتا بھی ہے تو ہم یہاں اطمینان کے ساتھ اپنی سروسز اور نماز جاری رکھتے ہیں۔ نیوی اور پولیس ہماری رکھوالی کے لیے یہاں موجود ہوتی ہے۔‘
وران دیو مندر
اگر آپ تفریح کے لیے منوڑا کے ’واٹر فرنٹ بیچ پارک‘ گئے ہوں تو یقیناً سامنے ہی پیلے پتھروں سے تعمیر مندر نے آپ کی توجہ اپنی طرف ضرور کھینچی ہو گی۔
اس مندر کا نام ’ورن دیو‘ مندر ہے۔ شام سندر داس اس کے پجاری مہاراج ہیں۔ ان کا گھرانا منوڑا کا واحد رہائشی ہندو خاندان ہے۔
شام کا کہنا تھا کہ اس مندر کی پہلی تعمیر سنہ 1623 میں ہوئی۔
اقبال مانڈویا اپنی کتاب ’اس دشت میں ایک شہر تھا‘ میں اسے کراچی کا سب سے قدیم مندر قرار دیتے ہیں جبکہ عارف حسن کے مطابق ورن دیو مندر کو سنہ 1889 میں ہندو تاجر دریا لال سیٹھ نے پھر سے تعمیر کروایا۔
شام سندر داس نے بتایا کہ ’اس مندر کو ہم سندھی لوگ ’جھولے لعل مندر‘ بھی کہتے ہیں۔ یہاں ہر ماہ چاند کی پوری تاریخوں میں خاص پوجا کی جاتی ہے۔‘
مندر کی تباہ حالی دیکھ کر لگتا ہے کہ اس ہندو طرز تعمیر کے حامل مندر کے پتھر کو کچھ سمندری ہوا نے کاٹا اور کچھ لوگوں کی بے توجہی نے اسے برباد کیا۔ آج کل اس مندر کی تعمیر نو جاری ہے۔
شام سندر داس نے بتایا کہ سنہ 1947 میں ہندو آبادی یہاں سے ہجرت کر گئی اور یہ مندر عبادت کے لیے بند ہو گیا۔ کئی دہائیوں تک بند رہنے اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حالت خستہ ہو چکی ہے۔
سنہ 2012 میں ہندؤ کونسل کے چیف پیٹرن ڈاکٹر رمیش کمار کی کوششوں سے مندر کو پھر سے پوجا کے لیے کھولا گیا۔
سندر داس نے مزید بتایا کہ چاند کا میلہ ہو، شیوراتی، جین ماسٹمی یا دیوالی، ان تہواروں پر پوجا کے لیے کراچی سے یہاں لوگ آتے ہیں۔
منوڑا کی قدیم شافعی جامع مسجد
شافعی جامع مسجد کو منوڑا کی مقامی کوکن برادی نے سنہ 1890میں تعمیر کیا۔ عرفان ابراہیم، شافعی مسجد کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد دو صدیوں سے منوڑا میں بسے ہوئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں لیکن ہم آپس میں ایک ہیں۔
’کوئی مذہبی تنازعہ نہیں، ہم ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم اپنے تہواروں میں انھیں سویاں اور بریانی بھیجتے ہیں جبکہ ان کے گھروں سے مٹھائی اور ڈرائی فروٹ کے تحفے آتے ہیں۔‘
عرفان نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ شافعی جامع مسجد اور وارن دیو مندر کے فرش اور دیواروں پر لگائے گئی ٹائلز ایک ہی ہیں۔ دونوں مذہبی مقامات کے لیے ایک ساتھ جاپان سے یہ ٹائلز منگوائی گئی تھیں۔
اس بات کی تصدیق شام سندر داس بھی کرتے ہیں۔
یوسف شاہ غازی کا مزار
منوڑا کی ایک پہچان یوسف شاہ غازی عرف سمندری بابا کا مزار بھی ہے۔ مزار کے خادم عبدالمجید انھیں محمد بن قاسم کے زمانے کا قرار دیتے ہیں جبکہ عارف حسن انھیں عبداللہ شاہ غازی کے بھائی قرار دیتے ہیں۔
کیپٹن لیو پولڈ نے اپنی کتاب ٹریول آف انڈیا (Travel of India) میں اس درگاہ کو ’سفید مسجد‘ قرار دیا اور جان پورٹر نے اسے ’سفید مزار‘ لکھا۔
عارف حسن مزید بتاتے ہیں کہ کوئی بھی جہاز ’منوڑا پیر‘ کی درگاہ پر نذرانہ دیے بغیر بندرگاہ سے روانہ یا داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
مزار کے خادم عبدالمجید کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں سے کوئی تعصب نہیں کرتے۔
’مزار پر تمام مذاہب کے لوگوں کو آنے کی اجازت ہے۔ یہ کھلی جگہ ہے، رات دن کھلی رہتی ہے۔
گردوارہ سری گرونانک سکھ صاحب
منوڑا ا کا گردوارہ جس کا نام سری گرونانک سکھ صاحب ہے، کو سردار راجش سنگھ کے والد نے سنہ 1935 میں تعمیر کیا۔
جب ہم وہاں پہنچے تو سردار راجش نے بتایا کہ آج کل یہ گردوارہ زیر تعمیر ہے کیونکہ اس کی چھت کمزور ہو کر گر گئی تھی۔
آج کل یہاں عبادت نہیں ہو رہی لیکن شام میں گردوارے کے احاطے میں بچیاں آتی ہیں اور گروگرنتھ پڑھتی ہیں۔
سردار راجش سنگھ نے بتایا کہ منوڑا میں سکھ مذہب کو ماننے والے 290 افراد بستے ہیں لیکن بہتر رہائش کی تلاش میں اب بہت سے سکھ کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی منتقل ہو رہے ہیں۔
راجش مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مسیحی برداری کی عیدیں ہوں یا مسلمانوں کی، سب ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں۔ قریب ہی مسجد ہے، جس کی کمیٹی کی طرف سے گردوراے کو سیمنٹ مہیا کیا گیا اور بارشوں میں تعمیری سامان کو مسجد کے احاطے میں محفوظ کیا گیا۔
’ہم رات گئے تک اپنی مذہبی تقریبات اور گروگرنتھ صاحب پڑھتے ہیں۔ ہمارے بچے سکولوں میں اپنے مذہبی اقدار کے مطابق ہی جاتے ہیں، یہاں تناؤ کی کوئی بات نہیں۔‘
ان سب باتوں کا ذکر جب ہم نے منوڑا کے سابقہ رہائشی نکسن لال دین سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا بچپن وہاں گزرا ہے۔
نکسن کا کہنا ہے کہ ’بچپن میں اپنی نانی کے ساتھ یوسف شاہ غازی کے عرس پر جاتے تھے اور وہاں سے تبرک اور کھلونے لے کر آتے تھے۔ غم و خوشی کے موقعوں پر سب ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار رہتے، شادی ہو جنازہ، سب ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے تھے۔‘