پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ممالک منتقل ہونے اور نوکریاں تلاش کرنے میں اپنی توانیاں صرف کرتی ہے کیونکہ ان کے مطابق ملک میں رہتے ہوئے ایک تو نوکریوں کے مواقع کم ہیں اور دوسرا جو نوکریاں ہیں بھی ان میں دی جانے والی ابتدائی تنخواہیں انتہائی کم ہیں۔
یہ بات شاید کسی حد تک درست بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نوکریوں کے مواقع کم ہیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں ان نوکریوں کو حاصل کرنے کا مقابلہ انتہائی سخت، تو اسی دوران آجر نئے بھرتی ہونے والے نوجوانوں کا استحصال کرتے ہوئے انھیں کم تنخواہیں آفر کریں۔
ایک ایسے وقت میں جب ڈاکٹرز، انجینیئرز، وکلا اور دیگر معروف روایتی پیشوں میں ایک شخص کو معاشی طور پر مضبوط ہونے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں، وہیں حیرت انگیز طور پر پاکستانی جاب مارکیٹ میں ایسے شعبے بھی موجود ہیں جہاں قابل لوگوں کے لیے آغاز میں ہی بہتر تنخواہیں حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔
مگر کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ابتدائی چند ماہ میں ہی یعنی انٹری لیول پر ہی ایک شخص ایک لاکھ روپے ماہانہ کی تنخواہ حاصل کرنے لگے
یہی جاننے کے لیے ہم نے مختلف شعبوں اور بڑی کمپنیوں میں ہائرنگ کرنے والے ماہرین سے بات کی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی کی جاب مارکیٹ کا تجزیہ کرتے ہیں اور تبدیل ہوتے ٹرینڈز پر نظر رکھتے ہیں۔
پاکستان میں کن شعبوں کی مانگ اور تنخواہیں قدرے بہتر ہیں؟
کراچی میں سرسید یونیورسٹی یا کہیں اور سے اپنا گریجویشن مکمل کیا ہے اور ڈگری کے ساتھ سرٹیفیکیشن بھی حاصل کی ہے، چونکہ آج کل محض ڈگری ناکافی ہے، تو کمپنیاں تمام ضروری آزمائشوں کے بعد باآسانی اچھی تنخواہیں دے رہی ہیں۔
اُن کے مطابق اوسط درجے کے ادارے بھی ان ہنر مندوں کو آغاز میں 50 سے 80 ہزار دے دیتے ہیں۔
اُدھر ہیومن ریسورس (ایچ آر) کے شعبے سے منسلک ماہ نور طائی بتاتی ہیں کہ اگر موجود جاب مارکیٹ ٹرینڈ دیکھا جائے تو آئی ٹی میں سافٹ ویئر انجینیئرز اور پروگرامرز زیادہ ڈیمانڈ میں ہیں جن کی اوسط ابتدائی تنخواہ 60 سے 70 ہزار ہوتی ہے مگر اچھی کمپنیاں ایک لاکھ روپے تک بھی دے دیتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ فنانس میں چارٹرڈ اکاؤنٹنگ کے شعبے (سی اے اور اے سی سی اے) کی طلب زیادہ ہے۔ ’اگر آپ اے سی سی اے یا سی اے فائنلسٹ ہوں تو آپ کی ابتدائی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے اوپر ہو سکتی ہے۔‘
جب ہم نے ماہ نور سے پوچھا کہ مینجمنٹ یا ان کی اپنی ایچ آر کی فیلڈ سے متعلق اُن کی کیا رائے ہے تو انھوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ اُن کے شعبے میں ابتدائی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک عرصے تک مارکیٹنگ والوں کو ابتدائی طور پر 20 سے 30 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔۔۔ یہ وہ شعبے ہیں جن کی مانگ وقت کے ساتھ کم ہو گئی ہے، حتیٰ کہ ان کی مینجمنٹ کی پوزیشنز جیسے ایڈمنسٹریٹیو مینیجر یا ایچ آر مینیجر، ان کو بھی اکثر ایک لاکھ روپے سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔‘
ان کی رائے ہے کہ میڈیسن اور لا کے شعبوں میں مہنگی تعلیم کے باوجود انٹری لیول پر اچھی تنخواہیں نہیں۔ ’پاکستان میں ڈاکٹر اور وکیل متعدد امتحانات اور کئی سال کی محنت کے بعد اچھی سیلری تک پہنچ پاتے ہیں۔‘
ماہ نور نے بتایا کہ ان کی نظر میں ’زیادہ تر بے روزگار لوگ ڈاکٹر اور انجینیئر ہیں۔ میرے لنکڈ اِن پر اتنے انجینیئر ہیں جو بے چارے نوکریاں تلاش کر رہے ہیں اور انھیں نوکریاں نہیں مل رہیں یا اس تنخواہ پر نہیں مل رہیں جو وہ چاہتے ہیں۔‘
ماہ نور کے خیال میں بعض شعبوں میں انٹری لیول پر تنخواہیں اس لیے بھی کم ہوتی ہیں کیونکہ ان کے فریش گریجویٹ پیشہ ورانہ اعتبار سے اتنے تیار نہیں ہوتے۔ ’جیسے تعمیری شعبے میں انجینیئر، آرکیٹیک اور ڈیزائنرز۔۔۔ انھیں پاکستانی تعلیمی اداروں میں جو پڑھایا جاتا ہے اور جو پیشہ ورانہ کام ہے، اس میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے جو فیلڈ میں پہنچ کر ہی سمجھ آتا ہے۔‘
انھوں نے زور دیا کہ طلبا پہلی نوکری سے قبل ایسے ہنر سیکھ کر اپنا معیار بہتر بنا سکتے ہیں جس کی بنیاد پر انھیں بہتر تنخواہوں کی پیشکش ہو سکتی ہے۔
175 کمپنیوں نے حصہ لیا اور 12 ہزار سے زیادہ ملازمین کے سیلری ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا، یعنی یہ دیکھا گیا کہ کس شعبے کے ملازمین کو کتنی تنخواہیں ملتی ہیں۔
تو آئی ٹی کے شعبے میں کن ملازمین کو کم تجربہ رکھنے کے باوجود سِکس فیگر یا (کم از کم ایک لاکھ) تنخواہ ملتی ہے؟
اس رپورٹ کے مطابق محض ایک سال کا تجربہ رکھنے والے (انٹری لیول) پروگرامر، جن کی مہارت مخصوص شعبوں میں ہو، کو زیادہ سے زیادہ ایک سے دو لاکھ کے بیچ سٹارٹنگ سیلری مل سکتی ہے۔
اس میں بتایا گیا کہ 2021 کے دوران آئی او ایس، فرنٹ اینڈ، بیک اینڈ اور جاوا سمیت دیگر اقسام کے پروگرامرز جن کی مانگ زیادہ تھی، انھیں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے کی ابتدائی تنخواہ ملی۔
اسی طرح تکنیکی رولز میں سافٹ ویئر آرکیٹیک، ڈیٹا مائنر اور ڈیٹا سائنسدان، تھری ڈی اینیمیٹر، سسٹمز ایڈمنسٹریٹر اور کوالٹی انشورنس کے شعبے میں کم کرنے والے نئے لوگوں کو ایک لاکھ کے قریب جبکہ نیٹ ورک سکیورٹی انجینیئرز کو دو لاکھ روپے تک کی تنخواہیں بھی دی گئیں۔
سیلری سروے میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم کی سطح اور معیاری یونیورسٹی کے علاوہ کمپنیاں اس بات پر سب سے زیادہ انحصار کرتی ہیں کہ ایک نئے شخص کو اپنے ہنر پر کتنی گرفت حاصل ہے۔
اگرچہ سروے کے مطابق انٹری لیول کی اوسط تنخواہیں محض 50 یا 60 ہزار ہیں تاہم بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں یا ایسے سٹارٹ اپس جن میں بھاری بھرکم غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی ہو، میں تنخواہوں کی شرح بہتر ہے۔