خواتین تخلیقی فن کا بہترین نمونہ ہیں۔ ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور بھی۔ میں ایک نیورو سائینسدان (دماغ اور اعصابی نظام کی ماہر) ہوں اور میں عورت کے باطن کا مطالعہ کرتی ہوں، خاص کر اس کے دماغ کا۔‘
’ٹیڈ ٹاک‘ شو بعنوان ’مینو پاز، یعنی ماہواری بند ہونے سے دماغ کس طرح متاثر ہوتا ہے؟‘ میں نیورو سائینسدان ڈاکٹر لیزا موسکونی نے ان الفاظ سے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔
موسکونی امریکی ریاست نیویارک کی کارنیل یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں نیورو سائینسز کی اسسٹنٹ پروفیسر اور اس کے انسدادِ الزائمر پروگرام کی ڈائریکٹر ہیں۔
موسکونی نے کئی مریضوں کے دماغوں کا مطالعہ کیا ہے اور مرد اور عو رت کے دماغ میں فرق کو سمجھنے کے لیے ان پر بھر پور اور عمیق تحقیقات کی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ مرد اور عورت کے دماغ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نہ کوئی گلابی ہے، نہ ہی نیلا اور نہ لیگو۔ یہ ہماری اختراہیں ہیں اور ان کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ ہمارا ذہن کس طرح کام کرتا ہے۔‘
ڈاکٹر موسکونی نے اپنی تحقیق اور اپنی کتاب ’دی ایکس ایکس برین‘ کے بنیادی نکتوں پر بی بی سی منڈو سے بات کی۔ ہم اس انٹرویو کے چند اقتباسات اس رپورٹ میں پیش کر رہے ہیں۔
خواتین کے دماغ کے 20 سالوں کے مطالعہ نے آپ کو کیا سکھایا ہے؟
مختلف اعصابی اور نفسیاتی عوارض مردوں اور عورتوں کو مختلف شرحوں اور تناسب میں متاثر کرتے ہیں۔ میری تحقیق بتاتی ہے کہ یہ تفاوت اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ مردوں اور عورتوں کے دماغوں کی عمر مختلف ہوتی ہے، اور اس کے نتیجے میں دماغی صحت متاثر ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر خواتین میں اضطراب کی خرابی یا ڈپریشن کی تشخیص ہونے کا امکان مردوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہوتا ہے اور دماغ پر اثر انداز ہونے والے ’آٹومیون ڈس آرڈر‘ (خود ایمنی کے امراض)، جیسے کہ ایک سے زیادہ سکلیروسیس (ذہنی امراض) ہونے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہے
اس کے علاوہ عورتوں میں سر درد اور درد شقیقہ کے ہونے کا چار گنا زیادہ امکان ہو تا ہے۔
خواتین میں دماغی ٹیومر کی سب سے عام قسم، میننجیوماس (رفتہ رفتہ شروع ہونے والی بیماریاں) پیدا ہونے کا بھی زیادہ امکان ہوتا ہے، اور وہ مہلک فالج کا بھی زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
خواتین الزائمر کا زیادہ شکار ہوتی ہیں، جو دنیا بھر میں دماغی مرض ڈیمنشیا کی سب سے بڑی وجہ ہے، جس سے ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ الزائمر کے تین مریضوں میں سے تقریباً دو خواتین ہیں۔
ان اعداد و شمار کے باوجود ان میں سے کسی بھی حالت کو ’خواتین کی صحت‘ کے روایتی موضوعات ان کا احاطہ نہیں کرتے ہیں۔
فی الحال ’خواتین کی صحت‘ بنیادی طور پر ان کی ری پروڈکشن یا تولیدی صحت پر مرکوز ہے۔ پس منظر بتانے کے لیے یہ جاننا چاہیے کہ 60 برس کی ایک عورت کو چھاتی کے کینسر ہونے کے جتنا امکان ہوتا ہے اس کے مقابلے میں بعد کی زندگی میں الزائمر ہونے کا امکان تقریباً دوگنا ہوتا ہے۔
اگرچہ چھاتی کے کینسر کو قانونی طور پر خواتین کی صحت کے مسئلے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن الزائمر کی بیماری کو کیوں نہیں سمجھا جاتا ہے۔
آج تک خواتین کی دماغی صحت کا معاملہ میڈیسن کا سب سے کم تحقیق شدہ، کم تشخیص شدہ، کم علاج شدہ اور سب سے کم فنڈ ملنے والے شعبوں میں سے ایک ہے۔
اس تفاوت کو دور کرنا اور ان اہم خدشات کو شامل کرنے کے لیے خواتین کی صحت سے جڑے مسائل کے دائرہ کار کو وسیع کرنا بہت ضروری ہے۔
کیا آپ ہمیں کوئی ایسی چیز بتا سکتی ہیں جو آپ کو دلکش یا خوبصورت لگے کہ خواتین کا دماغ کیسے کام کرتا ہے؟
بہت سے لوگ عمر بڑھنے کو سال با سال ایک بتدریج عمل کا ہونا سمجھتے ہیں، لیکن خواتین کے دماغ کے لیے ایسا نہیں ہے۔
خواتین کے دماغ مخصوص زندگی کے موڑوں میں اہم تبدیلیوں کا تجربہ کرتے ہیں، جسے میں ’3 Ps ‘ (تھری پیز) کہتی ہوں: ’پیوبرٹی‘ (بلوغت)، ’پریگننسی‘ (حمل)، اور ’پیری مینوپاز‘ (یعنی زیادہ عمر میں ماہواری کا بند ہونا)۔
بلوغت اور حمل دونوں ہی ہارمونز کے اتار چڑھاؤ اور بڑی جسمانی تبدیلیوں کا سبب ہوتے ہیں۔ اگرچہ عورتوں کے ان مراحل کے جسمانی اثرات واضح ہیں، لیکن یہ نوٹ کرنا دلچسپ ہے کہ وہی ہارمونل تبدیلیاں ہمارے دماغوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بلوغت اور حمل دونوں کی وجہ سے سماجی ادراک اور رویے سے منسلک سونے کے بعض حصوں میں عورت کا دماغ سکڑ جاتا ہے۔
لیکن یہاں ایک دلچسپ اور خوبصورت حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ حمل کے دوران یہ دماغ کا سکڑنا دماغ کا غیر ضروری نیورونز کو ہٹانے اور نئے رابطوں کے لیے جگہ پیدا کرنے کا طریقہ ہے جو بلوغت کے بعد جوانی اور بلوغت کے بعد زچگی میں منتقلی میں مدد دیتا ہے۔
اس کے نتیجے میں خواتین کے دماغ چھوٹے ہو جاتے ہیں، لیکن ان نازک مراحل کے دوران زیادہ موثر ہوتے ہیں.
ہمارے پاس یہ یقین کرنے کے شواہد ہیں کہ اسی طرح کی بہتری ’پیری مینوپاز‘ کے ساتھ بھی وقوع پذیر ہوتی ہے۔
اپنی کتاب میں اس نے ذکر کیا ہے کہ ’اگرچہ عام طور پر بڑے جسم رکھنے کے نتیجے میں مردوں کے دماغ بڑے ہوتے ہیں، لیکن خواتین کے سیریبرل کارٹیکس (بھحجے کی بیرونی تہہ) موٹی ہوتی ہے جو بہتر طور پر باہم جڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔‘ اس کا کیا مطلب ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ خواتین کے دماغ میں مردوں کے دماغوں سے زیادہ برین ریزرو (دماغ کا ذخیرہ) ہوتا ہے۔
برین ریزرو دماغ کی بیماری، نقصان، یا عمر بڑھنے کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت ہے۔
دماغ کی ریزرو صلاحیت جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی کم امکان ہے کہ کوئی فرد عمر بڑھنے یا بیماری سے وابستہ سماجی فہم و فراست کے رویے میں خرابی کا مظاہرہ کرے گا۔
مثال کے طور پر خواتین کسی بھی عمر میں اور یہاں تک کہ ڈیمنشیا ہونے کے بعد بھی یاد داشت (میموری) کے ٹیسٹ میں مردوں سے زیادہ اسکور کرتی ہیں۔
برین ریزرو کے منفی اثرات بھی ہیں۔ اس کا اضافہ ڈیمنشیا کی ابتدائی علامات کو چھپا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں کچھ خواتین کو مؤثر علاج نہیں ملتا ہے کیونکے مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ ابتدائی سقطح پر اس کا پتہ لگانے کے ٹولز تیار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں جو اس مسئلے کو کو مدنظر رکھیں گے۔
’’ عام طور پر، مرد کا دماغ زیادہ سیروٹونن پیدا کرتا ہے، ‘اچھا محسوس کرنے والا’ نیورو ٹرانسمیٹر جو موڈ، نیند اور یہاں تک کہ بھوک میں شامل ہوتا ہے۔
اس کے بجائے، خواتین زیادہ ڈوپامائن پیدا کرتی ہیں (دماغ میں موجود ایک کیمیکل جو کام کرنے اور انعامات حاصل کرنے کے ہمارے عزم اور حوصلہ کو کنٹرول کرتا ہے)۔ ‘‘
خواتین کے ہارمونز ان کے دماغی صحت میں کیا کردار ادا کرتے ہیں، اور دو X کروموسوم جو خواتین کو مردوں سے ممتاز کرتے ہیں وہ خواتین کی دماغی صحت کو کیسے متاثر کرتے ہیں؟
خواتین کا دماغ ایسٹروجن پر چلتا ہے۔ دن بہ دن، ایسٹروجن کے مالیکیول دماغ میں دائیں طرف سرکتے رہتے ہیں، خاص ’رسیپٹرز‘ کی تلاش میں جو اس ہارمون کے لیے بالکل صحیح شکل ہیں۔
ریسیپٹرز چھوٹے تالے کی طرح ہیں جو صحیح سالماتی کلید (ایسٹروجن) کو چالو کرنے کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ یہ ایک اہم خیال کے لیے ایک واضح تصویر ہے: خواتین کے دماغ ایسٹروجن حاصل کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہے۔
جب ایسٹروجن پہنچتا ہے، تو یہ ان رسیپٹرز سے جڑ جاتا ہے، اور اس عمل میں سیلولر سرگرمیوں کے ایک میزبان کو متحرک کرتا ہے۔
یہ جاننے سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ مینوپاز دماغی اثرات کے اتنے شدید تہوں کو کیسے متحرک کر سکتی ہے۔
مینوپاز کی علامات اس کے بعد رسیپٹرز سے بھرے دماغ کے مشکل نتائج ہیں جنھیں کام کرنے کے لیے بہت ہی کم ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔
بکنی میڈیسن‘ نے خواتین کے دماغی مطالعہ اور خواتین کی دماغی صحت کو کتنا نقصان پہنچایا ہے؟
جیسا کہ میں نے کتاب میں وضاحت کی ہے زیادہ سے زیادہ سائنس دان اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ صرف خواتین کی مالی، سماجی اور جسمانی سلامتی ہی نہیں جسے غیر مساوی توجہ ملتی ہے، بلکہ میڈیکل کے میدان میں بھی خواتین کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
یہ جزوی طور پر اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ آج بھی ہم اسے سکھاتے اور اس پر عمل کرتے ہیں جسے میں ’بکنی میڈیسن‘ کہتی ہوں، جو کہ میڈیکل کے نقطہ نظر سے جو بات عورت کو عورت بناتی ہے، وہ ہمارا ’ری پروڈکٹِو‘ (تولیدی) نظام ہے۔
تاریخی طور پر زیادہ تر طبی ماہرین کا خیال تھا کہ مرد اور عورت بنیادی طور پر ایک جیسے ہیں، ان کے صرف مختلف تولیدی اعضاء میں فرق ہے اور اُن کے وہ کپڑے یا عورتوں کے معاملے میں بکنیز جو انھیں ڈھانپتی ہیں۔
اس ماڈل سے اخذ کردہ عالمی نظریہ کو دیکھتے ہوئے خواتین کی صحت کا تصور ہی مشکل ہے کیونکہ تحقیق اور دیکھ بھال ہمارے تولیدی اعضاء کی صحت تک ہی محدود رہتی ہے، اور اس طرح عورت کی تعریف بہت ہی کم فرق کے ساتھ کی جاتی ہے۔
اس کی تحقیق کے سب سے حیران کن نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ ’مینو پاز (ماہواری کے بند) ہونے کے آغاز کے ساتھ خواتین کی زرخیزی میں کمی کا ہمارے دماغ پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔‘ کیوں اور کیسے؟ جبکہ آپ اصل میں کہتی ہیں کہ یائسگی کی علامات دماغ میں پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں، بیضہ دانی میں نہیں۔
مینوپاز کے دوران، بیضہ دانی ہارمونز ایسٹروجن اور پروجیسٹرون پیدا کرنا بند کر دیتی ہے، جس سے عورت کے بچے پیدا کرنے کے سال ختم ہو جاتے ہیں۔
تاہم یہ ہارمونز دماغی افعال کو منظم کرنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں دماغ ان کے اخراج کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مینوپاز نہ صرف تولیدی عمل ہے بلکہ ایک اعصابی عمل بھی ہے۔ مینوپاز کی بہت سی علامات، جیسے گرم چمک، رات کو پسینہ آنا، بے چینی، ڈپریشن، بے خوابی، دماغی دھند، اور یادداشت میں کمی، بیضہ دانی کے بجائے دماغ میں پیدا ہوتی ہیں، جو انہیں اعصابی علامات بناتی ہیں۔ لیکن اس نقطہ نظر کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
جب میں نے دماغ پر مینوپاز کے اثرات پر تحقیق شروع کی تو شاید ہی کوئی اس کے بارے میں بات کرتا ہو۔ صرف بیضہ دانی کے بجائے مینوپاز اور اس کے دماغ کے درمیان تعلق سے بہت کم لوگ واقف تھے۔
مجھے بے حد فخر ہے کہ مینوپاز اور خواتین کی دماغی صحت کے درمیان تعلق اب ہماری عمومی اور بنیادی بحثوں میں شامل ہوگیا ہے
یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ ہماری تحقیق خواتین کی دماغی صحت کو سمجھنے اور اس پر گفتگو کرنے کے انداز میں تبدیلی میں مددگار ثابت پوا ہے۔ اپنے ’ٹیڈ ٹاک‘ (TedTalk) شو میں جب وہ اس بات کا ذکر کرتی ہیں کہ درمیانی عمر کی خواتین کے دماغ ان کی جسمانی عمر کے سالوں کے مقابلے میں ہارمونز کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں اور یہ کہ خواتین ان تبدیلیوں کو محسوس کرتی ہیں، حالانکہ وہ یہ سوچتی ہیں کہ ’ان کے دماغ ان سے چالاکیں کر رہے ہیں‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں واقعی اس کی تصدیق کرنا چاہتی ہوں۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے۔ اور صرف واضح کرنے کے لیے کہوں گی کہ اگر کوئی بھی ایسا محسوس کرتا ہے تو وہ پاگل نہیں ہے۔‘
آپ ان خواتین کے لیے کیا کہیں گے جنہیں مینوپاز (ماہواری کے بند ہوجانے سے ہیدا ہونے والی) مشکلات کا سامنا ہے؟
میں ان سے کہوں گی کہ ’میں نے آپ کو سنا ہے۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ یہ سب آپ کے دماغ میں نہیں ہے اور آپ پاگل نہیں ہو رہی ہیں۔‘
میں انہیں یہ بھی بتاؤں گا کہ مینوپاز کے دوران کسی کو تکلیف کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کی علامات جتنی خطرناک اور پریشان کن ہوسکتی ہیں، تاہم یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس کے حل موجود ہیں۔
ہمارے اختیار میں بہت سے طریقے اور ٹولز ہیں جو ہر عورت کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق ڈھالے جا سکتے ہیں۔
ہماری بہت سے مریضائیں مینوپاز کی وجہ سے جسم میں مختلف ہارمونز کی تبیدلیوں کے علاج کے لیے ’ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی‘ (جسے ایچ آر ٹی بھی کہا جاتا ہے) میں دلچسپی رکھتے ہیں، کچھ دوسرے مریض غیر ہارمونل ادویات میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور پھر اس کے علاہو اور مریض قدرتی علاج اور طرز زندگی میں ایڈجسٹمنٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔
وہ سب مفید ہیں، یہ صرف ہر فرد کے لیے بہترین حکمت عملی تلاش کرنے کا معاملہ ہے۔
اپنی کتاب میں مصنفہ ایک خوف زدہ کرنے والے اعدادوشمار پیش کرتی ہیں: ’ایک 45 سالہ عورت کو اپنی پوری زندگی میں الزائمر ہونے کا 5 میں سے 1 امکان ہوتا ہے، جبکہ اسی عمر کے مرد کو 10 میں سے صرف 1 ہوتا ہے۔‘ کیا یہ جاننا ممکن ہے کہ خواتین کا دماغ بیماری کا زیادہ شکار کیوں ہوتا ہے؟
کئی دہائیوں سے ہم جانتے ہیں کہ آپ کے بوڑھے ہونے کے بعد عورت ہونا الزائمر کی بیماری کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔
ساتھ ہوتا ہے، جب ہم چالیس اور پچاس کی دہائی میں ہوتے ہیں… اور بڑھاپے میں داخل نہیں ہوتے ہیں۔
یہ کچھ لوگوں کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے، لہذا میں واضح کرتی ہوں کہ ہم نے ہمیشہ الزائمر کو بڑھاپے کے ساتھ جوڑا ہے کیونکہ یہی وہ عمر ہے جب بیماری کی مسلسل سماجی علامات کے ظاہر ہونے کے لیے کافی نقصان پہنچاتی ہے۔
حقیقت میں، بیماری نے اپنا حملہ کئی سال پہلے شروع کردیا تھا۔ ‘
انھوں نے لکھا کہ ’جیسے جیسے خواتین درمیانی عمر کے قریب پہنچتی ہیں، دماغی خطرے میں اضافے کے اشاروں کا پتہ لگانے اور اس خطرے کو کم کرنے یا روکنے کے لیے حکمت عملیوں کے ساتھ مداخلت کرنے کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔‘ ہم بحیثیت خواتین خود کو ڈیمنشیا اور دیگر بیماریوں سے کیسے بچا سکتے ہیں؟
ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ہر عورت چاہے جس عمر کی ہو، اپنی دماغی صحت کو محفوظ رکھنے کے لیے کر سکتی ہے، تمباکو نوشی سے پرہیز، جسمانی طور پر متحرک رہیں، پودوں سے بھرپور غذا کھائیں، تناؤ کو کم کریں، زیادہ دیر سوئیں، اور زہریلے مادوں کی خوراک سے بچیں۔ ماحولیاتی دماغی صحت کو سہارا دینے اور مستقبل میں آپ کے ڈیمنشیا کے خطرے کو کم کرنے کے یہ تمام بہترین طریقے ہیں۔
اس کے لیے سخت نظم و ضبط کی ضرورت ہے، لیکن اس کے لیکن فوائد زندگی بھر کے لیے ہوتے ہیں
ہماری تحقیق کی بنیاد پر میں باقاعدگی سے طبی معائنے کی بھی سختی سے سفارش کروں گی جس میں ہارمون کی تشخیص اور جانچ شامل ہے۔
میرا پختہ یقین ہے کہ اس قسم کے جائزوں کو خواتین میں الزائمر کی بیماری سے بچاؤ کی حکمت عملیوں کا ایک مضبوط فوکس ہونا چاہیے۔