برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ نے اپنی زندگی کے آخری 13 برسوں کا ایک بڑا حصہ اپنے ہندوستانی منشی عبدالکریم کے ساتھ گزارا۔
کریم کو شروع میں انڈيا کے شہر آگرہ سے ان کے خدمت گار کے طور پر بھیجا گیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ ان کے سب سے قریبی لوگوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ اس طرح تمام مخالفت کے باوجود ان کا اور عبدل کا یہ رشتہ تاعمر جاری رہا۔
ان دونوں کے رشتوں کی کیا تعریف بیان کی جائے؟ میں نے یہی سوال ’وکٹوریا اینڈ عبدل ۔ دا ٹرو سٹوری آف دا کوینز کونفیڈانٹ‘ کی مصنف شربانی بسو سے پوچھا۔بسو کا جواب تھا کہ ’اصل میں اس رشتے کی کئی پرتیں ہیں۔ اس کی ایک تعریف نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس وقت مہارانی اپنی عمر کی 70 کی دہائی میں تھیں۔ عبدالکریم بہت جوان تھے۔
جب وہ انگلینڈ پہنچے تو ان کی عمر محض 24 برس تھی۔ وہ دیکھنے میں خوبصورت تھے۔ دونوں کے درمیان یقیناً کشش تھی۔ مہارانی کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں آگرہ سے دو ٹیبل ویٹر بھیجے گئے۔ ان میں سے انھوں نے عبدل کا انتخاب کیا۔
عبدالکریم کے ذریعے انھیں انڈیا کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ انھیں انڈیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔
وہ ملکہ ہندوستان تھیں لیکن انھیں کبھی وہاں جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ عبدالکریم ان کے لیے ایک طرح سے انڈیا بن گئے۔
یہ تعلق دو افراد کے درمیان بلکہ دو ملکوں کے درمیان ایک کشش سی پیدا ہونے کے برابر تھا۔ کبھی کبھی وہ ہمیں ان کی والدہ کے روپ میں نظر آتی ہیں، تو کبھی سب سے قریبی دوست بن جاتی ہیں۔ ایک دو خطوط میں وہ لکھتی ہیں: ‘تمھیں یہ معلوم نہیں میرے لیے تمھارے کیا معنی ہیں۔‘
بعض خطوط کے آخر میں تین X بناتی تھیں جو بوسے کی نشانی خیال کیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ بات بہت دلچسپ لگی کہ ایک مہارانی ایک معمولی سے شخص کے لیے کھلے عام خط لکھتی تھیں۔‘
آگرہ کی جیل میں کلرک
کریم کو آگرہ سے ملکہ وکٹوریہ کی خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی وہ ’کچن بوائے‘ کی فہرست سے نکل کر مہارانی کے منشی بن گئے۔
شربانی بتاتی ہیں: ’کریم کی کہانی بے حد دلچسپ ہے۔ وہ آگرہ کی جیل میں کلرک کی ملازمت کرتے تھے۔ ان کی سالانہ تنخواہ 60 روپے تھی۔
ان کے والد بھی جیل میں حکیم تھے۔ جب مہارانی کی سلور جوبلی کی تقریب کا وقت قریب آیا تو آگرہ کی جیل کے سپرنٹینڈنٹ نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع پر مہارانی کو ایک تحفہ بھیجا جائے۔ انھوں نے مہارانی کو آگرہ سے دو ملازم بھیجے۔
ان کے لیے خاص قسم کی سلک کی وردیاں سلوائی گئیں اور پگڑیاں پہنائی گئیں تاکہ وہ دیکھنے میں تھوڑے الگ سے لگیں۔ لیکن مہارانی نے عبدالکریم کو زیادہ پسند کیا اور وہ جلد ہی ان کے بے حد قریب ہوگئیں۔‘
عبدالکریم نے مہارانی وکٹوریہ کو اردو سکھائی
ملکہ وکٹوریہ عبدالکریم سے اتنا متاثر ہوئیں کہ انھوں نے ان سے کہا کہ مجھے اردو زبان سکھاؤ۔ کریم اس کے بعد رانی کی نوٹ بک میں اردو کی ایک لائن لکھ دیتے اور اس کے بعد اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرتے اور پھر اسی لائن کو رومن سکرپٹ میں لکھتے تھے۔ مہارانی وکٹوریہ اس کو ہو بہو لکھتیں اور اس کا مطالعہ کرتیں۔
شربانی بسو بتاتی ہیں،’مہارانی واقعی میں اردو سیکھنے کی خواہش مند تھیں۔ کریم ان کے استاد بن گئے اور انھوں نے 13 برسوں تک اردو کی تعلیم دی۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ مہارانی وکٹوریہ اردو لکھنا اور پڑھنا بخوبی جانتی تھیں اور انھیں اپنی اس کامیابی پر بہت فخر تھا۔
یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انھوں نے ایک نئی زبان سیکھنے کی کوشش کی اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔
چاہے وہ سفر پر ہوں یا چھٹیاں منا رہیں ہوں، وہ اردو کا سبق حاصل کرنا نہیں بھولتی تھیں۔ ہر رات سونے سے پہلے اردو زبان کی مشق ضرور کرتی تھیں
ایک سال کے اندر اردو زبان میں مہارت
مہارانی کی اردو زبان سے محبت اور اس پر مہارت حاصل کرنے پر یونیورسٹی آف لندن کے پروفیسر ہمایوں انصاری نے طویل مدتی تحقیق کی ہے۔
پروفیسر انصاری بتاتے ہیں: ’مہارانی اپنی ڈائری میں اردو لکھتی تھیں۔ ‘آج کا دن بہت اچھا رہا’۔ رانی کی تحریر میں روانی اور جوش تھا۔ وہ ایک ایسی زبان کے ایک پہلو پر مہارات حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھیں جس سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اردو سیکھنے اور اس میں مہارات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ انھوں نے جو کامیابی حاصل کی اس سے میں بے حد متاثر ہوں۔ خاص طور پر اس حقیقت پر کہ انھوں نے ایک سال پہلے ہی یہ زبان سیکھنی شروع کی تھی۔‘
رانی کو چکن کری کھانے کی عادت ڈالی
اس دوستی کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ انگلینڈ میں پہلے سے ہی بہت مقبول انڈین کھانا چکن کری مزید مقبول ہوگیا۔ کریم نے رانی کے لیے چکن کری، دال اور پلاؤ بنایا۔
مہارانی وکٹوریہ نے 20 اگست 1887 کو اپنی ڈائری میں لکھا ’آج میں نے اپنے انڈین نوکر کے ہاتھوں بنی چکن کری کھائی۔‘ لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا جب مہارانی وکٹوریہ نے چکن کری کا لطف اٹھایا تھا۔
برطانیہ کی معروف تاریخ داں اینی گرے اپنی کتاب ’دا گریڈی کوئین: ایٹنگ ود وکٹوریہ‘ میں لکھتی ہیں: ’ایسا نہیں تھا کہ کریم سے پہلے رانی وکٹوریہ نے پہلے کبھی چکن کری نہیں کھائی تھی۔ 29 دسمبر کو ونڈسر کاسل کے مینیو میں curry de Poulet (کری دا پولے) کا ذکر ملتا ہے۔
لیکن اس کری میں اور کریم کی پکائی ہوئی کری میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اس کری میں پھلوں، ہلدی اور بالائی کا استمعال ہوتا تھا۔
اس زمانے میں بچے ہوئے گوشت اور سبزیوں کو ملاکر سالن بنایا جاتا تھا اور اسے بہت اعلٰی معیار کا کھانا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن کریم کے آنے کے بعد بھارتی خانسامے سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کرنے لگے تھے۔‘
سل بٹے پر پیسے جاتے تھے مصالے
اینی گرے مزید لکھتی ہیں: ’وہ حلال گوشت استعمال کرتے تھے۔ وہ باورچی خانے میں موجود کسی بھی مصالے کا استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ انڈیا سے لائے گئے مصالوں کو سل بٹے پر پیستے تھے۔
1880 کی دہائی میں ہفتے میں دو روز مہارانی کے لیے سالن بنایا جاتا تھا۔ اتوار کو دوپہر کے کھانے میں اور منگل کو ڈنر میں۔ کریم کے کہنے پر انھوں نے بھارت سے آم منگوایا تھا لیکن جب تک وہ آم ان کے پاس پہنچا وہ سڑ چکا تھا۔‘
انڈیا کی تصویر رانی کے دل میں اتاردی
اس کے علاوہ کریم نے مہارانی کے دل میں انڈیا کی ایک خاص تصویر بنانی شروع کردی تھی۔ کہنے کو تو وکٹوریہ ملکۂ ہندوستان تھیں لیکن انھیں کھبی انڈیا جانے کا موقع نہیں ملا تھا کیونکہ وہ سمندر کے ذریعے سفر نہیں کر سکتی تھیں۔
شربانی بسو بتاتی ہیں کہ ’انڈیا رانی کے تاج کا ہیرا تھا۔ لیکن انھیں کبھی وہاں جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ انھیں انڈیا کے بارے میں بہت تجسس تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ انھیں بتایا جائے کہ انڈیا کی سڑکوں پر کیا ہورہا ہے؟ کریم نے ان کی یہ خواہش پوری کی۔ انھوں نے انڈیا کی روح کو ان تک پہنچایا۔ انھوں نے بھارت کی گرمی، دھول، تہواروں اور یہاں تک کہ وہاں کی سیاست کے بارے میں بھی رانی کو بتایا۔ کریم نے انھیں ہندو مسلم فسادات اور اقلیت کے طور پر انڈیا میں مسلمانوں کو در پیش مسائل سے آگاہ کیا۔ ان معلومات کی بنیاد پر ہی رانی وکٹوریہ نے وائسرائے کو خط لکھ کر ان سے کچھ سوالات کے جواب طلب کیے۔‘
ملکہ وکٹوریہ کریم سے ملاقات کرنے ان کے گھر جاتی تھیں
ملکہ وکٹوریا سے عبدالکریم کی قربت بہت بڑھ گئی تھی اور وہ ان کے ساتھ سائے کی طرح رہنے لگے تھے۔ ایک بار جب وہ بیمار پڑے تو رانی شاہی ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر گئیں۔
رانی کے ڈاکٹر سر جیمز ریڈ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں: ’جب کریم بستر سے بھی نہیں اٹھ پارہے تھے تو ملکہ وکٹوریا ان کی عیادت کے لیے دن میں دو بار ان کے گھر جانے لگیں۔ وہ اپنا بستہ بھی ساتھ لے جاتی تھیں تاکہ بستر پر لیٹے لیٹے کریم انھیں اردو پڑھا سکیں۔ کبھی کبھی تو میں نے ملکہ کو ان کا تکیہ بھی ٹھیک کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ رانی کی خواہش تھی کہ مشہور مصور وون اینجیلا کریم کی تصویر بنائیں۔ انھوں نے اپنی بیٹی وکی سے کہا اینجیلا کریم کی تصویر بنانا چاہتی ہیں کیونکہ اس سے پہلے انھوں نے کبھی بھی کسی انڈین شخص کی تصویر نہیں بنائی۔‘
آگرہ شہر میں 300 ایکڑ کی جاگیر
ملکہ وکٹوریہ عبدالکریم سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انھوں نے انھیں آگرہ شہر میں 300 ایکڑ کی جاگیر دلوائی اور برطانیہ میں اپنے تینوں شاہی محلوں میں الگ الگ گھر دلوائے۔ انھيں اپنے سینے پر میڈل لگا کر چلنے اور تلوار رکھنے کی اجازت دی گئی۔ مہارانی کے کہنے پر کریم کے حکمت کا کام کرنے والے والد کی پینشن مختص کرائی گئی۔
ملکہ کے ڈاکٹر مزید لکھتے ہیں کہ ’جب منشی کے والد ان کے پاس برطانیہ آئے ان کی آمد سے ایک ماہ قبل ملکہ نے ایلیکس پروفٹ کو حکم دیا کہ ان کے کمرے کو اچھے طریقے سے سجایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے کمرے میں سینٹرل ہیٹنگ ٹھیک طریقے سے کام کر رہی ہو۔ منشی کے والد ونڈسر محل میں حقہ پینے والے پہلے شخص تھے۔ انھیں اس کمرے میں ٹھہرایا گیا جہاں اکثر وزیر اعظم لارڈ سالسبری ٹھہرا کرتے تھے۔
ملکہ نے اپنے پوتے جارج سے خاص طور پر کہا وہ اپنے دستخط کی ہوئی تصویر کی دو کاپیاں منشی کو دے دیں تاکہ وہ ایک فوٹو اپنے والد کو بھیج دیں۔‘
شاہی محل میں بغاوت
ملکہ کی عبدالکریم سے قربت اور ان پر یقین کا یہ نتیجہ ہوا کہ شاہی محل میں سب لوگ عبدالکریم کے مخالف بن گئے اور ان کے خلاف رانی کے کان بھی بھرنا شروع کر دیے۔
شربانی بتاتی ہیں کہ ’حالات یہ ہوگئے کہ پورے شاہی محل کے عملے نے کریم کے خلاف ہڑتال کرنے کی دھمکی دے دی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملکہ اگر عبدالکریم کو اپنے ساتھ پورے یورپ کے دورے پر لے جاتی ہیں تو وہ سب اجتماعی استعفیٰ دے دیں گے۔
لیکن ملکہ نے ان کی ایک نہیں سنی۔ جب ان کو اس علم ہوا تو انھوں نے اپنی میز پر رکھی ہر چیز پھینک دی۔ بعد میں کسی نے بھی استعفیٰ نہیں دیا۔
رانی کریم کو اپنے ساتھ یورپ لے گئیں۔ کریم کو جس طرح عزت اور اہمیت دی جا رہی تھی اس کے بارے میں لوگوں کو کافی جلن ہوتی تھی۔ ان کو افسوس تھا کہ ایک معمولی سے شخص کو اتنی عزت کیوں دی جاری ہے؟‘
کیا ملکہ اور کریم کے درمیان محبت کا رشتہ تھا؟
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ملکہ وکٹوریہ اور کریم کے درمیان محبت کا رشتہ تھا؟
شربانی بسو بتاتی ہیں: ’نہیں اس کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے۔ لیکن شاہی دربار میں ان کی پیٹھ پیچھے ایسی باتیں ضرور کہی جاتی تھیں۔ ایک وہ ضرور کریم کو اکیلے ہائلینڈ کی ایک کوٹیج میں اپنے ہمراہ لے گئی تھیں۔
ان دونوں کے درمیان کوئی جسمانی رشتہ تھا یہ ہم نہیں کہہ سکتے تھے۔ یہ بات صرف وہ دونوں جانتے ہونگے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دونوں کے درمیان روحانی رشتہ ضرور تھا۔
اس کا اشارہ ہمیں ملکہ کے تحریر شدہ خطوط میں ملتا ہے۔ وہ انھیں دن میں چھ بار خط لکھتی تھیں۔ ’تم آؤ اور مجھے گڈ نائٹ کہو‘ وغیرہ وغیرہ۔ کریم ہمیشہ ملکہ کے ساتھ نظر آتے تھے۔ لوگ اس بارے میں بہت باتیں کرتے تھے۔ کریم سے پہلے جان براؤن ملکہ کے منشی ہوا کرتے تھے۔ جن سے ملکہ کی بہت دوستی تھی۔ کریم اور ملکہ کے بارے میں یہ بات کہنی درست ہوگی کہ ان کی گہری دوستی تھی۔‘
ملکہ کی وفات کے ساتھ ہی کریم کے دن پورے
22 جنوری 1901 کو جب ملکہ وکٹوریا کی وفات ہوئی تو ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے فرزند اور ان کے جانشین ایڈروڈ VII، ان کی اہلیہ رانی ایلیگزینڈر، ان کے بیٹوں، پوتوں اور ان لوگوں کو مدعو کیا گیا جو ملکہ کے بے حد قریب تھے۔
شہزادے ایڈروڈ نے عبدالکریم کو رانی کے سونے کے کمرے میں داخل ہوکر ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اجازت دی۔
لیکن ملکہ کی وفات کے کچھ دن بعد ہی عبدالکریم پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ ہر ایک خط ان کے حوالے کر دیں جو ملکہ نے انھیں لکھے ہیں۔ پھر ان کے سامنے ان خطوط کو نذر آتش کر دیا گیا۔
شربانی بسو بتاتی ہیں: ’رانی کی وفات کے بعد سارا شاہی خاندان ان پر ٹوٹ پڑا۔ ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ ان سے رانی کے سارے خطوط ضبط کر کے انہیں وہیں جلادیا گیا۔ کریم کی اہلیہ اور ان کے بھتیجے بھی وہاں موجود تھے۔ انھیں سب کے سامنے بے حد ذلیل کیا گیا۔ ان سے انڈیا واپس جانے کے لیے کہا گیا۔ ملکہ نے آگرہ میں انہیں بہت جاگیر دی تھی۔ انگلینڈ سے واپس آکر وہ وہیں رہے اور 1909 میں ان کی وفات ہوگئی
اس کے بعد آسبرن ہاؤس اور ونڈسر محل میں نہ تو پگڑیاں نظر آئیں اور نہ ہی شاہی باورچی خانے میں انڈین مصالحوں کی خوشبو۔