ہم گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوشبو یا پرفیوم کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ایسا کرنے سے ہم خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں اور دوسرا ملنے والوں پر بھی اس کا اچھا اثر پڑتا ہے۔
بہر حال یہ کہا جا رہا ہے کہ بو کے متعلق ہماری زندگی میں انقلاب آفریں تبدیلی رونما ہو سکتی ہے اور یہ سب مصنوعی ذہانت کے طفیل ہونے والا ہے۔
اگر ایک جانب نئی خوشبوؤں کے رجحانات کی شناخت اور مصنوعات کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے تیار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر وسیع ڈیٹا اور انتہائی تیز یا سوپر کمپیوٹرز استعمال کیے جا رہے ہیں، تو دوسری جانب مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کے ذریعے بو کے متعلق انقلابی ٹیکنالوجی تیار کی جا رہی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی ایک دن بیماریوں کو ان کے ابتدائی مراحل میں سونگھ سکے گی جس سے ہمیں صحت مند رہنے اور طویل زندگی گزارنے میں مدد مل سکتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ہماری پسند کی خوشبو سے لے کر ہماری بیماری کی تشخیص تک، ہمیں کس طرح متاثر کرنے والی ہے۔
مسائل کو سونگھنا
ٹیک سٹارٹ اپ ’آری بلے‘ نے بو یا مہک کا تجزیہ کیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ ہم پر کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہیں اور وہ ہمیں ہماری صحت کے بارے میں کیا بتا سکتی ہیں۔
کسی بھی بو کا احساس اور ادراک مشکل امر ہے کیونکہ روشنی یا آواز کی ایک مخصوص ویو لینتھ (طولِ موج) ہوتی ہے جبکہ بو کی پیمائش اور مقدار کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔
اس کے بجائے فرانسیسی کمپنی سلیکون چپس پر لگے پروٹین کے ٹکڑوں کو سمجھنے کے لیے استعمال کرتی ہے جنھیں ہم سونگھ سکتے ہیں جبکہ بہت سی ایسی گیسیں جیسے آکسیجن، نائٹروجن اور کاربن مونو آکسائیڈ وغیرہ ہیں جن کو ہماری ناک نظر انداز کر دیتی ہیں۔
سی ای او سیم گیلومی کہتے ہیں کہ ’ایسے میں آپ کو مصنوعی ذہانت کی ضرورت ہے کیونکہ آپ [سائنسی طور پر] بو کو بیان نہیں کر سکتے۔ آپ مشین کو صرف یہ سکھا سکتے ہیں کہ ’یہ پنیر ہے، یہ سٹرابیری ہے، یہ رس بیری ہے۔‘
یہ ٹیکنالوجی ان جگہوں کی نگرانی میں کردار ادا کر سکتی ہے جہاں ہم وقت گزارتے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ لوگوں سے بھرا ماحول خوشگوار ہو اور یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں لوگ وبائی بیماری کے بعد زیادہ حساس ہوئے ہیں۔
خوشبو کا پتہ لگانا گھر کے قریب ہونے کا بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔ کئی برسوں سے اس بات کا علم ہے کہ کچھ بیماریوں کا پتہ بو سے لگایا جا سکتا ہے اور ہیلسنکی ایئرپورٹ نے مسافروں میں کووڈ کیسز کی شناخت کے لیے کتوں کا استعمال کرتے ہوئے پچھلے سال ایک تجربہ کیا تھا۔
یہ تصور ایسی مصنوعات کا باعث بن سکتا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہماری صحت کی نگرانی کرے تاکہ بیماری کی ابتدائی علامات کا بروقت پتا لگایا جا سکے۔
گیلومی کا کہنا ہے کہ ‘ہو سکتا ہے کہ جب میں اپنے دانتوں کو برش کروں تو میرے برش میں ایک اولف ایکٹو [بو] سینسر لگا ہو تاکہ وہ میری صحت کا جائزہ لے سکے۔ یہ سینسر کہہ سکے گا کہ یہ ذیابیطس کا نشان ہے۔۔۔ اور یہ کینسر کی آہٹ ہے۔’
بیماری کا جلد پتا لگانا اور کسی بھی سنگین علامت کے ظاہر ہونے سے بہت پہلے اس کے علاج سے بڑے پیمانے پر اس بات کے امکانات بہتر ہوں گے کہ کسی صورت حال سے بہتر طور سے کیسے نمٹا جائے۔
گیلومی کا خیال ہے کہ اے آئی سے چلنے والے سمارٹ ٹولز جیسے ڈائیگناسٹک ٹوتھ برش بس آنے ہی والے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ’اگر‘ کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ ’کب‘ کا سوال ہے۔‘ یعنی یہ کب آئے گا
اے آئی کو نئی خوشبو بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
ماریہ نوراسلامووا کہتی ہیں کہ ’میں چار سال کی عمر سے ہی پرفیوم کی دیوانی رہی ہوں، جو کہ شرمناک حد تک قبل از وقت بات ہے۔ میں اپنی ماں کی خوشبو چوری کرتی تھی اور ہر بار انھیں اس کا پتا چل جاتا تھا۔‘
پرفیوم کی اس ابتدائی محبت نے نوراسلامووا کو ایک امریکی سٹارٹ اپ کمپنی سینٹ برڈ کی شریک بانی بنا دیا اور یہ کمپنی ہر مہینے میں صارفین کو ایک مختلف اعلیٰ درجے کی خوشبو بھیجتی ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لیکن ٹیکنالوجی ایک دوسرا جنون ہے۔‘
جب کمپنی یونیسیکس یعنی مردوں اور خواتین دونوں کے لیے کوئی نئی خوشبو لانچ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو ان کی کمپنی اپنی تین لاکھ صارفین کی پسند کا تجزیہ کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتی ہے۔
نوراسلامووا کا کہنا ہے کہ انھیں جس مسئلے کے حل کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس زمرے میں زیادہ تر خوشبوئیں ایک صنف کو پسند آتی ہیں تو دوسری جنس اسے محض برداشت کرتی ہیں۔
وہ وضاحت کرتی ہیں کہ صنفی طور پر غیر جانبدار ہونا مشکل ہے لیکن ان کی تحقیق نے 12 ایسی خوشبوؤں کی نشاندہی کی ہے جن کی دونوں صنفوں نے یکساں تعریف کی ہے۔
نوراسلامووا کہتی ہیں: ’میں اسے کامیابی گردانتی ہوں کیونکہ ’کنفیشن آف اے ریبل‘ گوچی یا ورساچے جیسا مشہور برانڈ نہیں لیکن یہ اس کی زبردست کامیابی تھی۔ میں اس کا سہرا ڈیٹا کو دوں گی جو اس کی تیاری میں استمعال ہوا۔‘
سینٹ برڈ اپنی تحقیق کو مزید مصنوعات تیار کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے پرفیومز کی فہرست میں رواں برس دو نئے پروفیومز کا اضافہ ہونے والا ہے۔‘
لیکن یہ صرف کاروبار ہی نہیں جو مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت ہمارے سونگھنے کے طریقوں کو بھی بدل رہی ہے۔
جذباتی اثر
انٹرنیشل فلیورز اینڈ فریگرینس (آئی ایف ایف) بھی پرفیومز تیار کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کی مدد لیتی ہے۔ لیکن وہ اس کی گہرائی میں کر اس بات کا بھی جائزہ لیتی ہے کہ خوشبو ہمیں کیسے متاثر کرتی ہیں۔
آپ اس ملٹی نیشنل کا نام دکانوں میں نہیں دیکھتے۔ آئی ایف ایف پس منظر میں رہ کر ارمانی، کیلون کلائن اور گوچی جیسے بڑے برینڈز کے ساتھ کام کرتی ہے۔
آئی ایف ایف کے پاس پرفیوم سازی کا تقریباً ایک صدی کا تجربہ ہے لیکن اکثر پرفیوم تیار کرنے کے مرحلے میں خوشبوؤں کے 2000 اجزا کے ذخیرے میں سے صرف 60 سے 80 اجزا کو شامل کیا جاتا ہے۔
آئی ایف ایف کے گلوبل ہیڈ ویلری کلاؤڈ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت گوگل نقشوں کی طرح ایک آلہ ہے جس کے ذریعے آپ پرفیومز کی پیچیدہ دنیا میں آگےبڑھ کر ہنر پر توجہ دے کر اس میں جذبات ڈال سکتے ہیں۔
آئی ایف ایف کا کام صرف پرفیومز تک محدود نہیں بلکہ روز مرّہ معاملات میں بھی اس کا کردار ہے جیسے واشنگ پاؤڈر، شیمپو، فیبرک سافنٹر کی خوشبو کیسی ہے۔
’لوگ کیا چاہتے ہیں، کووڈ کی وبا نے اسے بدل کر رکھ دیا ہے۔‘
ویلری کلوڈ کہتے کہ بات اب صاف اور تازہ سے آگے بڑھ چکی ہے۔ ’لوگ مصنوعات میں احتیاط اور تحفظ جیسے عنصر چاہتے ہیں۔ وہ اطمینان محسوس کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے تحفظ میں دلچپسی لے رہا ہو۔‘
ان کی کمپنی کی توجہ اب اس نکتے پر مرکوز ہے کہ خوشبو لوگوں کے موڈ اور سوچ پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔
’سائنس آف ویلنیس‘ پروگرام کا مقصد مصنوعی ذہانت کو استعمال کر کے ایسی خوشبو کی تیاری ہے جسے لگا کر لوگوں کو خوشی، آرام ، ذہنی تسکین اور خود اعتمادی کا احساس ہو۔
ان کی تحقیق میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اعصابی مسائل میں خوشبو سے کیسے مدد مل سکتی ہے۔