تحریریں

مستقبل کے عمارت نما جدید شہروں میں زندگی کیسی ہو گی؟

سائنسی کہانیوں میں اب ایسے فصیل بند شہروں کو مستقبل کی آبادیاں دکھایا جا رہا ہے جو ماحول، توانائی، خوراک اور پانی سمیت تمام ضروریات زندگی کے معاملے میں خودکفیل ہیں۔

’آرکولوجی‘ نامی یہ تصور سب سے پہلے ماہر تعمیرات پاولو سولیری نے سنہ 1969 میں پیش کیا تھا اور یہ تصور پیش کرنے کے ایک سال بعد اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے امریکہ میں ایک تجرباتی قصبے پر کام کا آغاز کیا۔

اس تصور سے ہی مستقبل کے شہروں پر مبنی سائنسی کہانیاں بنیں جہاں رہائشیوں کو کام سمیت کسی بھی چیز کے لیے عمارت نما شہر سے باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

ایسی کہانیوں پر بنی ہالی وڈ فلمیں ’ڈریڈ‘ اور ’سکائی سکریپر‘ اس کی مثالیں ہیں۔ ان سائنسی کہانیوں سے متاثر ہو کر چند حقیقی شہر بھی بن سکتے ہیں

سعودی عرب میں مجوزہ سمارٹ سٹی ’دی لائن‘ ایسا ہی ایک منصوبہ ہے جس کے تحت ایک 200 میٹر چوڑا، 170 کلومیٹر لمبا اور 500 میٹر اونچا شہر بسایا جائے گا جس میں 90 لاکھ لوگ بس سکیں گے۔

یہ شہر شمسی اور ہوا کی توانائی استعمال کرے گا تاہم یہ خوراک کے معاملے میں خود کفیل نہیں ہو گا۔

آرکولوجی تصور جیسی چند عمارات پہلے ہی سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر قطب جنوبی میں تحقیقی مراکز کافی حد تک خود کفیل ہوتے ہیں جس کی وجہ ان کا ایک دور دراز علاقے میں موجود ہونا ہے۔ مکمرڈو سٹیشن میں تقریباً تین ہزار محققین اور عملے کے اراکین رہائش پذیر ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس سٹیشن کو ہر سال خوراک اور ایندھن کی وافر کی ضرروت ہوتی ہے۔

طیارہ بردار بحری جنگی جہاز، جوہری آبدوزیں اور تیل نکالنے والی سمندری عمارات بھی ایسی چند مثالیں ہیں جہاں، چاہے قلیل مدت کے لیے ہی صحیح، عملے کو دن رات رہنا پڑتا ہے۔

طیارہ بردار بحری جنگی جہاز کو ہر چند ہفتے کے بعد وسائل کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ جوہری آبدوز چار ماہ تک زیر آب رہ سکتی ہے۔ تاہم یہ رہائش کے لیے زیادہ خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا۔ خصوصاً آبدوز جہاں جگہ کم ہوتی ہے اور بدبو زیادہ، سونے کی جگہ بھی ایک سے زیادہ افراد کے لیے ہوتی ہے اور سورج کی روشنی کی کمی کی وجہ سے عملے کو وٹامن ڈی دیا جاتا ہے۔

لیکن کیا ہم آرکولوجی یعنی عمارت نما شہر بنا سکتے ہیں؟ ایسی کسی بھی عمارت کی بنیاد بہت بڑی ہونی چاہیے کہ وہ اس کے وزن کو سہارا دے سکے۔

مونیکا اینزپرجر بی ایس پی کنسلٹنگ کی سٹرکچرل انجینیئر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کچھ بھی بنا سکتے ہیں۔ بس ایسی عمارت کی بنیاد پر بہت خرچہ ہو گا۔ ‘

ایسی کسی عمارت کی تعمیر میں ایک بڑا چیلنج اس کی اونچائی کی وجہ سے ہوا کا اثر ہو گا۔ ایک عام گھر پر اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا لیکن دبئی کے برج الخلیفہ جیسی اونچی عمارت کو بناتے ہوئے ہوا کے دباؤ یعنی ورٹیکس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

جب ہوا کسی ایسی عمارت کی سطح سے ٹکراتی ہے تو دوسری جانب ایک کم دباؤ کا خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے پر کرنے کے لیے ہوا تیزی سے اس طرف کا رخ کرتی ہے۔

تیز ہوا کی اسی حرکت سے اونچی عمارات ہلتی ہیں۔ اس کی وجہ سے عمارت گر بھی سکتی ہے۔ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں 1940 میں ٹاکوما نیرو برج گر گیا تھا جب تیز ہوا سے ہلتے ہوئے زیادہ فریکوئنسی کی وجہ سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔

اس اثر کو کم کرنے کے لیے ایک آلہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عمارت کا ڈیزائن بناتے ہوئے بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ ہوا کے گزر میں کس طرح خلل پیدا کیا جائے اور اس کے دباو کو کم کیا جائے۔

برج الخلیفہ سمیت کئی ایسی اونچی عمارات کے آرکیٹیکٹ ایڈریئن سمتھ کا کہنا ہے کہ ورٹیکس کے اثر کو کم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اونچائی پر عمارت کی شکل بدل دی جائے۔

’اگر آپ عمارت کی شکل میں اونچائی کے ساتھ تبدیلی نہیں کریں گے تو ورٹیکس حرکت کی لہریں پیدا کرے گا اور وہ عمارت کے سٹرکچر سے مل کر بتدریج تباہی مچا دیں گے۔ ‘

اسی لیے ایک دیوار جیسی عمارت کی بجائے، جیسی فلم ڈریڈ میں دکھائی گئی، آرکولوجی کے تصور کے تحت ایک مختلف قسم کی عمارت بنائی جا سکتی ہے جس کی مثالیں چند قدیم تہذیوں میں موجود ہیں۔

توانائی بھی ایک بڑا چینلج ہے۔ شمسی پینل یا ہوا کی ٹربائن آرکولوجی کی بیرونی سطح پر باآسانی نصب کی جا سکتی ہیں لیکن یہ توانائی کا مکمل حل نہیں کیوںکہ یہ صرف مخصوص اوقات میں ہی موثر ہوں گی۔ اس لیے ایسی کسی بھی عمارت میں بجلی کا متبادل نظام ہونا ضروری ہو گا۔

ایسے میں جوہری ری ایکٹر ایک حل ہو سکتے ہیں۔ جدید جوہری ری ایکٹر حجم میں چھوٹے اور بجلی کی پیداوار کے لیے بہتر ثابت ہوئے ہیں جن کو ایس ایم آر کہا جاتا ہے۔ بڑے ری ایکٹر کے مقابلے میں یہ زیادہ محفوظ ہوتے ہیں اور جوہری مواد کی چوری روکنا بھی آسان ہوتا ہے۔ تاہم جوہری فضلے کی سٹوریج ایک چیلنج ہو گا۔

خوارک کی پیداوار بھی اہم ہے۔ کاشتکاری کے روایتی طریقے ایسی کسی بھی عمارت میں ناممکن ہوں گے تاہم ایسے طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں جن کو ورٹیکل ہائیڈروپونک فارمنگ کہا جاتا ہے۔ ان کی مدد سے ہوا بھی ترو تازہ رہ سکتی ہے۔ تاہم ان کو روشنی کی ضرورت ہو گی جس سے توانائی کی طلب بڑھے گی اور جگہ کی کمی درکار خوارک کی پیداوار مشکل بنا سکتی ہے۔

پاولو بچیگالوپی کے ناول ’واٹر نائف‘ میں جس آرکولوجی کا تصور پیش کا گیا اس میں پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا گیا جو حقیقت میں ممکن ہے۔ تاہم ایسے کسی بھی نظام میں پانی کی مقدار بتدریج کم ہو گی۔

یاد رہے کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر روزانہ دوبارہ استعمال کے قابل 17 لیٹر پانی بنایا جاتا ہے جس میں پیشاب اور پسینہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود چند ماہ بعد اس سٹیشن کو تازہ پانی کی فراہمی کی جاتی ہے۔

بلند و بالا عمارات کا مستقبل سب کے لیے ایک جیسا نہیں ہے۔ سنہ2021 میں چین نے 500 میٹر سے اونچی عمارات پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ 250 سے اونچی عمارات پر بھی کافی پابندیاں ہیں۔

تاہم زمین کی ہر لمحہ بڑھتی آبادی نے کہیں تو بسنا ہے۔ نئی زمین پر شہروں کو وسعت دینا کب تک ممکن ہو گا؟ یہی سوال ہے جو اونچائی کی جانب شہروں کو وسعت دینے کے تصور کو مضبوط کرتا ہے۔

انتونی ووڈ الینوئے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’شہر بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں، دس لاکھ سے ایک کروڑ کی آبادی ہو رہی ہے۔ ‘

’اب وہ مزید نہیں پھیلائے جا سکتے کیونکہ یہ پائیدار نہیں، زمین کے استعمال کے لیے، اور ان شہروں کو بنانے اور چلانے کے لیے درکار توانائی کی وجہ سے۔ اب اونچائی کی جانب جانا ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیں