تحریریں

مرتے وقت دماغ میں کیا ہوتا ہے؟

مرتے وقت کسی کے دماغ میں کیا ہوتا ہے؟

اس حوالے سے کسی کے پاس بھی صحیح معلومات نہیں ہیں۔ سائنسدانوں کو کچھ معلومات ضرور ہے لیکن یہ سوال پھر بھی ایک راز ہی ہے۔

تاہم بعض سائنسدانوں نے حال ہی میں ایک تحقیق کی ہے جس سے نیورو سائنس کے بارے میں دلچسپ معلومات ملتی ہے۔

یہ تحقیق جینز ڈرائر کی سربراہی میں کام کرنے والے برلن اور اوہائیو کی سنسناٹی یونیورسٹی اور چیریٹی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کی ہے۔

اس کے لیے سائنسدانوں نے بعض مریضوں کے اعصابی نظام کی انتہائی قریب سے نگرانی کی ہے، اور اس کے لیے انھوں نے ان مریضوں کے خاندان والوں سے پیشگی اجازت لی تھی۔

یہ افراد یا تو کسی شدید سڑک حادثے میں زخمی ہو گئے تھے یا پھر انھیں دل کا دورہ پڑا تھا۔

سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ موت کے وقت انسانوں اور جانوروں کا دماغ ایک ہی طرح کام کرتا ہے۔

اس تحقیق کا اہم مقصد مرتے وقت نہ صرف دماغ کی نگرانی کرنا تھا بلکہ یہ جاننے کی کوشش بھی کرنا تھا کہ کیسے کسی کو اس کی زندگی کے آخری لمحات میں بچایا جا سکتا ہے

جو ہم پہلے سے جانتے ہیں۔۔۔

سائنسدانوں کی اس تحقیق سے پہلے ’مردہ دماغ‘ کے بارے میں جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں وہ سب معلومات جانوروں پر کیے جانے والے تجربات سے حاصل کردہ ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ مرتے وقت:

  • جسم میں خون کی گردش رک جاتی ہے اور اس کی وجہ سے دماغ میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے۔

  • یہ صورتحال جسے سریبرل اسکیمیا کہا جاتا ہے، میں کیمیائی اجزا کم ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے دماغ میں ’الیکٹریکل اکٹیویٹی‘ مکمل طور پر خارج ہو جاتی ہے۔

  • ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ دماغ کو ٹھنڈا کرنے کا یہ عمل نیورونز کے اپنی توانائی کو محفوظ کرنے کی وجہ سے شروع ہوتا ہے، لیکن توانائی کو محفوظ بنانے سے کام نہیں ہوتا کیونکہ مرنے کا ڈر پھر بھی رہتا ہے۔

  • اس سب کے بعد ٹیشو ریکوری ناممکن ہو جاتی ہے۔

    انسانوں میں:

    تاہم سائنسدانوں کی یہ ٹیم اس سارے عمل کو انسانوں کے حوالے سے مزید گہرائی میں جا کر سمجھنا چاہتی تھی۔

    لہذا انھوں نے بعض مریضوں کے دماغ کی اعصابی سرگرمیوں کی نگرانی کی۔ ڈاکٹروں کی طرف سے ہدایات دی گئیں تھی کہ ان مریضوں کو الیکٹروڈ سٹرپس وغیرہ کی مدد سے ہوش میں لانے کی کوشش نہ کی جائے۔

    سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ نو میں سے آٹھ مریضوں کے دماغ کے خلیے موت سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھیں معلوم ہوا کہ دماغ کے خلیے اور نیورونز دل کی دھرکن رک جانے کے بعد بھی کام کر رہے تھے۔

    اس کے لیے خلیے گردش کرنے والے خون کا استمعال کرتے ہیں اور اس سے کیمیکل انرجی اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق جب جسم مر جاتا ہے اور دماغ میں خون کا بہاؤ رک جاتا ہے تو مرنے والے نیورون بچی توانائی کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    الیکٹرو میکینیکل توازن کی وجہ سے دماغ کے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے تھرمل انرجی نکل جاتی ہے اور اس کے بعد انسان مر جاتا ہے۔

    لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ موت آج جتنی طاقتور ہے ضروری نہیں کہ مستقبل میں بھی اتنی ہی ہو۔

    جینز ڈرائر کا کہنا ہے کہ ’ایکسپینشنل ڈی پولارائزیشن سیلولر ٹرانسفارمیشن شروع کرتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہ موت نہیں، کیونکہ انرجی کی سپلائی کو بحال کر کے ڈی پولارائزیشن کو الٹ کیا جا سکتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں