، فیصل آباد آبادی کے لحاظ سے پاکستان تیسرا بڑا شہر ہے۔
یہ ضلع، فیصل آباد، سمندری، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ اور چک جھمرہ کی پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔
اس ضلع کے شمال میں حافظ آباد اور شیخوپورہ، مشرق میں ننکانہ اور ساہیوال، جنوب میں ساہیوال اوکاڑہ، مغرب میں جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع واقع ہیں۔ ماضی میں یہاں بے آب و گیاہ تھا اور ہرسُو جنگل پھیلے ہوئے تھے۔
سب سے پہلے 1890ء میں جنگل کی کٹائی کرکے موجودہ گھنٹہ گھر کی جگہ کنواں بناکرشہر کی بنیاد رکھی گئی،قدیم باسیوں کو جانگلی کہا جاتاہے،کہیں کہیں دیہاتی زندگی کے آثار تھے جیمس لائل نے پکی ماڑی سے جنوب مغرب کی طرف تھوڑے فاصلے پریہ نیا شہر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔
کہیں کہیں دیہاتی زندگی کے آثار تھے۔
جن کے باسیوں کو جانگلی کہا جاتا تھا۔
اِسے ساندل بار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ساندل بار کی تہذیبی اور معاشرتی روایات اگرچہ اپنے پس منظرمیں ہزاروں برس کی طویل تاریخ رکھتی ہیں لیکن ایک صدی پہلے تک اس ضلع کا شمار برصغیر پاک و ہند کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا تھا۔
ساندل بار کی وجہ تسمیہ کے متعلق تین مختلف روایتیں ہیں۔
ایک یہ کہ دُلاّ بھٹی کے دادا کا نام بجلی خان عرف ساندل تھا، دوسری شاہکوٹ کی پہاڑیوں کے ڈاکو سردار کا نام بھی ساندل تھا اور تیسری یہ کہ جنگل کے چوہڑوں کے سردار کا نام چوہڑ خان عر ف ساندل تھا۔
ان تین میں سے کسی ایک کے نام پر یہ علاقہ ساندل بار مشہور ہوا۔
1885ء میں لیفٹیننٹ گورنر مسٹر جیمس لائل نے لاہور سے جھنگ شہر کی طرف سفر کرتے ہوئے تحصیل چنیوٹ میں شامل ساندل بار کے بے آباد مگر سرسبز و شاداب علاقے میں پکی ماڑی کے ایک گاؤں میں پڑاؤ کیا۔
ایک نوجوان انگریز انجینئر کیپٹن نیگ بھی اس کے ساتھ تھا۔
جیمس لائل نے پکی ماڑی میں چند روز کے قیام کے دوران گھوڑوں پر سوار ہو کر پکی ماڑی کے چاروں اطراف کئی کئی میل تک سفر کر کے اس علاقے کو دیکھا۔
کنوؤں کا پانی چکھ کر دیکھا۔
کئی کئی میل کے فاصلے پر مقامی لوگوں نے کچے مکانوں پر مشتمل اپنے گھر تعمیر کر رکھے تھے۔
جیمس لائل نے ساندل بار کے اس علاقے کو زرخیزی کے باعث اس کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس غرض سے پکی ماڑی سے جنوب مغرب کی طرف تھوڑے فاصلے پر نئے شہر کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ شہر کی تعمیر سے پہلے نہر رکھ برانچ کی تعمیر کا آغاز ہوا۔
دیہات بندی اور سڑکوں کی تعمیر شروع ہوئی۔
سانگلہ ہل سے شور کوٹ تک ریلوے لائن بچھانے کا اہتمام ہوا اور اس طرح دیہات بندی اور مختلف دیہات میں مشرقی پنجاب کے د یہات سے لوگوں کو زرعی رقبوں کی الاٹمنٹ کے منصوبے پر کام ہوتا رہا۔ سب سے پہلے 1890ء میں جنگل کی کٹائی کرکے موجودہ گھنٹہ گھر کی جگہ کنواں بنایا گیا اور اسلامی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق شہر کی بنیاد رکھی گئی اور 1892ء میں نہر لوئر چناب کی تکمیل کے بعد بندوبست کا آغاز ہوا۔
1895ء میں ریلوے کا آغاز ہوا۔ 1899ء میں ٹوبہ ٹیگ سنگھ اور 1900ء میں خانیوال تک اسے ملا دیا گیا۔
1894ء میں کہ جب شہر کی کچھ آبادیاں بھی معرضِ وجود میں آ چکی تھیں اور دفاتر بھی بن چکے تھے تو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز بی لائل نے چک ۲۱۲ کا سنگ بنیاد رکھا۔
اس کی چار ایکڑ زمین کو لائل پور کا نام دیا گیا۔
لائل پور کے کالونائزیشن آفیسر سر کیپٹن پونام ینگ نے یونین جیک کی طرز پر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کا نقشہ لائلپور کے لیے بنایا۔
۱۸۹۷ءمیں قیصری دروازے کی تعمیر ہوئی۔
یہ دروازہ لالہ موہن لعل خلف بہاری لعل نے ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔
قیصری گیٹ سے تقریباً ایک سو پچاس فٹ کے فاصلے پر گومٹی تعمیر کی گئی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کئی سالوں تک یہ گومٹی مسافر خانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔
اس کے اطراف میں ’’برکت دریائے چنا ںدی‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔
لائلپور کے آٹھ بازار اور ان آٹھ بازاروں کے دامن میں رہائشی مکانات 1898ء تک تعمیر کے مراحل میں تھے۔
ان بازاروں کے عین وسط میں گھنٹہ گھر تعمیر ہوا۔
اس کا افتتاح 14 نومبر 1903ء کو سر چارلس رواز گورنر پنجاب نے کیا۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر کے لیے حکومت نے زمینداروں پر دو ٹکے کے حساب سے ٹیکس عائد کیا تھا۔
اس پر کل چالیس ہزار روپے خرچ ہوا تھا۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر انگریزی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔
اس کے چاروں طرف ریل بازار، جھنگ بازار، کچہری بازار، چنیوٹ بازار، بھوانہ بازار، امین پور بازار، منٹگمری بازار اور کارخانہ بازار تعمیر ہوئے۔
ان آٹھ بازاروں میں سے چار کُشادہ اور چار ذرا تنگ ہیں۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر تاج محل آگرہ بنانے والے معماروں کے خاندان کے ایک شخص "گلاب خان” کی نگرانی میں ہوئی۔
گھڑیال بمبئی کے ایک گھڑی ساز نے فراہم کیا تھا۔
شہر کا ڈیزائن ڈسمنڈ ینگ نے بنایا مگر،
ڈیزائن کو اصل صورت سر گنگا رام نے دی۔
پہلی بستی ڈگلس پورہ تھی ۔
لائلپور کو 1899 ء میں درجہ دوم کی میونسپلٹی کا درجہ دیا گیا۔ 1904ء میں اس کو میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔
کمیٹی کی حدود 1914۰ ایکڑ اراضی ، شہر کی آبادی 9 ہزار اور ایک اینگلو ورنیکلر سکول تھا۔
اس وقت لائلپور تحصیل کی حیثیت سے ضلع جھنگ میں شامل تھا۔ 1904ء میں اسے ضلع کا درجہ دے کر سمندری ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور لائلپور کی تحصیلیں شامل کی گئیں جبکہ جڑانوالہ کو سب تحصیل کا درجہ دیا گیا۔
بعد ازاں جڑانوالہ کو بھی تحصیل کا درجہ حاصل ہو گیا۔
قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ 1979ء میں ضلع بنا دیا گیا تو ضلع لائلپور کی حدود کم ہو گئیں۔
ضلع کی بیس لاکھ ایکڑ اراضی بحساب کسان ایک مربع کاشتکار چار پانچ مربع اور زمیندار چھ سے بیس مربع تک تقسیم کی گئی۔
شہری اراضی ایک روپیہ فی مرلہ تک فروخت کی گئی۔
شہر میں زرعی تعلیم اور تحقیق کے فروغ کیلئے 1904ء میں زرعی کالج کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔
کالج کی عمارت 1909ء میں مکمل ہوئی جس کو پنجاب ایگریکلچرل کالج اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا نام دیا گیا اور بعد میں 1941ء میں اسے مغربی پاکستان زرعی یونیورسٹی اور ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے قیام کی صورت میں زرعی تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لیے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
1910ء میں یہاں پرائمری سکول قائم ہوا جو آج کل ایم سی ہائی سکول علامہ اقبال ٹاؤن ہے۔
1911ء میں لائلپور کی آبادی 11 ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور یہاں 11 جننگ فیکٹریز تھیں۔
1912ء میں کارونیشن لائبریری کا قیام ہوا جو موجودہ علامہ اقبال لائبریری ہے۔1934ء میں طلباء و طالبات کے کالجز وجود میں آئے۔
1933ء میں لڑکوں کے کالج اور 1938ء میں لڑکیوں کے کالج کو ڈگری کا درجہ حاصل ہوا۔
اب لڑکوں کا کالج یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد یہاں جتنے سکھ اور ہندو آباد تھے، یہ سب نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ جالندھر، ہوشیار پور اور امرتسر وغیرہ کے علاقوں سے مسلمان آ کر آباد ہوئے۔ یوں شہر اور علاقے کی تہذیب و ثقافت نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے جناح کالونی کی جگہ میلہ منڈی مویشیاں کے لیے مخصوص تھی۔
اسے 1950ء کے عشرے میں سمندری روڈ پر موجودہ "علاقہ اقبال کالونی” والی جگہ پر منتقل کیا گیا اور 1970۰ء کے عشرے میں اس سے آگے موجودہ بائی پاس کے پہلو میں منتقل کر دیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد غلہ منڈی کو کارخانہ بازار اور ریل بازار کے درمیان سے نکال کرڈجکوٹ روڈ پر منتقل کر دیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے وقت شہر کی آبادی آٹھ بازاروں سے باہر سنت پورہ، پرتاب نگر، ہرچرن پورہ، گورونانک پورہ، ماڈل ٹاؤن اور پکی ماڑی کے عقب میں طارق آباد کی کالونیوں تک پھیل چکی تھی۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نہر رکھ برانچ کے دوسری طرف دیگر رہائشی علاقے تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔
1977ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید کئے گئے تو حکومت پاکستان نے اظہار یکجہتی کیلئے شہر کا نام لائلپور سے تبدیل کرکے فیصل آباد رکھ دیا۔
1971ء میں اسے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا اور اس میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ کے اضلاع شامل کئے گئے۔
2000 ء میں نئے ضلعی نظام کے قیام کے ساتھ ہی ڈویژنز ختم کر دی گئیں۔
2008ء میں ایک بار پھر ڈویژنوں کو بحال کر دیا گیا تو فیصل آباد ڈویژن بھی دوبارہ قائم ہو گئی۔
1959ء میں یہاں ٹیکسٹائل کالج اور اقبال اسٹیڈیم تعمیر ہوئے۔
1967ء میں ملت کالج اور ایئرپورٹ بنے۔
1973ء میں پنجاب میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔
1974ء میں چیمبر آف کامرس اور پنجاب بیوریج کمپنی، 1975ء میں زرعی ترقیاتی کارپوریشن بینک اور 1976ء ایف ڈی اے اور واسا کا قیام عمل میں آیا۔
1980ء میں پاکستان ٹیلی ویژن ری براڈ کاسٹنگ کا آغاز ہوا۔
1983ء میں شہر کی آبادی 15 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔
آج یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے۔
زرعی یونیورسٹی ، نیاب ، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ، بنجی اور فاریسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ، گٹ والا کی وجہ سے اسے سائنس سٹی بھی کہا جاتا ہے۔
یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔
اس کی یارن مارکیٹ ایشیاء کی سب سے بڑی یارن مارکیٹ ہے۔
ضلع بھر میں تقریبا 400 سے زائد بڑے صنعتی کارخانے کام کر رہے ہیں۔
جن میں زیادہ تر سوتی کپڑے کے کارخانے ہیں۔
صنعت و تجارت کے لحاظ سے بھی فیصل آباد ملک میں تیسرے نمبر پر ہے۔
قیام پاکستان کے وقت یہاں دو درجن کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے تھے جن کی تعداد 1947ء میں 43 ہو گئی۔
اب صنعتی یونٹوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔
کپڑے کی صنعت کے علاوہ آٹے، پٹ سن، بناسپتی گھی، خوردنی تیل، مشروبات، شکر، پلائی ووڈ، چپ بورڈ، مصنوعی کھاد، ہوزری، نشاستہ، گلو کوز، آرٹ سلک، ٹیکسٹائل مشینری، زرعی آلات اور کلاک تیار کرنے کے بہت سے کارخانے ہیں۔
صابن سازی کی صنعت بھی خاصی عروج پر ہے۔
فیصل آباد کو قائد اعظم محمد علی جناح کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہے۔
قائد اعظم 1943ء میں تحریکِ پاکستان کے دوران یہاں تشریف لائے تھے اور دھوبی گھاٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب فرمایا تھا۔
1951 ء میں فیصل آباد کی آبادی ایک لاکھ 79 ہزار تھی۔ 1961ء میں چار لاکھ 25 ہزار، 1972ء میں آٹھ لاکھ 23 ہزار اور 1991ء میں گیارہ لاکھ چار ہزار تھی۔
فیصل آباد گو کہ ایک صدی پرانا شہر ہے اور اس کی تہذیبی جڑیں زیادہ گہری اور قدیم نہیں ہیں۔