تحریریں

سمندروں سے نیچے آسمانوں سے اوپر

سمندروں سے نیچے، آسمانوں سے اوپر!!

ہالینڈ یا نیدرلینڈ رقبے کے اعتبار سے دنیا کا 131واں ملک ہے۔ اسکا کل رقبہ 42 ہزار مربع کلومیٹر کے آس پاس ہے۔ ہالینڈ کا زیادہ تر حصہ سطح سمندر سے اوسطاً 1.5 میٹر نیچے ہیں۔ یہاں کا سب سے نچلا حصہ سطح سمندر سے نیچے تقریباً 6 میٹر ہے۔

2020 کے اعداد و شمار کے مطابق ہالینڈ کی آبادی تقریبآ پونے دو کروڑ ہے۔یہ یورپ کے بڑے ممالک میں سب سے گنجان آباد ملک ہے جہاں فی مربع کلومیٹر تقریباً 500 افراد رہتے ہیں۔
ہالینڈ کا حالیہ جی ڈی پی ہے 950 ارب امریکی ڈالر۔ خوراک کی برآمدات کے حوالے سے یہ دنیا کے پہلے چھ ممالک میں آتا ہے۔ دنیا کی خوراک اور گھریلو اشیاء کی بڑی کمپنی یونی لیور ایک ڈچ اور برطانوی کمپنی کے اشتراک سے 1929 میں قائم ہوئی۔ اسکے علاوہ بھی خوراک اور ذراعت کے دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں ہالینڈ کی ہیں۔

ہالینڈ کا قابلِ کاشت رقبہ تقریباً 18 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو اس ملک کے کل رقبے کا تقریباً آدھا ہے ۔ اس میں سے بہت سا حصہ انہوں نے سمندر کا راستہ تبدیل کر کے، نہریں بنا کر حاصل کیا ہے۔ محدود قدرتی وسائل کے باوجود یہ ملک ترقی کی دوڑ میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں آتا ہے۔ یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ متوسط طبقہ ہے۔ اور اوسطاً ایک آدمی یہاں سال میں 36 ہزار یورو کماتا ہے۔(آج کا ایک یورو 213 پاکستانی روپوں کے برابر ہے). 2020 میں ہالینڈ کی برآمدات کا حجم 670 ارب ڈالر تھا جبکہ درآمدات تقریباً 600 ارب ڈالر رہی۔ یوں کل فرق تقریباً 70 ارب ڈالر کا ہوا۔ ہالینڈ کی زراعت کے شعبے سے برآمدات 150 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

اب بات کرتے ہیں وطنِ عزیز یعنی پاکستان کی۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک۔ جسکی کل آبادی اس وقت 22 کروڑ سے اوپر ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ تقریباً 8 لاکھ 81 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ یوں یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 33 واں بڑا ملک ہے۔ اسکے ایک صوبے خیبر پختونخواہ کا رقبہ کم و بیش ہالینڈ کے رقبے کے برابر ہے جبکہ وہاں کی آبادی ہالینڈ سے دوگنی یعنی 3.5 کروڑ۔
پاکستان کی سب سے بڑی برآمدت زراعت شعبے سے ہیں جن میں گندم، چاول، گنا، کپاس اور کپاس سے وابستہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات ہیں۔
پاکستان کا جی ڈی پی تقریباً 350 ارب ڈالر ہے۔ یہ۔ہالینڈ کے جی ڈی پی سے 2.7 گنا کم ہے۔ 2021 میں پاکستانی برآمدات 34 ارب ڈالر رہیں جبکہ درآمدات تقریباً 56 ارب ڈالر۔ یوں پاکستان میں پیسہ آ نہیں بلکہ جا رہا ہے۔

پاکستان کا ہالینڈ سے موازنہ محض اس لئے کیا ہے تاکہ آپ سوچیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کسی ملک کو دنیا میں کتنا اوپر لے کر جا سکتی ہے۔ آج ہالینڈ میں شاید ہی کوئی زرعی فارم ہو جہاں خودکار مشینوں اور جدید ٹیکنالوجی سے کاشت نہ ہوتی ہو۔ فی ایکٹر پیدوارکے اعتبار سے ہالینڈ دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں آتا ہے۔ جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہماری فی ایکڑ گندم کی پیدوار پڑوسی ملک بھارت سے بھی کم ہے۔
آج کی دنیا کسی بھی ملک کے شہری کو اس ملک کی معیشت اور دنیا میں مقام کیوجہ سے عزت دیتی ہے۔ آپ بھلے ہوا میں مکے ماریں, مٹھیاں بھینچیں اور سازشی تھیوریوں کے انبار لگا کر خوش ہوں کہ دنیا آپکو پیچھے رکھنے کی کوششوں میں ہے اس لیے آپ ترقی نہیں کر رہے۔ مگر یہ سوچیں کہ دنیا آپکی کونسی صلاحیتوں سے خوف زدہ ہے؟ یہی کہ آپ سونگھ کر بتا سکتے ہیں کہ خربوزہ میٹھا ہے یا پھیکا؟ اس خود فریبی سے نکلیں گے تو کچھ سدھ بدھ آئے گی۔

کیا ہم ان خوش فہمیوں سے یہ حقیقت تبدیل کر سکتے ہیں کہ ہم روز بروز تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں۔ سوچ میں بھی اور معیشت میں بھی۔آج کی دنیا میں معیشتوں کا دارومدار سائنسی ترقی پر ہے۔مگر ہم سائنس کی دوڑ میں پیچھے جا رہے ہیں اور انسانوں پر، اُنکے دماغوں پر، اُنکی سوچ پر پیسہ لگانے کی بجائے قتل و غارت کے نئے طریقوں، جنگوں، اسلحوں، نفرتوں اور بارودوں پر پیسہ لگا کر خود کو آہستہ آہستہ مہذب دنیا سے دور کرتے جا رہے ہیں۔ یہ باتیں آپکو وہ نہیں بتائیں گے جو وطنیت کے نام پر آپکو لوٹتے ہیں۔ یہ باتیں آپکو کوئی نہیں بتائے گا کیونکہ آپکے جاہل رہنے سے بہت سوں کا فائدہ ہے۔ حال میں رہ کر اسکا تجزیہ کرنا ایک مشکل عمل ہے۔ آپکو ایک قدم پیچھے جا کر حالات کو دیکھنا ہو گا کہ کہانی شروع کہاں سے ہوتی ہے اور جا کس طرف رہی ہے۔

سائنس محض انسان کو روزمرہ کی زندگی میں سہولیات فراہم کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ ہے ہر اُس عمل، ہر اُس خیال کو پرکھنے کا جسے پہلے کبھی نہ پرکھا گیا ہو۔ یہ ایک سوچ ہے اُن وجوہات کو ڈھونڈنے کی جن سے عقل و شعور کی کسوٹی پر مسائل کے حل ممکن ہوں۔ یہ ایک خود احتسابی کا عمل ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم کتنی آسانی سے خود فریبی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے ہم خود پسندی کے فریب سے نکل کر حقیقت کا ادراک پا سکتے ہیں۔ سائنس کو جب تک سائنس نہیں رہنے دینگے، ترقی کرنا تو کجا، ترقی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکیں گے۔

ہالینڈ سمندروں سے بھلے نیچے ہے مگر سوچ کے آسمانوں میں اوپر سے اوپر اور ہم سمندروں سے اوپر ہیں مگر سوچ کے آسمانوں میں پر کٹے۔

نوٹ: اعداو شمار میں فرق یا معمولی غلطیاں ممکن ہیں مگر پوسٹ کا مقصد آپکو اعداو شمار رٹوانا نہیں بلکہ سائنسی سوچ کی اہمیت بتانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں