کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ پاس کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یا کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ لوگوں کی باڈی لینگویج پڑھنا کیسا ہو گا؟
تاہم سچ یہ ہے کہ اس بات کے زیادہ ثبوت نہیں ہیں کہ آپ بولنے والے شخص کی باڈی لینگویج کو دیکھ کر اس کے جھوٹ کا پتہ لگا سکتے ہیں یا نہیں۔
جب آپ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا کوئی انٹرویو میں جھوٹ بول رہا ہے، تو آپ کو اس شخص کے سلوک کو دیکھنا ضروری ہے یا وہ معلومات جو وہ شخص آپ کو دیتا ہے۔
نان وربل یا باڈی لینگویج کے ذریعے جھوٹ کا پتہ لگانا زبانی جھوٹ کا پتہ لگانے سے زیادہ مقبول ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والے اپنی زبان کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اپنے رویے کو نہیں۔
لیکن دھوکہ دینے کے زبانی اشارے بہت زیادہ عیاں ہوتے ہیں۔
ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والے پریشان ہوتے ہوں گے۔ مثال کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ جھوٹا شخص اپنے انٹرویو لینے والے سے آنکھیں نہیں ملاتا، اپنے ہاتھوں سے کھیلتا ہے، اسے پسینہ آتا ہے یا پھر بار بار تھوک نگل لیتا ہے۔
ان باتوں کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سچ بولنے والے انٹرویو میں بھی گھبرا سکتے ہیں اور جھوٹ بولنے والے شخص جیسا رویہ دکھا سکتے ہیں۔
جھوٹ بولنے والوں کو اپنی ساکھ کی زیادہ فکر ہوتی ہے، جبکہ سچ بولنے والوں کو یقین ہوتا ہے کہ سچ سامنے آئے گا۔
تاہم جھوٹ بولنے اور جھوٹ نہ بولنے والوں کے زبانی حربے مختلف ہیں۔ عام طور پر دونوں شروع ہی میں وہ تمام معلومات نہیں دیتے جو ان کے پاس ہوتی ہیں، کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ انھیں کتنی معلومات دینی ہیں۔
تاہم، جو لوگ سچے ہوتے ہیں وہ معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ دوسروں کے سامنے ان کی ایمانداری ظاہر ہے۔
ان میں بہت ساری معلومات دینے کے لیے ضروری محرک کی کمی بھی ہو سکتی ہے۔
جب حقیقت واضح ہے تو غیر متعلقہ تفصیلات دینے میں اتنی محنت کیوں کی جائے؟ اس کے علاوہ، وہ شروع شروع میں وہ سب کچھ یاد نہیں کر سکتے ہیں جو ان کے دماغ میں محفوظ ہے۔
مختلف حکمت عملیاں
جھوٹ بولنے والے افراد اپنی کہانیوں کو سادہ اور آسان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں جو کچھ وہ کہیں اس سے تفتیش کاروں کو تصدیق کرنے کا سراغ نہ مل جائے۔
وہ ڈرتے ہیں کہ بعد میں جب ان کا دوبارہ انٹرویو لیا جائے گا تو وہ اپنی کہی ہوئی ہر بات کو دہرانے کے قابل نہیں ہوں گے، یا یہ کہ ایک وسیع جھوٹ کے لیے بہت سوچ بچار کی ضرورت ہو گی۔
دھوکہ دہی پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف زبانی اشارے غیر زبانی اشارے سے زیادہ ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ کہ لوگ جھوٹ کا بہتر طریقے سے اس وقت پتا لگا سکتے ہیں جب وہ کسی کو بولتے ہوئے سنتے ہیں نہ کہ جب وہ اس کے رویے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
زیادہ تر انٹرویوز پروٹوکول، جیسا کہ جنھیں بارڈر گارڈز یا پولیس استعمال کرتے ہیں، محققین نے تیار کیے ہیں اور ان کا مقصد ان مختلف زبانی حکمت عملیوں کو سمجھنا ہے جو جھوٹے اور ایماندار لوگ انٹرویوز میں استعمال کرتے ہیں۔
پروٹوکول جو انٹرویو لینے والے عام طور پر منتخب کرتے ہیں ان کا انحصار ثبوت پر ہوتا ہے۔
سی سی اے انٹرویو میں، ابتدائی طور پر انٹرویو لینے والے سے کہا جاتا ہے کہ وہ رپورٹ کرے کہ مختصر وقت میں کیا ہوا ہے۔
اس کے بعد انٹرویو لینے والے کو اشارے دیے جاتے ہیں جو اس کے بارے میں توقعات کو بڑھاتے ہیں کہ اب کیا کہنا ہے مثال کے طور انھیں کسی ایسے شخص کی ریکارڈنگ سننے دیں جس میں وہ تفصیل بتا رہا ہو جو وہ سننا چاہتے ہیں)، بولنے کی حوصلہ افزائی کریں (یعنی ایسا تاثر دیں کہ انٹرویو لینے والا ان کی زندگی کی بہترین کہانی سن رہا ہے) یا انھیں یاد رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
سی سی اے انٹرویو میں، انٹرویو دینے والوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کہانی متعدد بار سنائیں۔ سی سی اے تکنیک پر تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سچ بولنے والے لگاتار جوابات کے دوران جھوٹے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اضافی معلومات پیش کرتے ہیں جو ان کی کہانی کو سادہ رکھتا ہے۔
یہ جاننا ناممکن ہے کہ کسی کے دماغ میں کیا معلومات ہیں۔ ابھی تک تو خیالات ذاتی ہیں کیونکہ ہمارے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ یہ جانیں کہ کوئی کیا سوچ رہا ہے۔
یہ شاید جھوٹ پکڑنے والی مشین سے کم دلکش ہو لیکن کسی کے کہے ہوئے الفاظ کو سننا ان کی ذہنی حالت کے بارے میں اس سے زیادہ ظاہر کر سکتا ہے جتنا شاید وہ بتانا چاہیں گے۔