تحریریں

جدید معمار تاج محل کے فن تعمیر سے عمارتوں کو ٹھنڈا کرنا کیسے سیکھ رہے ہیں

جب آپ انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحق نوئیڈا میں قائم مائیکروسافٹ کے دفتر میں داخل ہوتے ہیں تو 400 سال قبل مغل دور حکومت میں تعمیر شدہ تاج محل کے فن تعمیر کا امتیاز فوری طور پر سمجھ میں آتا ہے۔

ہاتھی دانت کے سفید رنگ میں نہائی یہ خوبصورت محرابوں اور جگہ جگہ ‘جالیوں’ والی عمارت جہاں تاج محل کی شان و شوکت کا بصری قصیدہ ہے وہیں یہ جدید ترین کام کی جگہ بھی ہے۔

پیچیدہ جالی کی سکرینوں کے سوراخ سے چھن کر آتے ہوئے روشنی کے جھرنے روشنی اور گہرائی کا شاندار تاثر پیدا کرتے ہیں۔ توانائی کی بچت والی لائٹس کے ساتھ یہ تعمیراتی خصوصیت عمارت کے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم رکھنے میں مدد کرتی ہے اور اسی وجہ سے دفتر کو لیڈ (لیڈرشپ ان انرجی اینڈ انوارنمنٹل ڈیزائن) پلاٹینم کی درجہ بندی ملی ہوئی ہے جو کہ امریکی گرین بلڈنگ کونسل کی سب سے زیادہ پائیداری کی سند ہے۔

جالی کی اصطلاح وسطی اور جنوبی ایشیا میں استعمال ہوتی ہے۔ آرائشی نمونوں کے ساتھ سنگ مرمر یا سرخ ریت کے پتھر میں تراشی گئی جالیاں 16ویں اور 18ویں صدی کے درمیان ہندوستان میں فن تعمیر کی ایک مخصوص خصوصیت ہوا کرتی تھی۔

17ویں صدی کے وسط میں ہندوستان کے شہر آگرہ میں تعمیر کیے گئے تاج محل کی شاندار نقش و نگار والی جالیاں، ٹھوس اور خلا، مقعر (کھوکھلے) اور محدب (ابھرے)، لکیروں اور منحنی خطوط، روشنی اور سائے کا ایک ہم آہنگ مرکب بناتی ہیں۔

اس طرح کی ایک تعمیر ہوا محل ہے جسے انڈین شہر جے پور میں سنہ 1799 میں راجپوت حکمرانوں نے بنوایا تھا۔ اس میں 953 کھڑکیاں ہیں جن میں جالیاں اس طرح لگائی گئی ہیں کہ ان سے چھن کر عمارت کے اندر ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے آئیں۔

’یہ جالیاں ہوا کو گردش کرنے دیتی ہیں‘

ثقافتی ورثے کے تحفظ میں مہارت رکھنے والے ماہر تعمیرات اور قابل عمل ڈیزائن پر کئی کتابوں کے مصنف یتن پانڈیا کا کہنا ہے کہ عمارتوں میں فنکارانہ مزاج کو پیش کرنے کے علاوہ یہ جالیاں ‘ہوا کو گردش کرنے دیتی ہیں، [عمارتوں کو] سورج کی روشنی سے بچانے کا کام کرتی ہیں اور پرائیویسی کے لیے ایک پردہ فراہم کرتی ہیں۔’

اب جدید دور کے بہت سے معمار عمارتوں میں پائیدار ٹھنڈک کی تلاش میں آرام دہ اور کم کاربن والی عمارتوں کی تعمیر کے لیے اس قدیم ڈیزائن کو زندہ کر رہے ہیں

روایتی جالیاں بھی ہیں۔

دہلی میں قائم زیڈ لیب کے بانی ڈائریکٹر اور ماہر فن تعمیر سچن رستوگی کا کہنا ہے کہ ‘[یہ جالیاں] پائیدار ٹھنڈک اور وینٹیلیشن کے مسائل کے حل کے لیے ایک ماحول دوست ردعمل کے طور پر کام کرتی ہیں۔’

غیر فعال کولنگ تکنیک اور عمارت کے لفافے (جو عمارت کے اندرونی حصے کو بیرونی ماحول سے الگ کرنے میں مدد کرتے ہیں) اندرونی درجہ حرارت کو کم کرکے، ایئر کنڈیشنگ کی ضرورت کو کم کرتے ہیں اور قابل قدر سکون فراہم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں 70 فیصد تک توانائی کی بچت ہوسکتی ہے۔

جالی حدت کیسے کم کرتی ہے؟

جالی ایک عام کھڑکی کے کل مربع میٹر کو کئی چھوٹے چھوٹے خانوں میں تقسیم کر کے عمارت میں داخل ہونے والی براہ راست حرارت کو کم کرتی ہے۔

پانڈیا کا کہنا ہے کہ روایتی جالی میں سوراخ تقریبا ماربل یا ریت والے پتھر کی موٹائی کے سائز کے ہی ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘یہ موٹائی سورج کی روشنی کی براہ راست چمک کو کم کرنے کا کام کرتی ہے جبکہ اس سے منتشر ہونے والی روشنی کو داخلے کی اجازت دیتی ہے۔’

جالی سے پیدا ہونے والی ٹھنڈک کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وینٹوری ایفیکٹ پر اسی طرح انحصار کرتی ہے جیسے ایئر کنڈیشنگ یونٹ۔

پانڈیا کہتے ہیں: ‘جب ہوا سوراخوں سے گزرتی ہے، تو یہ رفتار پکڑتی ہے اور دور تک گھسی چلی جاتی ہے۔ چھوٹے سوراخ یا شگاف کی وجہ سے ہوا دب جاتی ہے اور جب وہ خارج ہوتی ہے تو ٹھنڈی ہو کر نکلتی ہے۔’

پانڈیا کہتے ہیں کہ کولنگ کی جدید تکنیکوں کے عروج نے جالی کے استعمال کو محدود کر دیا لیکن ‘گلوبل وارمنگ کے خدشات اس کی بحالی کی طرف توجہ مرکوز کرا رہے ہیں۔۔۔ اور روایتی تعمیراتی شکلوں نے ماحولیاتی حالات کا مقابلہ کرنے میں اپنی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔’

جالی ایک بار پھر سے مقبول ہو رہی ہے

چین کے شہر فوشان میں ٹائمز آئی-سٹی کمپلیکس سے لے کر فرانس کے کیپ ڈی ایگڈے میں نکارا ہوٹل اور اسپین کے قرطبہ ہسپتال تک، جدید عمارتوں میں قدرتی روشنی کو بہتر بنانے، توانائی کی کھپت کو کم کرنے اور آرام فراہم کرنے کے لیے عمارتوں کے سامنے جالیاں لگائی جا رہی ہیں۔

برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی سے پائیدار عمارت کے ڈیزائن کی ایک محقق عائشہ بتول کہتی ہیں کہ ‘سفتہ یا سوراخ والے فیکیڈ (سامنے کا حصہ یا اگواڑا) عالمی سطح پر مقبول ہو رہے ہیں اور معمار پائیدار لفافوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔

بتول کے 2018 کے تین سکرین شیڈنگ سسٹمز والے تجزیے میں پتا چلا کہ جالی نے سورج کی روشنی کو منحرف کرنے میں مکمل طور پر چمکدار اگواڑے اور برائس سولیل (تنے ہوئے چمکدار کپڑے کے) اگواڑے دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

بتول کہتی ہیں کہ ‘جالی کی سکرینیں عمارت کے اندر رہنے والوں کے لیے حرارت سے بچنے میں مدد کرتی ہیں اور بصری سکون کو بڑھاتی ہیں۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘روایتی تعمیراتی فن کی کارکردگی کی حد سے زیادہ رومانوی تحسین سے زیادہ ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔’

بہتر روشنی

نئی دہلی میں پنجاب کیسری اخبار کے صدر دفتر میں روایتی جالی والے فن تعمیر کو عصری ڈیزائن کی خصوصیات کے ممیز کیا گيا ہے۔ اسے سٹوڈیو سمبیوسس نے ڈیزائن کیا ہے۔

عمارت کا اگلا حصہ سوختے یا سوراخوں والے سفید شیشے کے مضبوط کنکریٹ میں لپٹا ہوا ہے جو روایتی جالی والے سکرین کو ابھارتا ہے۔ اپنے ڈیزائن کے لیے ایوارڈ سے نوازی جانے والی اور سٹوڈیو سمبیوسس کی شریک بانی بریٹا کنوبل گپتا کہتی ہیں کہ اس سب کا مقصد قدرتی روشنی کو بہتر بنانا، گرمی کو کم کرنا اور ہوا کے بہاؤ کو بڑھانا ہے۔

نوبل گپتا کا کہنا ہے کہ ‘سکرین شیشے کے سامنے ڈبل جالی باہر کی ہوا کے درجہ حرارت کو کم کرتی ہے تاکہ ٹھنڈی ہوا کو چمنی کی طرح کام کرتے ہوئے اندر کھینچ سکے۔ اس سے ایئر کنڈیشنر پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔’

اس پروجیکٹ میں ہر دیوار کے لیے مختلف پوروسیٹی پیٹرن بنانے کے لیے ڈیجیٹل سمولیشن کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس لیے کیا گیا ہے کس دیوار کو کتنی سورج کی روشنی ملتی ہے۔

مثال کے طور پر شمال کی طرف والے حصے میں 81 فیصد دھندلاپن ہے اور اس کے مقابلے میں جنوب کی طرف صرف 27 فیصد دھندلاپن ہے۔ عمارت کو قدرتی طور پر روشنی کی ضرورت کی سطح کو پورا کرنے میں بھی یہ جالیاں مدد کرتی ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں یہ جالیاں اس بات کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ عمارت کو دن میں مصنوعی روشنی کی ضرورت نہ ہو۔

ایک اور جدید عمارت جو جالی کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتی ہے وہ دہلی سے ملحق شہر گروگرام میں سینٹ اینڈریو انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ کے طلباء کی رہائش کا بلاک ہے۔

عمارت کی ایک قابل ذکر خصوصیت اس میں طبیعیات کے ایک اصول ‘اسٹیک ایفیکٹ’ کا استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت جالی میں ہر اینٹ کے گردشی زاویوں کو شمسی تابکاری کو کم سے کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

’جالی کے استعمال نے بل کم کر دیے‘

عمارت کو ڈیزائن کرنے والے رستوگی کا کہنا ہے کہ ‘جالی کا فیکیڈ حرارت سے بچاؤ کے شیلڈ کے طور پر کام کرتا ہے، جو سورج کی روشنی کو 70 فیصد تک کم کرتا ہے، اس طرح گرمی میں اضافے کو کم کر دیتا ہے۔ عمارت گرم ہوا کو پکڑ کر اسے باہر چھوڑ دیتی ہے۔

رستوگی کا کہنا ہے کہ جالی نے توانائی کے بلوں کو نمایاں طور پر کم کیا ہے اور ایئر کنڈیشنگ کی ضرورت کو 35 فیصد تک کم کر دیا ہے۔

دوسرے ممالک بھی جالی کے فوائد پر غور کر رہے ہیں۔

سپین کے شہر میڈر میں ہسپاسیٹ سیٹلائٹ کنٹرول سینٹر کو بھی اسی طرح شمسی تابکاری کو کنٹرول کرنے اور اندرونی راحت کو بڑھانے کے مقصد سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کی جالی کے سوراخ تین مختلف موٹائی پیش کرتے ہیں جو روشنی کو فلٹر کرنے اور سورج کی چکاچوند کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

عمارت کو ڈیزائن کرنے والی فرم سٹوڈیو ہیررز کے معمار اور بانی پارٹنر جوآن ہیریرز کہتے ہیں کہ ‘آگے کے حصے کو دوسری جلد کے ساتھ پورا کیا گیا ہے جو کہ پانچ ایم ایم موٹی دھات کی چادر ہے۔۔۔ سفتہ کاری کا زاویہ سورج کی روشنی کی ضرورت کے تحت بدلتا رہتا ہے تاکہ آرامدہ روشنی آتی رہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ عمارت اور جالی کے درمیان ایک میٹر (3 فٹ) کا فاصلہ سایہ دار اور ہوا دار چیمبر والا اثر پیدا کرتا ہے۔ اور ‘دو جلدوں کے درمیان کی جگہ وینٹیلیشن کی راہداری کے طور پر کا کام کرتی ہے۔’

تکنیکی ترقی نے جالی کو پہلے سے زیادہ فعار اور کارگر بنا دیا ہے۔ بایومیمیکری یعنی فطرت سے متاثر ہو کر غیر حیاتیاتی نظام تیار کرنے کی سائنس یا حیاتیات کی نقل سے اخذ کرتے ہوئے فعال جالی کے فیکیڈ کا مقصد فطرت میں پائے جانے والے حرارت سے موافقت پیدا کرنے کے طریقوں کی نقل کرنا ہے۔ انسانی جلد کی ساخت سے متاثر ہو کر عمارتوں کے یہ فیکیڈ ہزاروں سوراخوں کے ذریعے سانس لینے میں مدد کر رہے ہیں۔

ابوظہبی کی شدید صحرائی دھوپ میں موجود البحر ٹاورز

ابوظہبی کی شدید صحرائی دھوپ میں موجود البحر ٹاورز اس فعال فیکیڈ کی مثال ہے۔ یہ برطانیہ کے ایڈاس آرکیٹیکٹس کی جانب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

ان ٹاورز میں ایک حساس ‘ذہین’ فیکیڈ ہے جو درجہ حرارت کے لحاظ سے کھلتا اور بند ہوتا ہے۔ یہ ڈیزائن جالی اور مشربیہ سے اشارے لیتا ہے۔ واضح رہے کہ مشربیہ عرب دنیا میں جالی کا متبادل ہے اور اس میں عام طور پر لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

انجینئرنگ کنسلٹنسی اروپ کے سابق ڈائریکٹر جان لائل کھلنے کی تکنیک پر مشورہ دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘مشربیہ ایک نیا نظام ہے جو عمارت پر براہ راست سورج کی روشنی کی مقدار کو تقریباً 20 فیصد کم کرتا ہے۔ موٹرائزڈ مشربیہ عمارت میں بالواسطہ قدرتی روشنی کے مطابق کھلتا اور بند ہوتا ہے۔’

ڈائنامک یا حرکی سکرین کو عمارت سے دو میٹر (6.6 فٹ) دور رکھا گیا ہے اور چمک کو کم کرنے اور دن کی روشنی کے دخول کو بہتر بنانے کے لیے سورج کی گردش کا جواب دینے کے لیے پروگرام کیا گیا ہے۔

جیسے جیسے سورج کی پوزیشن بدلتی ہے، پورا مشربیہ سایہ فراہم کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلتا ہے۔ اروپ کے مطابق ڈیزائن کے نتیجے میں کاربن کے اخراج میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔

اگرچہ جالی کی بحالی کا تجربہ کیا جا رہا ہے، لیکن اس بارے میں خدشات موجود ہیں کہ آیا فیکیڈ کے سوراخ مکینوں کو کیڑوں مکوڑوں سے کافی محفوظ رکھتے ہیں۔ اور کیا اس سے بچنے کے لیے جالی کے سامنے شیشے یا کیڑوں کی سکرین رکھی جا سکتی ہے۔

کیا یہ فن تعمیر پائیدار حل ہے؟

دریں اثنا حرکت پذیر یا کائنیٹک فیکیڈ کے ڈیزائن اور فیبریکیشن کے عمل کے لیے اکثر زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اور یہ مہنگے بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تکنیکی سرمایہ کاری شامل ہوتی ہے۔

تاہم اس کے فوائد مزید دریافتوں کے لیے ایک دروازہ کھولتے ہیں تاکہ توانائی کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جا سکے۔

جدید تعمیرات کے لیے سنگ مرمر جیسے روایتی تعمیراتی مواد کا استعمال قابل عمل یا سستا نہیں ہو سکتا اور ایک ہی میٹیریل تمام موسموں کے مطابق نہیں ہو سکتا۔

آج کل زیادہ تر جالیاں درمیانی کثافت والے فائبر بورڈ، کنکریٹ، اینٹوں، لکڑی، پتھر، پی وی سی یا پلاسٹر سے بن رہی ہیں۔

خشک علاقوں میں نمی کو برقرار رکھنے کے لیے لکڑی کے ریشوں جیسے مواد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پودوں کے ذریعے بخارات کی منتقلی کے اسی طرح کے عمل کی نقل میں رات کے وقت جالی سوراخوں سے گزرنے والی ٹھنڈی ہوا کی نمی کو جذب کر لیتی ہے اور دن کے وقت جب ہوا میں گرمی بڑھتی ہے تو اس جذب نمی کو چھوڑتی ہے۔

جالیوں کی مختلف آب و ہوا میں کارکردگی میں بھی مختلف ہوتی ہے، مطلب یہ ہے کہ سکرین کا ڈیزائن، جیومیٹریز، سوراخ، شکل اور میٹیریئل کو آب و ہوا کے حالات کے مطابق ہونا چاہیے۔

تمام حالات کوئی ایک ہی سائز کا حل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر گرم خشک آب و ہوا میں بہتر تھرمل سکون کے لیے 30 فیصد سوراخوں سے بنے اور دس سیٹی میٹر (چار انچ) گہرائی والے جالی کے سکرینز مناسب ہیں جبکہ گرم مرطوب آب و ہوا میں سوراخ کے تناسب کو بڑھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

بہر حال رستوگی کا کہنا ہے کہ ان کمیوں کے باوجود جالیاں قدرتی روشنی اور وینٹیلیشن فراہم کر کے توانائی سے بھرپور عمارتیں بنانے میں مدد کرتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘روایتی جالی کی تکنیک ماحولیاتی اور اقتصادی طور پر قابل عمل فن تعمیر کی کلید ہیں۔ پائیداری ایک اضافی حصہ نہیں ہے، اسے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہونا چاہیے

یہ بھی پڑھیں