جنگلوں میں رہنے والے ہمارے آباؤ اجداد نے کیوں اور کیسے بولنا سیکھا؟ یہ ممکن ہے کہ آج کی دنیا میں بولی جانے والی ہزاروں کی تعداد میں زبانیں کسی ایک جد تک لے جائیں۔
مصنف اور زبان کے شوقین مائیکل روزن کی تحقیق
ارتقائی عمل میں انقلابی تبدیلی
پروفیسر رابڑ فولی کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں اپنے آپ کو سمجھنا ہے تو ہمیں زبان کو سمجھنا ہو گا۔
برطانیہ کی نیو کیسل یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر میگی ٹالرمین کا کہنا ہے کہ بنی نوع انسان واحد مخلوق ہے جو قوت گفتار رکھتے ہیں اور یہ بات اس کو دیگر جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔
بات کرنے کی صلاحیت انسان کے ارتقائی عمل میں ایک اہم مرحلہ تصور کیا جاتا ہے، ایک ایسی تبدیلی جس نے پورا کھیل ہی بدل کے رکھ دیا اور اسی وجہ سے ہمیشہ سے انسان کو یہ تجسس رہا ہے کہ زبان کب شروع ہوئی۔
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں انسانی ارتقا اور انتھروپولوجی کے پروفیسر رابرٹ فولی کا کہنا ہے کہ زبان ان چند پیچیدہ چیزوں میں شامل ہے جو ہمیں انسان بناتی ہیں۔
زبان پانچ لاکھ سال قدیم ہو سکتی ہے
آج کل دنیا میں 6500 زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن سائنس دان کس طرح اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ کونسی زبان سب سے زیادہ قدیم ہے؟
اگر پوچھا جائے کہ سب سے قدیم زبان کون سی ہے تو ہم شاید سوچیں کہ یہ سنسکرت، قدیم مصری یا بابل میں بولی جانے والی بابلی زبان ہو۔ پروفیسر ٹالرمین کا کہنا ہے کہ اس کا کہانی کے آغاز سے قریب کا بھی تعلق نہیں ہے۔ زیادہ تر وہ زبانیں، جنھیں ہم قدیم تصور کرتے ہیں وہ چھ ہزار سال پرانی ہیں اور بنیادی طور پر آج کل کی جدید زبانوں جیسی ہی ہیں۔
زبان کی ابتدا کا پتا لگانے کے لیے ہم پچاس ہزار سال پہلے تک جا سکتے ہیں اکثر ماہر لسانیات کا خیال ہے کہ یہ اس سے کہیں پرانی بات ہو سکتی ہے۔ پروفیسر ٹالرمین کا کہنا ہے کہ ہم میں سے بہت سے سمجھتے ہیں کہ یہ بات پانچ لاکھ سال پہلے تک جا سکتی ہے۔
ایک ہی جد
پروفیسر فولی کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں ہزاروں زبانوں کا ایک خزنیہ ہونے کے باوجود اس بات کا بہت قومی امکان موجود ہے کہ آج کے دور کی ہماری تمام زبانوں کا ممبع ایک ہی ہو یا ایک ہی جد سے شروع ہوئی ہوں۔
اس کی تاریخ کا تعین کرنا کسی حد تک انسانی ارتقا کی حیاتیات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ جنیات سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ ہم سب افریقہ میں ایک چھوٹی سی آبادی سے نکلے ہیں۔ گو کے ہماری نسل کے باہر بھی کئی زبانیں ہو سکتی ہے لیکن جو زبانیں آج ہم دیکھتے ہیں ان کا ماخذ غالباً ایک ہی زبان ہو جس میں جدتیں اور تبدیلیاں ہوتی رہی ہوں۔
آثار قدیمہ کے شواہد
ہمارے اجداد کی ہڈیوں سے ہمیں بہت کم ایسے اثرات ملتے ہیں جن سے یہ تعین کیا جا سکے کہ ہم نے کب بولنا شروع کیا.
پروفیسر فولی کا کہنا ہے کہ گویائی دراصل تنفس یا سانس لینے کا عمل ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’یہ صرف سانس لینے کا عمل ہی ہے لیکن مکمل کنٹرول کے ساتھ کہ جس سے مختلف آوازیں پیدا ہو سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے جسم کے پٹھوں پر بہت زیادہ کنٹرول ہو اور ہمارا ڈایا فرام ہمارے نزدیک ترین بول نہ سکنے والے جاندار بنس مانس سے زیادہ بہتر ہو اور اس میں زیادہ اعصاب ہوں۔
ان سب اعصاب کا مطلب ہے کہ ہماری ریڑھ کی ہڈی بن مانسوں سے زیادہ موٹی ہو اور ان سے زیادہ چوڑی ہو۔ اگر آپ اپنے معدوم ہونے والے بھائیوں ’نیندرتھال‘ جو چھ لاکھ سال پہلے تک موجود تھے ان پر غور کریں تو ان میں یہ تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔
لیکن اگر آپ دس لاکھ سال پہلے چلے جائیں تو اس وقت پائے جانے والے ہومو ایرکٹس جو قدیم انسانوں سے پہلے کی انسان نما مخلوق تھی ان میں یہ تبدیلیاں وقوع پذیر نہیں ہوئی تھیں۔
یہ ہمیں ایک ابتدائی خاکہ فراہم کرتے ہے کہ کب انسانوں نے بولنا شروع کیا۔
جینیات کا بھی اس میں دخل ہے
ہڈیوں اور انسانی ڈھانچوں کے ریکارڈ کے علاوہ جینیات کے علم میں اضافے سے زبانوں کی تاریخ کا تعین کرنے میں بھی کافی مدد مل رہی ہے۔
پروفیسر فولی کا کہنا ہے کہ ایک جین جس کا نام ایف او ایکس پی ٹو جین ہے وہ تمام قدیم جانداروں میں یکساں پائی جاتی تھی۔ لیکن انسانوں میں اس کی ایک تبدیل شدہ شکل موجود تھی۔
اس جین میں تغیر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انسان کیوں قوت گویائی رکھتے ہیں اور لنگوروں میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔ ہمیں علم ہے اس جین نے بولنے اور زبانوں کی ترقی میں اہم کردار کیا ہے کیونکہ جن لوگوں میں غیر تبدیل شدہ جین پائی جاتی ہے انھیں بولنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیندرتھال میں جدید دور کہ انسانوں میں پائی جانے والی ایف او ایکس پی 2 جین ہی کی ایک ذرا مختلف شکل موجود تھی جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ان میں آوازیں پیدا کرنے کی کچھ صلاحیت تھی۔
لیکن کیا انھوں نے بولنے اور آوازیں نکالنے کی مکمل صلاحیت حاصل کر لی تھی یہ ایک بالکل الگ سوال ہے۔پروفیسر ٹالرمین کا کہنا ہے کہ آوازیں نکالنا باقاعدہ بولنے یا زبان کے برابر نہیں ہو سکتا اور زبان کیسے تشکیل پائی اس کا جینیاتی شواہد اور موجودہ علم سے پتا لگانا نہایت ہی مشکل ہے۔
کیا انسانی کھوپڑی کا سائز زبان کی تاریخ کے بارے میں بتانے میں مدد دے سکتا ہے؟
نہیں، اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ کتنا بڑا دماغ زبان کو بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ پروفیسر ٹالر کہتے ہیں کہ ’حقیقت میں ایک نیندرتھال جو کہ قدیم دور میں موجود انسان تھے کا دماغ ہمارے دماغ سے بڑا تھا اور وہ ہم سے بڑے جانوروں میں شامل تھے۔‘
انسان کا پہلا لفظ شاید ہائے تھا
جب ہم قدیم ترین زبان کے بارے میں بات کرتے ہیں جو کہ موجودہ زبان جسے ہم آب بھی پڑھ رہے ہیں سے مختلف ہے تو ہم ممکنہ طور پر بتا سکتے ہیں کہ اس کا پہلا لفظ کیا ہوگا۔ پروفیسر فولی کے مطابق دیانتداری سے بات کی جائے تو ہمارے پاس اس کا کوئی سراغ نہیں۔
پروفیسر ٹالر مین کہتے ہیں کہ ابتدا میں انسان نے شاید ایک دوسرے سے تعاون شروع کیا اور زیادہ بات چیت کی تا کہ وہ اپنے ماحول کو جان سکے اور مختلف قسم کی خوراک کھا سکے۔
ہمارے آباو اجداد نے ابتدا میں فالتو اشیا کو اکھٹا کرنا شروع کیا اور جانوروں کی باقیات میں خود کو چھپانا شروع کیا۔
ہمارے آباو اجداد
پروفیسر ٹالر مین کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی مرے ہوئے جانور کی باقیات سے ضیافت کرنا چاہتے ہیں تو پہلا حق تو جنگلی جانوروں کے جتھے کا ہوگا۔ پھر اپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ کے ساتھ اپ کے دوست بھی ہوں کیونکہ یہ بہت خوفناک ہے۔
زبان بھی مددگار ہوتی ہے۔ اگر آپ باہر نکلے ہیں اور آپ کو کسی جانور کی اچھی حالت میں موجود باقیات ملی ہیں اور آپ اپنے دیگر ساتھیوں کو مطلع کرنا چاہتے ہیں کہ یہاں قریب میں کچھ اچھا کھانے کے لیے موجود ہے۔‘
یہ انسانی ابلاغ کی ایک اور خوبی ہے جسے دوری یا آف لائن سوچ کہتے ہیں۔ جب آپ دوسروں کو چیزوں کے بارے میں بتانے کے لیے جو فوری طور پر وہاں موجود نہیں ہوتے زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ شاید مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں بھی ہو رہا ہوتا ہے۔
پروفیسر ٹالر مین کہتے ہیں کہ شاید کھانے اور زندہ رکھنے کی خواہش نے انسان کو ایک دوسرے کو بتانے کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کی۔ جیسا کہ مفت خوراک کی موجودگی۔
گپ شپ نے بھی شاید اس میں اپنا کردار ادا کیا
مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت زبان کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پروفیسر فولی کہتے ہیں کہ تعاون اس کی بنیاد ہے۔ اور ممنکہ طور پر زیادہ تر اصل سماجی تعاون سماجی تربیت سے متعلق ہی ہوتا ہے۔ ’ یہ برا ہے کہ زیادہ تر ہم جو بھی کہہ رہے ہوتے ہیں وہ صرف رابطے بنانے اور یہ جاننے کے لیے کہ کیا چل رہا ہے۔‘
یونیورسٹی آف کیمبرج کی ماہر لسانیات ڈاکٹر لورا رائٹ کہتی ہیں کہ عام طور پر ہونے والی بات چیت کی اہمیت کو کم یا بے وقعت نہیں کیا جا سکتا۔ گپ شپ، بات چیت، بڑبڑاہٹ روزمرہ کی گفتگو کا بڑا حصہ ہیں۔
کبھی کھبار زبان چیزوں کے بارے میں جاننے کا اصل ذریعہ ہوتی ہے بجائے اس کے کہ ہم اس کے ذریعے دوسروں کو کسی کام کا کہیں۔
ہم نے کب کہانیاں سنانی شروع کیں؟
پروفیسر ٹالرمین کہتے ہیں کہ زیادہ تر وقت زبان کا بیانیہ بنانے اور کہانیاں بیان کرنے اور رواج بنانے میں لگا۔ اس لیے ہمیں زبان کی ابتدا کے بارے میں جاننے کے لیے بہت پیچھے جانا ہوگا ممکنہ طور پر سینکڑوں ہزاروں سال پیچھے۔
پروٹو یعنی ابتدائی زبان سے جدید زبان کی جانب قدم ایک بہت بڑا اور وقت و محنت سے لگائی جانے والی چھلانگ تھی۔ لیکن آج جو بھی زبانیں بولی جا رہی ہیں وہ یکساں طور پر پیچیدہ ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ آج جو آبادیاں یہ تمام مختلف زبانیں بولتی ہیں اکثر مختلف سمتوں میں بٹ جاتی ہیں جیسا کہ ایک لاکھ برس یا اس سے زیادہ عرصہ قبل موجود آبادیاں۔ اس لیے کم ازکم اس وقت لیول کی پیچیدگی رہی ہو گی۔