سویڈن میں گذشتہ ہفتے ایک عراقی نژاد شخص کی جانب سے عیدالاضحی کے روز دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن کے نسخے کو نذر آتش کرنے کے واقعے کے خلاف آج پاکستان میں ’یوم تقدیس قرآن‘ منایا جا رہا ہے۔
قرآن کو نذر آتش کرنے والے عراقی نژاد شخص سلوان مومیکا پانچ سال قبل ایک تارکِ وطن کے طور پر سویڈن آئے تھے اور انھوں نے امریکی چینل سی این این کو بتایا تھا کہ اُن کے پاس سویڈن کی شہریت ہے۔ یہ عراقی نژاد شخص اپنے حوالے سے ملحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
میڈیا کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ ’قرآن کی تعلیمات مغربی معاشرے میں جمہوریت، انصاف، انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے اصولوں سے متصادم ہے، لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔‘
لیکن وہ سویڈن میں یہ کام کرنے والے پہلے شخص نہیں ہیں۔ سویڈن میں اس واقعے سے پہلے بھی کئی بار قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
رواں برس جنوری میں، ’سٹرام کرس‘ نامی ایک بنیاد پرست دائیں بازو کے گروپ کی جانب سے ایک احتجاجی مظاہرے میں قرآن کا نسخہ نذر آتش کیا گیا تھا۔ یہ گروپ امیگریشن مخالف اور اسلام مخالف کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس تنظیم کی قیادت راسموس پالوڈن نامی شخص کرتے ہیں۔
سٹرام کرس پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔ اور اس واقعے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔
اسی طرح ماضی میں سنہ 2020 میں بھی سویڈن مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذر آتش کیا گیا تھا۔
معرض وجود میں آنے کے بعد جیسے جیسے سویڈش سلطنت پھیلتی گئی، اسی طرح اس کے مذہبی خیالات بھی پھیلتے گئے۔ اگرچہ ابتدا میں سویڈن میں کیتھولک آبادی زیادہ تھی، لیکن یہ ملک 16ویں صدی میں لوتھرن پروٹسٹنٹ ملک بن گیا۔ جس کے بعد سنہ 1665 میں سویڈن نے اُس مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا جس پر وہ پہلے عمل پیرا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب کیتھولک مذہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کو ’حقیقی عیسائیت‘ کے دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سویڈن میں سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ لبرل جذبہ بھی پیدا ہوا اور فی الحال ملک سیکولر قوانین کے تحت چل رہا ہے۔
سویڈش اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار ناصرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے جبکہ حقیقت میں یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی۔
قرآن نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعہ کے بعد اس ضمن میں مختلف نفرت انگیز سرگرمیوں کی تفصیلات بتائیں جیسا کہ سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا اور مساجد پر چھوٹے موٹے حملے۔
صحافی تسنیم خلیل ایک عرصے سے سویڈن میں مقیم ہیں اور سویڈش معاشرے سے ان کی شناسائی کافی گہری ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ان واقعات کے پیچھے سیاست کارفرما ہے اور یہ کہ پورے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے عروج کی جھلک سویڈن میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ سویڈن کی موجودہ حکومت ایک واحد بڑی پارٹی، سویڈن ڈیموکریٹس کی حمایت سے برسراقتدار ہے، جس نے گذشتہ انتخابات میں 20 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ انھوں نے 349 نشستوں والی پارلیمان میں 72 نشستیں حاصل کیں۔ سویڈن ڈیموکریٹ پارٹی ماضی میں ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت تھی جو کبھی نازی نظریے پر یقین رکھتی تھی اور ایک حد تک، وہ اب بھی نسل پرست اور امیگریشن مخالف ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’نتیجتاً سخت دائیں بازو کی جماعتیں جو کبھی مرکزی دھارے سے باہر سمجھی جاتی تھیں اب سیاسی میدان میں بڑی قوتوں کے طور پر ابھری ہیں۔‘ یہ دائیں بازو کی جماعتیں سویڈش معاشرے میں ’ممنوع‘ یا بحث کے موضوع سے پرے جیسی سوچ کو ختم کرنے کی بات کرتی ہیں۔
تسنیم خلیل اس کی وضاحت اس طرح کرتی ہیں کہ نسلی یا مذہبی اقلیتوں کے مسائل پر تنقید سویڈن کی بڑی آبادی کو سخت ناپسند ہے کیونکہ اُن کے خیال میں یہ اقلیتیں جنگ زدہ ممالک سے آئی ہیں اور کمزور ہیں۔
’لیکن سویڈن کے آئین میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں ٹیبوز کو ختم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اقلیتوں پر حملہ کرنے کے لیے اپنے اظہار کے آئینی حق کو استعمال کر رہی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں ’اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس نوعیت کے زیادہ سے زیادہ واقعات دیکھتے ہیں جیسا کہ قرآن کو نذر آتش کرنا۔‘
یاد رہے کہ مسلمان سویڈن کی آبادی کا بہت بڑا حصہ نہیں ہیں لیکن دوسری جانب انھیں مذہبی بنیادوں پر اشتعال دلوانا آسان ہے، اور ذرا سی اشتعال انگیزی پر پوری مسلم دنیا کی جانب سے ردعمل سامنے آتا ہے اور سویڈن میں موجود انتہائی دائیں بازو کی قوتیں ایک منصوبہ بند طریقے سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وسیع تر سویڈش معاشرے کے مسلمانوں کے تئیں رویوں کو تبدیل کیا جا سکے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں چند محققین نے فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور سویڈن میں اسلاموفوبیا پر تحقیق کی ہے۔
اس گروپ سے منسلک ایک محقق عبدالقادر این جی کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں سویڈن کا رویہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں تبدیل ہونا شروع ہوا۔ سنہ 2014 کے ایک سروے سے پتا چلا کہ 35 فیصد جواب دہندگان کے خیال میں اسلام یورپی طرز زندگی کے لیے خطرہ ہے۔ سنہ 2016 میں ایک اور سروے میں پایا گیا کہ 35 فیصد سویڈش مسلمانوں کا ہی مسلمانوں کے بارے میں منفی نظریہ ہے جبکہ 57 فیصد کا خیال ہے کہ سویڈن آنے والے مہاجرین سویڈن کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، اور یہ بیانیہ بنیاد پرست دائیں بازو کی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں۔
جوڈی صفین برکلے پولیٹیکل ریویو میں اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ اسلامو فوبیا نہ صرف سویڈن میں بلکہ پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔ ’خاص طور پر شام اور عراق جیسے ممالک کے مسلمان جو اپنے ہی ملکوں میں جنگی جرائم اور مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ’زینو فوبیا‘ یا غیر ملکیوں کے خوف کو مختلف ممالک میں مضبوط قوم پرست رویوں سے جوڑا گیا ہے۔ لوگ اب اپنی ثقافتی شناخت، ذریعہ معاش اور یہاں تک کہ سلامتی کے کھو جانے کے خوف سے ’دوسروں‘ کی مدد کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ سویڈن میں بھی ایسا ہی ہے۔‘
پناہ گزینوں یا تارکین وطن کے تئیں بدلتے رویوں کا ایک اور پہلو جوڈی صفین نے اپنے مضمون میں نوٹ کیا ہے۔ روس کی جانب سے جنگ مسلط کیے جانے کے بعد یوکرین سے نقل مکانی کر کے آنے والے یوکرینی شہریوں کا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آنے والوں سے موازنہ کرتے ہوئے، انھوں نے لکھا کہ سویڈن کے میڈیا اور سیاسی رہنماؤں نے بار بار اس بات کی نشاندہی کی کہ یوکرینی مہاجرین ’شام کے پناہ گزین نہیں ہیں، وہ یوکرین کے پناہ گزین ہیں۔۔۔ وہ عیسائی ہیں اور وہ سفید فام ہیں۔‘
لہذا، ا؛ن کا خیال ہے کہ یورپ میں غیر عیسائیوں اور نسلی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن صحافی تسلیم خلیل کا خیال ہے کہ قرآن کو نذر آتش کرنے یا مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی بار بار کوششوں نے سویڈش معاشرے کا ایک اور پہلو سامنے لایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ وسیع تر سویڈش معاشرہ اقلیتوں پر تنقید نہیں کرتا ہے، لیکن ان کے الفاظ میں ’نرم تعصب‘ موجود ہوتا ہے، یعنی، ایک ایسا نظریہ جس کی پسماندہ گروہوں کے ارکان سے زیادہ توقع نہیں کی جاتی ہے۔ یہ بھی نسل پرستی کی ایک شکل ہے۔
عراقی نژاد سلوان مومیکا نے اچانک قرآن کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا بلکہ انھوں نے اس ضمن میں کافی عرصہ قبل سویڈش حکام سے مسجد کے سامنے مظاہرہ کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ پولیس کی جانب سے اجازت نہ دینے پر معاملہ عدالت میں چلا گیا اور تین ماہ تک کیس چلتا رہا اور بالآخر عدالت نے ایسا کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ سویڈن کے آئین کے مطابق احتجاج کا حق بنیادی حق ہے۔
اس واقعے کے بعد سویڈن میں آزادی اظہار رائے کی حدود کے بارے میں زبردست بحث شروع ہو چکی ہے۔ سویڈن کی پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ان لوگوں کی جانب سے احتجاج کے لیے نئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ناصرف قرآن بلکہ تورات اور بائبل کو بھی جلانا چاہتے ہیں۔
سویڈن میں کچھ لبرل مبصرین بھی اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کے احتجاج کو نفرت کی کارروائیوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ وہ ایک مخصوص نسلی گروہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو سویڈن کے قانون کے مطابق ممنوع ہے۔
دوسری طرف سویڈن کے اندر بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب پر تنقید، چاہے وہ اس کے ماننے والوں کے لیے ناگوار ہی کیوں نہ ہو، اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سویڈن میں توہین مذہب کے قانون کو واپس لانے کے لیے دباؤ کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔ سیکولر سویڈن میں کئی دہائیوں پہلے اس قانون کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیٹو کی رکنیت کے لیے سویڈن کی امیدوں کو چھ ماہ کے دوران اسٹاک ہوم میں دوسری بار قرآن نذر آتش کرنے کے بعد ایک اور دھچکا لگے گا۔ اور یہ واقعہ جس وقت پیش آیا اس پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سویڈن اور فن لینڈ نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد فوجی غیر جانبداری کی اپنی دیرینہ پالیسی کو ترک کرتے ہوئے گذشتہ سال نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔
رکنیت کے لیے نیٹو کے تمام رکن ممالک کی منظوری درکار ہوتی ہے لیکن ترکی اور ہنگری نے ابھی تک سویڈن کی درخواست کی حمایت نہیں کی ہے۔ ترکی کی اردوغان حکومت بارہا سویڈن کی حکومت پر کالعدم باغی گروہوں، کردستان ورکرز پارٹی اور دیگر ترک اپوزیشن گروپوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ انقرہ حکومت انھیں دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے۔