تحریریں

لوڈ شیڈنگ: پاکستان میں بجلی جاتے ہی موبائل فون کے سگنل اور انٹرنیٹ بھی کیوں غائب ہو جاتا ہے؟

صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے رہائشی افتخار رسول انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ ہیں اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کا کام کرتے ہیں۔ اس شعبے میں انٹرنیٹ سب سے ضروری چیز ہے اور اس کے لیے وہ دو موبائل فون کمپنیوں کی انٹرنیٹ ڈیوائسز استعمال کرتے ہیں۔

گذشتہ کچھ ہفتوں کے دوران بڑھنے والی لوڈشیڈنگ کے باعث اُن کے علاقے میں بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے۔

افتخار بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں دو موبائل فون کمپنیوں کے ٹاور لگے ہوئے ہیں تاہم بجلی جاتے ہی ایک موبائل فون کمپنی کے سگنل تو فوراً غائب ہو جاتے ہیں جبکہ دوسری پر انٹرنیٹ کی رفتار بہت سست ہو جاتی ہے۔

افتخار رسول نے بجلی کی بندش کا حل تو یو پی ایس کی شکل میں نکال لیا ہے مگر انٹرنیٹ غائب یا آہستہ ہونے کا اُن کے پاس کوئی حل نہیں۔

کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کراچی کی کنیز فاطمہ سوسائٹی میں رہائش پذیر فرحان احمد کو بھی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی صورت میں موبائل فون کے سگنل غائب ہونے کا دورانیہ اب پہلے سے بہت بڑھ گیا ہے۔

’بجلی بھی غائب ہو جاتی ہے اور اوپر سے موبائل فون کے سگنل بھی۔۔۔ دنیا سے رابطہ ہی کٹ جاتا ہے۔‘

پاکستان میں موبائل فون کمپنیوں کے صارفین کی جانب سے گذشتہ کچھ ہفتوں سے ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے ساتھ انٹرنیٹ سروسز میں تعطل کی شکایات تواتر سے سامنے آ رہی ہیں۔

پاکستان میں چار موبائل فون کمپنیاں اس وقت کام کر رہی ہیں جو اپنے صارفین کو کال اور انٹرنیٹ سروسز فراہم کرتی ہیں۔

ان کمپنیوں کی جانب سے اپنی فون کال اور انٹرنیٹ کے سگنل کے لیے نصب کیے گئے ٹاورز میں بجلی جانے کی صورت میں بیک اپ انتظامات کیے جاتے تھے جن میں جنریٹرز، سولر پینلز اور بیٹریاں شامل ہیں تاکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں صارفین کو کال اور انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

تاہم اب اس سلسلے میں شکایات سامنے آئی ہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ یہ موبائل فون ٹاورز بھی بند ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے صارفین متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں کام کرنے والی موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے طویل دورانیے کی وجہ سے مشکلات کی نشاندہی کی گئی ہے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کو بھی اس سلسلے میں آگاہ کیا گیا ہے کہ اتھارٹی اس سلسلے میں کمپنیوں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے لائسسنگ کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کا جائزہ لے۔

تاہم اتھارٹی کی جانب سے کمپنیوں کو لکھے گئے خط میں ان کی جانب سے دی جانے والی مالی مشکلات جیسی وجوہات کو مسترد کیا گیا ہے۔

پاکستان میں موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے سروسز کی فراہمی

ٹیلی کام شعبے کے ماہر پرویز افتخار نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کسی موبائل فون کمپنی کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو اسے ایک لائسنس جاری کیا جاتا ہے اور اس کمپنی کا حکومت کے ساتھ سروس لیول معاہدہ ہوتا ہے جس میں اس بابت تفصیلات طے کی جاتی ہیں کہ کمپنی سروس کیسے فراہم کرے گی۔

انھوں نے کہا جب ان کمپنیوں کی جانب سے معاہدے کیے گئے تھے تو اس وقت ملک میں لوڈ شیڈنگ اتنی زیادہ نہیں تھی اور اس پر کسی نے توجہ نہیں دی کہ طویل دورانیے کے لیے بجلی کی بندش کی صورت میں کیا انتظامات کرنا ضروری ہوں گے۔

پرویز افتخار نے کہا کہ ہر کمپنی کا پی ٹی اے سے معاہدہ ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ معاہدہ پبلک تو نہیں ہوتا تاہم اس کے مطابق سروس بلاتعطل جاری رہنے کی شرح 99 .99 فیصد ہونی چاہیے یا سادہ الفاظ میں سروس میں کوئی تعطل نہیں آنا چاہیے۔

پرویز افتخار نے کہا کہ پہلے تو بہت سارے ٹاورز پر جنریٹر ہوتے تھے تاکہ بجلی کی بندش کی ضرورت میں درکار ایئرکنڈنشنگ جاری رہے کیونکہ اس وقت یہ ضروری تھا تاہم اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے جو ٹاورز لگتے ہیں ان میں یہ ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے ساتھ ہوا کے گزرنے کا مناسب انتظام ہوتا ہے۔

ان کے مطابق کمپنیوں کی جانب سے سولر پینل اور بیک اپ بیٹریاں بھی لگائی جاتی ہیں تاکہ بجلی کی بندش کی صورت میں ٹاور آن رہے۔

انھوں نے بتایا کہ ویسے تو معاہدے میں ایک شق ہوتی ہے جسے فورس میجور (force majeure) کہتے ہیں، جس میں دھماکے یا فسادات وغیرہ ہونے کی صورت میں، جب کمپنی کے اختیار سے معاملات باہر ہو جائیں، سروس معطل ہو جاتی ہے۔

تاہم پاور لوڈ شیڈنگ کی جو موجودہ صورتحال ہے یہ بالکل غیر معمولی ہے اور کسی نے ان حالات کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔

موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے سروس کے معیار میں کمی کے خدشات؟

پاکستان میں کام کرنے والی فون کمپنیوں کی جانب سے حال ہی میں پی ٹی اے کو لکھے گئے ایک خط میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ سٹیٹ بینک کی جانب سے پاور ’بیک اپ‘ آلات پر سو فیصد کیش مارجن لگانے سے سروس کے معیار میں کمی ہونے کے خدشے کا اظہار کیا گیا ہے۔

ان کمپنیوں کے خط کے مطابق ملک میں کچھ ایشوز کی وجہ سے ان کمپنیوں کی سروسز کے معیار میں کمی واقع ہو سکتی ہے، جس میں ایک بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور اس کے ساتھ مرکزی بینک کی جانب سے بجلی بیک اپ آلات کی درآمد پر کیش مارجن میں 100 فیصد اضافہ ہے۔

کمپنیوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان حالات میں لائسنسنگ کے لیے کوالٹی سروس متاثر ہو گی۔

کمپنیوں کی جانب سے سروس معیار میں کمی کے خدشات کیا درست ہیں؟

پاکستان کی ٹیلی کام انڈسٹری کی جانب سے پاور لوڈ شیڈنگ اور بیک اپ آلات پر 100 فیصد کیشن مارجن کی وجہ سے سروس کے معیار میں کمی، جس میں بجلی لوڈ شیڈنگ کے دوران ٹاورز بند ہونے سے سگنلز کی فراہمی کی بندش بھی شامل ہے، کے بارے میں ٹیلی نار کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا۔

ٹیلی نار کے ترجمان کے مطابق موجودہ حالات میں کوالٹی سروسز کی فراہمی ایک چیلنج بن چکی ہے کیونکہ ٹاورز کو آن رکھنے کے لیے جنریٹرز میں ڈیزل کی ضرورت ہے، جس کی قیمت صرف جون کے مہینے میں 62 فیصد تک بڑھی ہے۔

ترجمان کے مطابق اسی طرح کیش مارجن 100 فیصد بڑھا ہے اور پاور بیک اپ آلات مہنگے ہو گئے ہیں اور ان حالات میں کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

ٹیلی نار کے ترجمان نے تسلیم کیا کہ ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے بیک اپ آلات طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کے لیے ڈیزائن نہیں کیے گئے۔

پرویز افتخار کے مطابق کمپنیوں کی جانب سے جو مؤقف دیا جا رہا ہے کہ حالات ان کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں اور ان کی سروس کوالٹی متاثر ہو رہی ہے تو اس کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ان سے معاہدے کیے گئے تھے تو اس وقت کسی نے یہ تصور نہیں کیا ہو گا کہ اتنی زیادہ لوڈ شیڈنگ ہو سکتی ہے۔

پرویز افتخار کے مطابق ایسی اطلاعات ہیں کہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے یہ شکایات زیادہ سامنے آ رہی ہیں کہ وہاں پر ٹاورز بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران بند ہو جاتے ہیں

پی ٹی اے صارفین کو سروسز کی فراہمی کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے؟

اس معاملے پر رابطہ کرنے پر پی ٹی اے ترجمان نے تحریری مؤقف میں موبائل فون سروس لوڈ شیڈنگ کی خبروں کو مسترد کیا۔

ترجمان کے مطابق موبائل آپریٹرز پی ٹی اے کی طرف سے جاری کردہ لائسنس کی شرائط اور قواعد و ضوابط کے تحت کام کرتے ہیں۔

آپریٹرز کے لیے صارفین کو بلاتعطل ٹیلی کام خدمات فراہم کرنا ضروری ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ریگولیٹر کے پاس مناسب کارروائی کرنے کے لیے اختیارات موجود ہیں۔

تاہم دوسری جانب اسی اتھارٹی نے موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں کہا کہ کمپنیاں اپنی مشکلات کو تو اجاگر کر سکتی ہیں تاہم ان کی جانب سے دی گئی مالی وجوہات کا کوئی جواز نہیں۔

اتھارٹی کے خط میں کہا گیا کہ اہداف کے حصول کے سلسلے میں کوئی رعایت اسی وقت دی جا سکتی ہے، جب کمپنی کو درپیش مشکلات کے سلسلے میں ان کے پاس ٹھوس وجوہات ہوں۔

یہ بھی پڑھیں