پاکستان میں ڈالر کا اصل ریٹ آخر کیا ہے؟ 227 روپے، 260 روپے یا یہ دونوں ہی نہیں؟
بینکاری کی زبان میں ڈالر کی قیمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ ڈالر خریدنا چاہتے ہیں یا اسے فروخت کرنا اور کام کے لیے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں رائج ریٹ موجود ہوتے ہیں۔
عموماً بینکوں کے ذریعے ڈالر میں کی جانے والی ادائیگیوں پر انٹر بینک یعنی سرکاری ریٹ نافذ العمل ہوتا ہے تاہم متعدد پاکستانی بینک غیر ملکی ادائیگیوں پر ’اوپن مارکیٹ‘ میں ڈالر کے ریٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔
یعنی اگر آپ اپنے بینک اکاؤنٹ، جس میں پاکستانی روپے ہیں، سے کسی ایئرلائن کی ٹکٹ خریدیں گے تو آپ کو ہر ڈالر کے عوض زیادہ روپے دینا ہوں گے۔
جہاں سرکاری ریٹ 227 روپے ہے تو وہیں معاشی ماہرین ایک ’تیسری مارکیٹ‘ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے پاس ڈالر تو دستیاب ہیں مگر 35 سے 40 روپے مہنگے۔
تو ڈالر کے انٹر بینک اور اصل ریٹ میں اس قدر فرق کیوں ہے اور ڈالر کی اصل قیمت آخر ہے کیا؟ اور یہ مسئلہ آخر ہے کیا؟
ماہرِ معیشت اسد سعید کہتے ہیں کہ حکومت نے مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت طے کر رکھی ہے۔ ’جب طلب اور رسد میں فرق ہو گا تو دوسری مارکیٹیں بنیں گی۔‘
’اب انھوں نے اوپن مارکیٹ ریٹ، جس کا تعین منی ایکسچینج کرتے ہیں، اسے بھی کسی حد تک کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈالر کی اب ایک تیسری مارکیٹ بن گئی ہے کیونکہ لوگوں کو کہیں سے تو ڈالر خریدنے ہیں۔‘
اسد سعید دعویٰ کرتے ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی خام خیالی ہے کہ وہ ان طریقوں سے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
’تیسری مارکیٹ وہ ہے جس کے پاس ڈالر دستیاب ہیں‘
ماہر معیشت اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ڈالر کے اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹ میں 35 سے 40 روپے کا فرق پڑ چکا ہے، یعنی کسی شخص کو بیرون ملک سفر پر جانے کے لیے یا یہیں بیٹھے باہر سے کوئی چیز خریدنے کے لیے ہر ڈالر کے بدلے سرکاری ریٹ کے بجائے لگ بھگ 260 روپے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔
’اس سے ہوا یہ ہے کہ دیگر ممالک میں مقیم پاکستانی ملک میں ترسیلات زر بینکوں کے ذریعے بھیجنے کے بجائے ہنڈی حوالے سے بھیجنے کو ترجیح دیں گے۔ اس سے ترسیلات زر کم ہوں گی اور ایکسپورٹر اپنا منافع آہستہ آہستہ ملک میں واپس لائیں گے۔‘
گذشتہ سال وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے پر اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈالر کی اصل قیمت 200 روپے سے کم ہے اور انھوں نے یہ عندیہ بھی دیا تھا چند ہی ماہ میں پاکستان میں ڈالر کی قیمت کو اس کی اصل سطح یعنی 200 روپے تک لایا جائے گا۔ اس پر اشفاق حسن نے کہا کہ یہ بظاہر ایسا ہے جیسے ’خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہے۔۔۔ اس کی کوئی اصل قیمت نہیں، صرف حساب کتاب ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ڈالر کا سرکاری ریٹ روک کر رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایل سی (بینکوں کے ذریعے عالمی تجارت کا طریقہ) بند ہے اور ڈالر کی طلب بھی کم رکھی گئی ہے۔ ’ڈالر کو کسی نے رسی سے باندھ کر نہیں رکھا ہوا بلکہ اس کی طلب کم کر دی گئی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں قیاس آرائیاں کرنے والے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے (ریٹ میں) فاصلہ بڑھ رہا ہے۔‘
تاہم اسد سعید نے کہا کہ ویسے تو سرکاری سطح پر ڈالر کی قدر 227 پاکستانی روپے ہے مگر اس قیمت میں ’آپ کو کہیں سے ڈالر نہیں ملے گا۔‘
اسی ’تیسری مارکیٹ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے انگریزی اخبار بزنس ریکارڈ کی مدیر انجم ابراہیم کہتی ہیں کہ یہ وہ اوپن مارکیٹ ہے جس کے پاس ڈالر دستیاب ہے ’مگر اس میں 30 سے 35 روپے کا فرق آ رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری ریورس کر دی ہے۔ ’اسحاق ڈار کی یہ بات صحیح ہے کہ ڈالر سمگل ہو کر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔۔۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ اس (سمگلنگ) کے اعداد و شمار بہت بڑھا چڑھا کر ظاہر کیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جنھوں نے ڈالر خریدنا ہے وہ (مہنگی) قیمت پر (مجبوری میں) خرید رہے ہیں۔‘
اسد سعید نے کہا کہ کاغذوں میں ڈالر کی قیمت کو طے کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والی رقوم آفیشل ریٹ پر نہیں بلکہ اوپن مارکیٹ کے ریٹ پر آ رہی ہیں جو کہ 260 روپے ہے۔ ’اس سے ترسیلات زر کی قدر کم ہو جاتی ہے۔‘