پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیرِاعلٰی چوہدری پرویز الٰہی نے جمعرات کی شب پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرنے کے بعد اسے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کو بھجوا دیا تھا۔
آئینی طور پر گورنر پنجاب کے پاس دو دن کا وقت ہے جس میں انھیں وزیراعلٰی کی سمری پر عملدرآمد کرنا ہے تاہم اگر وہ اس وقت میں ایسا نہیں کرتے تو اسمبلی کو تحلیل تصور کیا جائے گا۔
اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی صوبے میں نگران حکومت کے قیام کے لیے کارروائی کا آغاز ہو گا جو پنجاب میں آئندہ انتخابات کروائے گی۔
آئین کے مطابق اگر کوئی اسمبلی اپنی مقررہ مدت مکمل کرنے سے پہلے ختم ہو جائے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان 90 روز کے اندر اس صوبے میں انتخابات کروانے کی پابند ہے۔
کیا پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے حزبِ اختلاف عدالت کا رخ کر سکتی ہے؟
وکیل اور آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ گورنر یا حزبِ اختلاف کی جماعتیں وزیرِ اعلٰی پنجاب کی سمری پر عملدرآمد رکوانے کے لیے عدالت کا رخ کریں اور عدالت اس میں کوئی کردار ادا کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جس موقع پر اور جس طریقہ کار سے وزیرِاعلٰی پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوائی ہے، یہ مکمل طور پر آئینی طریقہ کار ہے اور آئین ایسا کرنے کا انھیں مکمل اختیار دیتا ہے۔
’مجھے نہیں لگتا کہ ایسی صورت میں عدالت اس معاملے کا جوڈیشل ریویو کر سکتی ہے یا کرے گی۔‘
حافظ احسن کھوکھر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ماضی میں جب بھی ایسا ہوا کہ کوئی اسمبلی تحلیل ہوئی اور عدالتوں نے اس کو بحال کیا تو اس میں صورتحال مختلف تھی۔
’اس وقت یہ اسمبلیاں یا تو گورنر یا صدر کے کہنے پر تحلیل کی گئیں۔ اس پر عدالتوں نے ان کے اس عمل کا جوڈیشل ریویو کیا اور تحلیل کی گئی اسمبلیوں کو بحال کر دیا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن آئین میں ترامیم کے بعد صدر اور گورنر کے اختیار میں بہت کمی کر دی گئی جبکہ وزرائے اعلٰی اور وزیرِاعظم کے اختیار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
’موجودہ صورتحال میں حال ہی میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیرِاعلٰی پنجاب پرویز الٰہی نے اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوائی ہے۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی بھی اس موقف کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں ن لیگ اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پاس کوئی جواز نہیں بچا جس کی بنیاد پر وہ عدالت میں اسمبلی کی تحلیل کی سمری کو چیلنج کر پائیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وزیراعلٰی پرویز الٰہی نے مکمل طور پر آئینی طریقے سے سمری گورنر کو بھجوائی ہے انھوں نے کچھ بھی غیر آئینی نہیں کیا۔‘
ماہرین کے خیال میں ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کے پاس اسمبلی کی تحلیل رکوانے کے لیے عدالت کے پاس جانے کا راستہ نظر نہیں آتا۔
کیا وفاقی حکومت پنجاب میں گورنر راج نافذ کر سکتی ہے؟
وکیل اور آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ ’اب اس کا وقت گزر چکا ہے۔‘
ان کے خیال میں ایسا اس وقت ہو سکتا تھا جب تک وزیرِاعلٰی نے اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے سمری گورنر کو نہیں بھجوائی تھی۔
’ایک فنکشنل وزیرِاعلٰی کے اختیارات بہت زیادہ ہیں۔ اس کے اس اختیار کو صرف ایک ہی صورت میں روکا جا سکتا ہے جب اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ چکی ہو یا پھر جیسا حال ہی میں ہوا کہ گورنر ان کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں لیکن جب ایک مرتبہ وہ اعتماد کا ووٹ لے لیتے ہیں تو ان کو تمام تر اختیارات واپس مل جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعلٰی نے حال ہی میں اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل لے کے گورنر کے پاس کوئی ایسا جواز نہیں چھوڑا جس کی بنیاد پر وہ وفاقی حکومت سے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سفارش کر سکیں۔
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کے خیال میں ن لیگ اور اتحادی جماعتیں اس موقع پر گورنر راج نافذ کرنے کا نہیں سوچیں گی۔ ’نہ تو صوبے میں ایسے کوئی حالات ہیں اور نہ ہی آئینی طور ہر وہ ایسا کر سکتے ہیں۔‘
سلمان غنی کے خیال میں اب گورنر کے پاس سوائے وزیراعلٰی کی سمری پر عملدرآمد کرنے اور اسمبلی تحلیل کرنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔
کیا گورنر سمری ریویو کے لیے واپس بھجوا سکتے ہیں؟
آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر کے مطابق گورنر پنجاب ایسا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ آئین کے مطابق انھیں 48 گھنٹوں کے اندر وزیرِ اعلٰی کی طرف سے آئی سمری کی منظوری دینا ہو گی۔
’آئین میں اٹھارویں اور انیسویں ترامیم کے بعد صدور اور گورنروں کے پاس کسی سمری یا تجویز کو روک کر رکھنے یا پھر اسے وزیراعلٰی کو واپس ریویو کے لیے بھجوانے کے جو اختیارات تھے وہ سلب کر لیے گئے تھے۔‘
جمعرات کے روز گورنر پنجاب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وزیراعلٰی کی جانب سے بھجوائے جانے والی سمری انھیں موصول ہو گئی تھی۔
ایک مقامی نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے گورنر بلیغ الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ اس پر ’جو بھی فیصلہ کریں گے انتہائی بھاری دل کے ساتھ کریں گے۔ اسمبلی عوام کے منتخب نمائندوں کا ایوان ہے۔ اسمبلی کی تحلیل کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔‘
تاہم انھوں نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا جس سے اندازہ ہو پائے کہ وہ کیا راستہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاہم آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر کےمطابق آئین میں تمام اسمبلیوں اور سینیٹ کی مدت واضح طور پر دی گئی ہے۔ یہ مدت اس وقت شروع ہوتی ہے جب کسی اسمبلی میں انتخابات کے بعد اراکین حلف لے لیتے ہیں۔
’اور آئین میں یہ نہیں لکھا ہے کہ ملک میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر ہونا ضروری ہیں۔ اگر کوئی اسمبلی باقیوں کے مقابلے میں پہلے مدت پوری کر لیتی ہے یا اس کو ختم کر دیا جاتا ہے تو الیکشن کمیشن صرف اسی ایک اسمبلی کے انتخابات کروا سکتا ہیں۔‘
حافظ احسن کھوکھر کے مطابق موجودہ صورتحال میں اگر قومی اسمبلی تحلیل نہیں کی جاتی تو 90 دن کے اندر الیکشن کمیش پنجاب میں قبل از وقت کروا دے گا۔