تحریریں

مریم نواز کی پاکستان واپسی: کیا وہ مسلم لیگ ن کے لیے نواز شریف کا متبادل بن سکتی ہیں؟

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز تین ماہ تک لندن میں اپنے والد اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ قیام کے بعد پاکستان واپس پہنچ رہی ہیں جسے ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔

ان کی پاکستان واپسی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایک جانب وفاق میں اتحادی جماعتوں کی حکومت، خاص طور پر مسلم لیگ ن، کو معاشی بحران کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا منظر نامہ پیدا ہو رہا ہے۔

ایسے میں ان کی واپسی کو انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کی تیاری سے جوڑا جا رہا ہے اور خود مسلم لیگ ن کی قیادت کے مطابق مریم نواز کی واپسی کے بعد ’پارٹی کی تنظیم نو‘ ہو گی اور ن لیگ مضبوط ہو گی۔

سیاسی ماہرین کے مطابق اس وقت ان کے آنے کا بنیادی مقصد پنجاب کے آئندہ ہونے والے الیکشن ہیں جن کا اعلان الیکشن کمیشن نے اپریل کے مہینے میں کر رکھا ہے۔

ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا مریم نواز پارٹی کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو پائیں گی؟ یا پھر آنے والے الیکشن کے لیے جو ٹارگٹ انھیں دیے گئے ہیں وہ پورے ہو سکیں گے؟

اسی سے جڑا ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ خود نواز شریف پاکستان کب واپس آئیں گے؟

نواز شریف کی واپسی پنجاب کے الیکشن رزلٹ پر منحصر ہے‘

ن لیگ کے پارٹی رہنما اور سیاسی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کی اگلے الیکشن میں کامیابی کے لیے میاں محمد نواز شریف کا پاکستان آنا بے حد ضروری ہے تاہم بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ کے ایک اعلی عہدے دار کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز کچھ سیاسی اہداف کے ساتھ پاکستان آ رہی ہیں جن میں سب سے پہلا ٹارگٹ پنجاب میں ہونے والے الیکشن ہیں۔‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ن لیگی عہدے دار کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن اس بار بھاری اکثریت سے پنجاب اسمبلی میں واپس آنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے لیے وہ پنجاب اسمبلی کی دو سو سیٹوں پر کام کریں گی۔‘

’مریم نواز مختلف حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اراکین پر بھی کام کریں گی اور اگر وہ یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر نواز شریف واپس آئیں گے اور سیاسی مہم کا آغاز کریں گے۔‘

’یعنی نواز شریف کی واپسی پنجاب کے الیکشن رزلٹ پر منحصر ہے۔ اس لیے یہ مریم نواز کا پہلا سیاسی امتحان ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اب سیاسی مخالفین کا مقابلہ بھی ہر طرح سے ڈٹ کر کیا جائے گا جس کے لیے زیادہ تر چیزیں ہمارے حق میں ہیں۔‘

لیکن دوسری جانب بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے کیونکہ لوگ اب نواز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف اگلے الیکشن کی مہم خود چلائیں گے۔‘ ان کے مطابق ’اگلے ایک دو ماہ میں نواز شریف لازمی پاکستان آنے کا سوچیں گے۔‘

تاہم مسلم لیگ ن کے کئی رہنما ایسے بھی ہیں جو ابھی تک اس کشمکش کا شکار ہیں کہ پارٹی کا مستقبل کیا ہو گا۔

اگرچہ جماعت کی قیادت علاج کی غرض سے لندن میں موجود نواز شریف کی واپسی کو ڈاکٹروں کے مشوروں سے مشروط کرتی ہے تاہم معاشی مشکلات اور سیاسی تنقید کا سامنا کرتی ن لیگ کے کئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ نواز شریف فوری طور پر پاکستان واپس نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے قانونی مسائل کو حل کیے بغیر معاملات کا بہتری کی طرف جانا مشکل ہے۔

مریم نواز بطور چیف پارٹی آرگنائزر کتنی کارآمد ہوں گی؟

مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے یوتھ افئیرز شزہ فاطمہ کہتی ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نواز شریف کے پاکستان میں نہ ہونے سے پارٹی میں مسئلے ہوئے تھے۔‘

’ہماری پارٹی کے لوگوں میں تشویش بھی پائی جاتی تھی لیکن پھر مریم نواز نے اس دوران پارٹی کو سنبھالا اور آپ نے دیکھا کہ انھوں نے بڑے بڑے جلسے کیے اور عوام نے ان کا ساتھ دیا۔‘

’اس لیے چیزیں اب بہتری کی طرف جا رہی ہیں۔ اور جہاں تک رہی بات نواز شریف کے واپس آنے کی تو وہ جلد پاکستان میں ہوں گے۔‘

تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ پارٹی کی چیف آرگنائزر بننے کے بعد مریم نواز کے لیے ایک اہم چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے ’انکلز اور نوجوانوں کو کس طرح ایک ساتھ لے کر چلتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں احتیاط سے چلنا ہوگا تاکہ وہ پارٹی میں پائے جانے والے ہر قسم کے اختلاف ختم کر سکیں۔‘

نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر نواز شریف عام انتخابات سے پہلے پاکستان واپس نہیں آتے تو سیاست میں ان کا کردار محدود ہو جائے گا۔‘

جبکہ تجزیہ کار عارفہ نور کا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن نے مریم نواز کو پارٹی قیادت کی منتقلی اس امید پر کی ہے کہ وہ عوامی لیڈر ہیں اور جب بھی قیادت کی ایسی منتقلی ہوتی ہے تو پارٹی میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے اور یہی مسلم لیگ ن میں بھی ہو رہا ہے۔‘

’کچھ لوگ پارٹی چھوڑ کر بھی چلے جاتے ہیں۔ پارٹی کے وہ لوگ جو مریم کے والد کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ مریم ہمارے سامنے بڑی ہوئی ہے اور وہ تو بچی ہے

اس موضوع پر باتے کرتے ہوئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے یوتھ افئیرز شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک رہی بات مریم نواز کے چیف آرگنائزر بننے کی تو ہر سیاسی جماعت میں اختلاف ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی میاں نواز شریف کے فیصلے پر سوال نہیں اٹھاتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ بےنظیر کی مثال دیکھیں تو جب انھوں نے پارٹی کو لیڈ کیا تو وہاں بھی سینیئر لوگوں کو مسئلے ہوئے، پرانے لوگوں کے لیے نوجوان اور نئے خون کو قبول کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔‘

’اور خاتون ہو تو مردوں کے لیے یہ بات قبول کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ سینیئرز آپ کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، اپنے آپ کو منوانے کے لیے خواتین کو دس گنا زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔‘

تجزیہ کار سہیل واڑائچ کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں مریم پارٹی میں موجود دو گروپس کے درمیان اختلافات کو کافی حد تک حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔‘

دوسری جانب تجزیہ کار عارفہ نور نے ملسم لیگ ن کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آنے والے دن مسلم لیگ ن کے لیے آسان نہیں ہوں گے کیونکہ جس قسم کے انھوں نے معاشی فیصلے کیے ہیں اس سے وہ عوام میں غیر مقبول ہوئے ہیں، مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔‘

’اس لیے میں سمجھتی ہوں کے مریم نواز کے لیے عوام کو مسلم لیگ ن کی کارکردگی کے بارے میں بتانے کا چیلنج آسان نہیں ہو گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مریم نے اپنی پارٹی کا اینٹی اسٹیبلشمٹ بیانیہ لوگوں تک کامیابی سے پہنچایا لیکن پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کو دھچکا پہنچا جس کے بعد پارٹی کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صرف مریم نواز کے بس کی بات نہیں ہے، نواز شریف کو خود عمران خان کو کاؤنٹر کرنے کے لیے آنا ہو گا۔‘

عارفہ نور نے کہا کہ ’اگر آپ ماضی میں دیکھیں تو مسلم لیگ ن کی سیاست دو بھائیوں پر تھی۔ وفاق میں نواز شریف تھے تو پنجاب میں کام کرنے کے لیے شہباز شریف تھے، وہ ایک کامیاب جوڑی تھی۔‘

’مریم کے لیے یہ چیز بھی ایک چیلنج ہو گی کہ وہ اپنے آپ کو متبادل کے طور پر کیسے کامیاب بنائے گی۔‘

مسلم لیگ ن کا نیا بیانہ کیا ہوگا؟

بی بی سی گفتگو کرتے مسلم لیگ ن کے ایک رکن کا کہنا تھا پچھلے دنوں پارٹی میں کئی اختلاف بڑھتے ہوئے نظر آرہے تھے۔

’کئی سیئینرز کو مریم نواز کے چیف آرگنائزر بننے پر بھی شدید اعتراض تھا جو اب تک پایا جاتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کچھ سینیئر رہنما پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے کو بھی تیار تھے لیکن پھر معاملات کو سنبھالا گیا۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حالات کو دیکھیں تو ہم الیکشن میں عوام کے لیے کیا لے کر جائیں گے، مہنگائی عروج پر ہے، پارٹی کے پاس دینے کو کیا بیانیہ ہے یہ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں۔‘

’ہمیں جو معلوم ہوا ہے وہ یہی ہے کہ ہم پرانے بیانے کو ہی لے کر چلیں گے جس میں جنرل باجوہ اور جنرل فیص کی سیاسی مداخلت پر بات ہو گی۔‘

تجزیہ کار سہیل واڑائچ کا اس بارے میں خیال ہے کہ ’اگر نواز شریف پاکستان نہیں آتے اور اگر ایک نیا بیانہ نہیں دیں گے تو آنے والے الیکشن میں ان کے لیے عمران خان کا مقابلہ کرنا بھی بہت مشکل ہوگا۔ اگر بات کریں پنجاب کی تو اگلا الیکشن پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کا ہی ہو گا۔‘

تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن ایک زعم میں تھی کہ پنجاب ان کا ہے لیکن اب صورتحال اس کے برعکس ہے کیونکہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کی پارٹی نے ایک نئی سیاسی طاقت پکڑ لی ہے۔ ‘

’اس لیے مسلم لیگ ن کے لیے ضروری ہے کہ وہ زعم سے نکلیں اور میدان میں آکر اپنے معاملات درست کریں۔‘

سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ ’ان کی طرف سے یہ کہا تو گیا ہے کہ ہم نیوٹرل ہیں اور ہم سیاست میں مداخلت نہیں کریں مگر عملی طور پر کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔‘

’پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ ہی ان کا عمل دخل رہا ہے اور جو بھی سیاسی پارٹی اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے وہ ان کی طرف ہی دیکھتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں