تحریریں

نظم ” بے حیا ” پسند شعیب کیانی

نظم: "بےحیا”

ہمیں تو ہیں وہ
جو طے کریں گے
کہ اِن کے جسموں پہ کس کا حق ہے

ہمیں تو ہیں وہ
جو طے کریں گے
کہ کس سے ان کے نکاح ہوں گے
یہ کس کے بستر کی زینتیں ہیں

وہ کون ہو گا جو اپنے ہونٹوں کو
ان کے جسموں کی آب دے گا

بھلے محبت کسی کے کہنے پہ
آج تک ہو سکی، نہ ہو گی
مگر یہ ہم طے کریں گے
ان کو کسے بسانا ہے اپنے دل میں

ہم ان کے مالک ہیں
جب بھی چاہیں
انہیں لحافوں میں کھینچ لائیں
اور ان کی روحوں میں دانت گاڑیں

یہ ماں بنیں گی
تو ہم بتائیں گے
ان کے جسموں نے کتنے بچوں کو ڈھالنا ہے

ہمارے بچوں کے پیٹ بھرنے
اگر یہ کوٹھے پہ جا کے اپنا بدن بھی بیچیں
تو ہم بتائیں گے
کس کو کتنے میں کتنا بیچیں

ہمیں کو حق ہے
کہ ان کے گاہک (جو خود ہمیں ہیں) سے
ساری قیمت وصول کر لیں

ہمیں کو حق ہے کہ ان کی آنکھیں،
حسین چہرے، شفاف پاؤں،
سفید رانیں، دراز زلفیں
اور آتشیں لب دکھا دکھا کر
کریم، صابن، سفید کپڑے، اور آم بیچیں
دکاں چلائیں، نفع کمائیں

ہمیں تو ہیں جو یہ طے کریں گے
یہ کس صحیفے کی کون سی آیتیں پڑھیں گی

یہ کون ہوتی ہیں
اپنی مرضی کا رنگ پہنیں
سکول جائیں، ہمیں پڑھائیں
ہمیں بتائیں
کہ ان کا رب بھی وہی ہے جس نے ہمیں بنایا
برابری کے سبق سکھائیں

یہ لونڈیاں ہیں یہ جوتیاں ہیں
یہ کون ہوتی ہیں اپنی مرضی سےجینے والی؟

بتانے والے ہمیں یہی تو بتا گئے ہیں

جو حکمرانوں کی بات ٹالیں
جو اپنے بھائی سے حصہ مانگیں
جو شوہروں کو خدا نہ سمجھیں
جو قدرے مشکل سوال پوچھیں
جو اپنی محنت کا بدلہ مانگیں
جو آجروں سے زباں لڑائیں
جو اپنے جسموں پہ حق جتائیں
وہ بے حیا ہیں

شعیب کیانی

یہ بھی پڑھیں