فہد حجاب نام کا ایک عربی شخص سعودی ائیرلائین کی ایک پرواز سے لاہور ائیرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے۔ فہد وہیل چئیر پر اُترتا ہے تو اُسے چند پاکستانی ائیرپورٹ پر خوش آمدید کہتے ہیں اور باہر ایک ایمبولینس کھڑی ہوتی ہے جس میں اُسےلٹا کر ایک نامعلوم منزل کی طرف لے جانا شروع کردیا جاتا ہے۔ ایمبولینس لاہور کے ایک بڑے ہوٹل کی پارکنگ میں رُکتی ہے جہاں فہد کا کمرہ بُک ہوتا ہے۔ پاکستانی باشندوں میں ایک عربی بولنے والا مترجم بھی ہوتا ہے جو فہد کے ساتھ ہی ہوٹل کے ایک الگ کمرے میں رہائش اختیار کرلیتا ہے۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسیز جب فہد حجاب کو ائیرپورٹ سے وہیل چئیر پر باہر آتے دیکھتی ہیں تو اُنہیں کچھ شک گزرتا ہے کہ یہ فہد نہ تو پاکستان بزنس کے سلسلے میں آیا ہے اور نہ ہی یہ سیاح ہوسکتا ہے کیونکہ اسکی تو اپنی حالت اتنی ٹھیک نہیں ہے اور وہیل چئیر پر یہ بیٹھ کر باہر آرہا ہے۔ ایف آئی اے، آئی بی کے افسران فہد حجاب کا پیچھا کرتےہیں تو ائیرپورٹ پر کھڑی ایمبولینس اُنکے شک کو اور تقویت دیتی ہے۔
ایف آئی اے اس سعودی شہری پراپنی نگرانی سخت کردیتی ہے۔ موبائل فون کے ڈیٹا کے سے پتہ چلا کہ یہ صاحب پاکستان میں گُردہ تبدیل کروانے آئے ہیں اورایک بین الاقوامی گروہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر گرُدوں کی فروخت کا غیر قانونی کاروبار کررہا ہے۔
اب میں منظر کو تھوڑا سا بدلتے ہوئے آپکو پیر محل کے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں لئیے چلتا ہوں جہاں پر ڈاکٹر سفید گاؤن پہنے مسیحا کے روپ میں موجود ہیں سینکڑوں کی تعداد میں اس ہسپتال میں مریض آتے ہیں۔ صحت کا شعبہ پنجاب میں بہت ہی پیچھے ہے جسکی وجہ سے پیر محل، سندھیلیانوالی اور قرب و جوار کے غریب لوگوں کے لئیے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
سعودی شہری فہد حجاب کی لاہور سے اگلی منزل ملک کا کوئی بڑا ہسپتال نہیں بلکہ پیرمحل میں ابراہیم ہسپتال کے ساتھ موجود ایک خالی کوٹھی ہے جس کے متعدد کمروں کو آپریشن تھیٹر میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ابراہیم ہسپتال میں ایک نیفرالوجسٹ یعنی ماہر امراض گردہ ڈاکٹر محمد شاہد کی سربراہی میں ابراہیم ہسپتال کے دیگر معاون عملہ کی مدد سے غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر گردے ٹرانسپلانٹ کررہے تھے۔
یہ گھناؤنا کاروبار ایک بڑے عرصے سے چل رہا تھا جسے چوہدری محمد سرورسابقہ گورنر پنجاب کے یہ دو سگے بھانجے کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ چلا رہے تھے۔
اس فعل کا سب سے گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ جو عورتیں زچگی کے لئیے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں آتی تھیں توگائنا کالوجسٹ یعنی ماہرامراض زچگی لیڈی ڈاکٹر سب سے پہلے مریضہ کے خون کا گروپ ٹیسٹ کرواتی اور دیگر گردوں کے ٹیسٹ کرواتی۔ پھر یہ رپورٹ کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کو بھیج دی جاتی۔ یہ انٹرنیٹ پر گردوں کے منتظر مریضوں سے ڈیٹا کو ملاتے۔ پھر زچگی کے لئیے آنے والی خاتون کے علم میں لائے بغیر اُس کے ایک گردے کا سودا ایک کروڑ روپے میں طے کرتے۔ غیر ملکی جسے گردے کی ضرورت ہوتی اُسے عورت کی زچگی سے ایک دو دن پہلے بُلوا لیتے۔ پھر عین زچگی کے دن ڈاکٹر عورت کا آپریشن کرتے اور نئے پیدا ہونے والے بچے کی ماں کا گردہ بھی نکال لیتے۔ زچگی کا آپریشن کروانے آنے والی خاتون کو علاج میں سہولتیں دیتے اور بہت ہی کم پیسے لیتے۔ وہ غریب عورت ان ضمیر فرشوں کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر دُعائیں دیتی رُخصت ہوجاتی اور سمجھتی کہ ابھی دُنیا میں کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کی صورت میں فرشتے موجود ہیں جو غریبوں کے دُکھ درد کو سمجھتے ہیں۔ وہ سوچتی کہ اگر یہی میرا بڑا آپریشن کسی اور جگہ ہوتا تو میرے کم از کم پچاس ہزار روپے خرچ ہوجانے تھے جبکہ ان نیک دل لوگوں نے میرے پانچ ہزار بھی نہیں لگنے دئیے۔ وہ غریب عورت اپنے گُردے کے نکالے جانے سے لاعلم رہتی ہے اور ہر ملنے والے کو ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کی تعریفیں کرتی رہتی ہے۔ یہ بے ضمیر لوگ ڈاکٹر سے مل کر ایک کروڑ روپیہ اپنی جیبوں میں بھر لیتے اور پارسائی کا لبادہ اوڑھے معاشرے سے عزت سمیٹنے میں مشغول رہتے۔
یہ تو وہ سلوک تھا جو زچگی کے لئیے آنے والی خواتین کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ظلم یہ کیا جاتا کہ مختلف دلالوں سے رابطہ کیا جاتا اُنہیں ڈیمانڈ بتائی جاتی کہ اس خون کے گروپ کا گردہ چاہیے۔ وہ دلال جرائم پیشہ لوگ ہوتے تھے جو کبھی بندوق کے زور پر کسی غریب کو اغواء کرکے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں لے آتے جہاں پر ڈاکٹر اُس کا گردہ نکال لیتے یا کبھی غربت کے ہاتھوں مجبور اُن لوگوں کی مجبوریوں کا سودا کرتے اور اُنہیں پچاس سے نوے ہزار روپے تک ہاتھ میں تھما دیتے اور اُس کا گردہ نکال کر کم از کم ایک کروڑ روپے میں فروخت کردیتے۔
یہ واقعہ 13 اکتوبر کا ہے جب ایف آئی اے کے مخبر نے اطلاع دی کہ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کو ساتھ لیا پولیس اور انتظامیہ کے افسران کو ساتھ لیا اور ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کے ساتھ ملحقہ کوٹھی پر چھاپہ مارا تو وہاں پر ڈاکٹر شاہد اپنی آپریشن تھیٹر کی ٹیم کے ساتھ موجود تھا اور عورت کا گردہ نکال کر سعودی شہری فہد حجاب کے ٹرانسپلانٹ کررہا تھا۔
ایف آئی اے کی ٹیم کو دیکھ کر ڈاکٹر گھبرا گیا اور آپریشن ادھورا چھوڑنے لگا۔ لیکن ایف آئی اے اور محمکہ صحت کی ٹیم نے کہا کہ اس پروسیجر کو اب مکمل کرو۔ لیکن ڈاکٹر شاہد کے ہاتھ کانپنے لگے اور وہ بار بار کہتا رہا کہ اب مجھ سے نہیں ہونا۔ یہ کیسا مسیحا کے روپ میں شیطان تھا کہ جب غریبوں کے گردے نکال رہا تھا وہ لوگ جن کے پاس بیچنے کو اُنکے جسم کے اعضاء کے علاوہ کچھ نہ تھا جب اُنکےگُردے نکالتا تھا تب اسکے ہاتھ نہیں کانپے لیکن جونہی ایف آئی اے کے افسران کو دیکھا تو ہاتھ کانپنے لگ گئے۔ جب غریب پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس بے ہوش لوگ اس ڈاکٹر کے سامنے سٹریچر پر لٹائے جاتے تب اُنکی شکلیں دیکھ کر اس ظالم کو ترس نہ آیا، نہ اس نے ایک دفعہ کہا کہ "یہ ظلم مجھ سے نہیں ہوتا” بلکہ چکمتے دمکتے نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کر یہ گھناؤنا فعل خوشی خوشی سرانجام دیتا۔
ایف آئی اے کے افسران آپریشن تھیٹر سے باہر چلے گئے اور محکمہ صحت کے ڈاکٹر افسران کو آپریشن تھیٹر میں چھوڑ گئے کہ اس کا آپریشن اب مکمل کریں اور انسانی جان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ خیر جیسے تیسے ڈاکٹر شاہد نے آپریشن مکمل کیا تو محکمہ صحت کی ٹیم نے فوری طور پر سعودی شہری اور گردہ فروخت کرنی والی عورت کو الائیڈ ہسپتال فیصل آباد شفٹ کیا تاکہ ان کا بہتر علاج ہوسکے۔
جب وہیں پر ڈاکٹر سے ایف آئی اے کی ٹیم نے سوال وجواب کئیے تو ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ میں تو صرف آپریشن کی فیس لیتا ہوں اصل گُردوں کی خرید وفروخت کا مکروہ دھندا تو نجف ریاض اللہ اور کشف ریاض اللہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں ملزمان فرار ہوگئے لیکن ایک دن بعد ہی کشف ریاض اللہ کو ایف آئی اے نے اُسکے موبائل کی لوکیشن سے گرفتار کرلیا ہے جبکہ اسکے دوسرے بھائی نجف ریاض اللہ کا تاحال کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ وہ بھی گرفتار ہوا ہے یا نہیں۔
اس واقعے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ چونکہ ملزمان سابقہ گورنر پنجاب چوہدری سرور کے سگے بھانجے ہیں اور اثرورسوخ والے لوگ ہیں اس لئیے کسی بھی صحافی نے اس گھناؤنے کاروبارکو اُس طرح سے بے نقاب نہیں کیا جیسے اسکا حق بنتا تھا۔ صاف بات ہے کہ مقامی صحافیوں کے بھی ان سے بہت اچھے تعلقات تھے اس لئیے اس واقعہ کو صرف ڈاکٹر شاہد کے سر تھوپ کر معاملہ کورفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی اور ایسا تآثر دیا گیا کہ جیسے یہ ایک ڈاکٹر شاہد جیسے فرد واحد کا فعل تھا لیکن کمال ہوشیاری سے اپنے قلم کی طاقت کو دباتے ہوئے کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کا نام تک نہیں لکھا۔ یہ ہمارے علاقے میں کیسی صحافت ہورہی ہے؟ وہ صحافی جن کا اولین مقصد ہی عوام تک ٹھیک اور سچی معلومات کا پہنچانا ہے جب وہ ہی اپنے قلم سے بددیانتی کرنے لگ جائیں، جب حُرمت قلم کے پاسبان اُسے چوک میں رکھ کرنیلام کردیں پھر ہم جیسے باضمیر لوگ اپنی آواز کو نہ بُلند کریں تو یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر صحافیوں کی عزتوں کا جنازہ نکالتے ہو۔ جب یہ خود اپنی اپنے مقدس پیشے کو چند ٹکوں کے عوض فروخت کرتے ہیں تب انہیں شرم اور غیرت کیوں نہیں آتی؟
کیا ان صحافیوں کا یہ فرض نہیں تھا کہ ملزم جتنا بھی طاقتور ہوتا اُس کے خلاف اپنی آواز بُلند کرتے؟ انکی آنکھوں کے سامنے غریب لوگوں کے گُردے نکال نکال کر فروخت کردئیے گئے یہ اپنی لمبی لمبی زبانیں اپنی آنکھوں پر لپیٹ کر سوتے رہے؟
آئیندہ چند دنوں میں یہ واقعہ ملک کے تمام ٹی وی چینلز کی شہہ سُرخی بنے گا غریبوں کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ہم ہر میڈیا گروپ کو لکھیں گے اور پوچھیں گے کہ آخر کونسی مجبوری تھی کہ یہاں پر کوئی سرعام کی ٹیم، کوئی جُرم بولتا ہے کی ٹیم یا ایف آئی آر پروگرام کی ٹیم نہ پہنچ سکی؟ صرف اس لئیے کہ جو ملزمان ہیں وہ بہت طاقتور ہیں؟