کندی نام عرب قبیلے کندا کی رکنیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ کندی کا شجرہ نسب ابتدائی طور پر اسلام قبول کرنے والے اور پیغمبرِ اسلام کے دوست الاشعت بن قیس سے جڑتا ہے۔ الکندی کے والد کوفہ کے شہزادے تھے اور انھوں نے ایک مالدار اور اعلیٰ نسبی خاندان میں آنکھ کھولی۔ انھیں ’عربوں کے فلسفی‘ کا لقب ملا، جو اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ عربی میں فلسفے کی بنیاد انہی نے رکھی۔
یہ ایک ایسا لقب ہے جو اس لیے بھی سچ ہے کیونکہ الکندی سے پہلے عربی میں فلسفے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ الکندی کا فلسفے کی جانب رجحان ان کے ساتھیوں میں کچھ خاص مقبول نہیں تھا۔ چلیے تھوڑی دیر کے لیے ایک منظر کا خاکہ کھینچتے ہیں۔یہ منظر 850 عیسوی میں بغداد کی کتابوں کی مارکیٹ کا ہے جہاں کتب بینی کے شوقین افراد انتہائی پرجوش دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مقبول نثر نگار، علومِ دینیات کے ماہر اور کئی مشہور کتابوں کے لکھاری جاحظ کی کتاب کی رونمائی ہونا تھی۔
اس موقع پر ان کے حریف لکھاری بھی وہاں موجود تھے تاکہ ’بابائے عربی نثر‘ کی تازہ ترین کتاب کے مواد کے بارے میں جان سکیں۔
ابو عثمان عمرو بحرالکنانی البصری المعروف جاحظ کی آخری دو کتابوں، کتاب البیان والتبیین اور سات جلدوں پر مشتمل کتاب الحیوان نہ صرف پچھلی دہائی کی مقبول ترین کتب میں سے تھیں بلکہ ان کے باعث عرب انداز بیان اور ان کے حریفوں پر کبھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ گئیں۔
کتاب الحیوان خاص طور پر مقبول ہوئی، یہاں تک کہ جاحظ کے سامنے ارسطو کا عظیم کام بھی فرسودہ لگنے لگا۔ کچھ ہی برس پہلے تک کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جو ارسطو کے کام کے ترجمے کے علاوہ کوئی اور چیز پڑھنا چاہتا ہو۔ ارسطو کی الخطابہ، مابعدالطبیعیہ اور المقولات جیسی کتابیں عوام میں بہت مقبول تھیں اور وہ ان کی دانائی کے شیدائی تھے۔
تاہم اب جاحظ کے باعث قارئین عظیم الہیات تنازعات پر کتابیں پڑھنا چاہتے تھے۔
جاحظ کے پبلشر نے یہ بات عام کر دی تھی دی کہ وہ اپنی تازہ ترین کتاب میں ان موضوعات پر بات کریں گے جنھوں نے اس وقت عراق کے بہترین ذہنوں کو الجھا رکھا تھا، یعنی ’کیا خدا نے بہترین دنیا تیار کی؟ کیا وہ اس سے بہتر دنیا
تشکیل دے سکتا تھا، جس میں بُری بیماریاں اور تکالیف نہ ہوتیں؟ اگر وہ ایک بہتر دنیا تشکیل دے سکتا تھا تو اس نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اور کیا شر کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ خدا نہیں ہے؟‘
جب جاحظ کی یہ کتاب شائع ہوئی تو اس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور اسے سمجھ سے بالاتر قرار دیا گیا۔ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جاحظ نے اس کتاب کو کتاب البخلا کا نام دیا۔ وہاں موجود کسی شخص نے جملہ کسا کے ایک بخیل شخص کا شر کے مسائل سے کیا لینا دینا۔
سب نے کہا کہ یہ بوڑھا آدمی بیماری کے باعث اپنے حواس کھو بیٹھا ہے۔ ایک بدنیت حریف نے کہا کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اس نے کیا لکھا ہے۔
تاہم جب لوگوں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو یہ دراصل مزاح کی ایک قسم تھی جس میں معاشرے کے آداب اور چند افراد پر طنز کیا گیا تھا۔
اس کے صفحات ہم عصروں کے بارے میں تفصیلات سے بھرے ہوئے تھے۔ ممکن ہے کہ ان کرداروں میں سے کچھ کے نام تبدیل کردیے گئے ہوں۔ ہجوم نے جاحظ کی جانب سے دیے گئے لفظی خاکوں میں موجود کرداروں کی نشاندہی کرنے کی کوششوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔
الکندی کے اشرافیہ کے ساتھ مراسم کے باعث خلیفہ کے دربار میں ان کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ خلیفہ المعتصم جنھوں نے 833 سے 842 تک حکمرانی کی نے الکندی کو ارسطو کی ’فرسٹ فلاسفی‘ پر کام کرنے کی ذمہ داری دی۔
خلیفہ کی جانب سے فلسفے پر کتاب لکھوانے کا اقدام اکثر افراد کے لیے حیرت انگیز تھا کیونکہ انھیں سلطنت میں ایک سخت گیر شخص ہونے کی وجہ سے سراہا جاتا تھا، ایک ایسا جرنیل جو اپنے ہاتھ سے کسی شخص کا دماغ پاش پاش کر دے۔ شاید المعتصم پوری زندگی جنگ کے میدانوں میں گزارنے کے بعد اپنی ذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کرنا چاہتے تھے۔
الکندی کی لائبریری اور ان کے بُرے دن
الکندی کے برے دن خلیفہ المتوکل کے دورِ حکومت (847-861) میں آئے اور ان کے اشرافیہ کے ساتھ روابط اور امیر گھرانے میں پیدائش کا بھی انھیں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ خلافت کے دور میں بغداد ایک انتہائی مسابقتی معاشرہ تھا۔ یہاں مقابلے کا ایک اہم شعبہ سائنس تھا۔
الکندی کی اس دور کے مشہور ریاضی دانوں بنو موسیٰ برادران سے نہیں بنتی تھی جنھیں خلیفہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ انھوں نے خلیفہ کو منایا کہ وہ کندی کو وہاں چوٹ پہنچائیں جہاں وہ سب سے زیادہ کمزور ہیں، یعنی ان سے ان کی لائبریری لے لی جائے۔
اس طرح لائبریری کے بغیر کسی بھی دوسرے سکالر کی طرح کندی بھی کام نہیں کر پائے گا لیکن اس کہانی میں ایک اہم موڑ ابھی آنا تھا اور بنو موسیٰ بھائیوں کو سزا ملنے کا وقت بھی جلد آ پہنچا تھا۔
خلیفہ کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ ان کی سلطنت درست انداز میں چلائی جائے اور اس میں مختلف پیچیدہ نہروں اور آبی گزرگاہوں کا انتظام بھی شامل تھا جو عراق کے بڑے شہروں سے گزرتی تھیں۔ بنو موسیٰ بھائیوں کی جانب سے ایک نااہل انجینیئر کو ایک نہری منصوبے پر فائض کیا گیا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا اور اسے صرف الکندی کے ایک دوست ہی بچا سکتے تھے۔
یہاں سے بنو موسیٰ بھائی خلیفہ کی نظروں میں گر گئے اور یوں الکندی کی لائبریری انھیں مل گئی۔ نویں صدی کے دوران عراق میں متعدد پولیمتھ یعنی متعدد علوم کے ماہر افراد کی کمی نہیں تھی۔ تاہم ایسے دور میں بھی الکندی کی متعدد علوم میں مہارت اور ذہانت ان کی اہمیت اور رتبے میں اضافے کا باعث بنی۔
میں لانے کے لیے کسی خالق کی ضرورت نہیں۔
تیسرے حصے میں واحدانیات کے صحیح معنوں پر بات کی گئی ہے جبکہ چوتھے حصے میں خدا کی واحدانیت پر بات کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس کے وجود کی تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی یعنی دوسرے لفظوں میں وہ ناقابلِ بیان ہے۔
یہ چار موضوعات الکندی کے چار بنیادی فلسفیانہ خدشات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے کام کے بچے ہوئے ٹکڑوں اور اقوال سے ان کے ایک پسندیدہ موضوع کی نشاندہی ہوتی ہے اور وہ ہے پروردگاری۔ یعنی تخلیق کی نوعیت سے متعلق مشہور فلسفیانہ سوال جس پر 850 میں اکثر افراد سر دھنتے رہے اس کے لیے الکندی ’غیرواضح‘ ہو گا۔ ہاں دنیا بہترین ہے، انسان کو بس اسے صحیح طرح سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسے سمجھنے کے حوالے سے اشارے الکندی کی فلسفیانہ نظام میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
یہ اہم موضوعات ان کے پسندیدہ تھے ان کا فلسفیانہ ’جنون‘ ہیں اور ان موضوعات کے بارے میں وہ بار بار بات کرتے ہیں۔ جیسے فلسفے کی ضرورت، کائنات کی تخلیق، واحدانیات کے معنی، خدا کا ناقابلِ بیان ہونا اور پروردگاری۔
وہ فلسفے کو ایک تقویٰ کی ایک خاص قسم کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے ذریعے تعلیم یافتہ اشرافیہ اپنی زندگیوں کی تصحیح کر کے جنت میں داخل ہو سکتی ہے۔
ان کا موضوعات بنیادی طور پر اسلامی نظریات کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کے نزدیک فلسفے اور دین کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ الکندی کے لیے فلسفہ دینی قیاس کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور فلسفہ قران میں نازل ہونے والی وحی کے عین مطابق ہے۔
لیکن اسے فرسٹ فلاسفی کا نام کیوں دیا گیا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب خدا کی واحدانیت سے متعلق تھی۔ وہ پہلا سبب جس کے وجود سے ہر چیز سے چلتی ہے۔ اور کیوں کے خدا ہر چیز سے پہلے آتا ہے اسی طرح عدد ’ون‘ (1) بھی سب سے پہلے آتا ہے اور اسے الکندی اور ان کے ساتھی ایک عدد نہیں سمجھتے تھے۔ تو ’فرسٹ فلاسفی‘ تمام فلسفیانہ قیاس سے پہلے آتا ہے جس میں فزکس اور اخلاقیات بھی شامل ہے۔
پھر جب اس سے کچھ اثر نہ ہوا تو انھوں نے شہد بھی پی کر دیکھا لیکن یہ علاج ویسے ممکن نہ ہو سکا جیسے الکندی نے سوچا تھا۔ شراب اور شہد سے پیدا ہونے والی گرمی ان کی رگوں سے ان کے گھٹنے تک منتقل نہ ہوئی اور وہ توازن نہ بن سکا جس کی ان کو امید تھی۔ اس کے برعکس بلغم نے ان کے اعصابی نظام پر حملہ کر ڈالا اور یہ درد ان کے دماغ تک منتقل ہوا اور وہ دورہ پڑنے کے باعث وفات پا گئے۔