تحریریں

کیا کسی ملک سے بدعنوانی اور رشوت ستانی کو ختم کرنا ممکن ہے؟

یہ سال 2002 تھا اور مشرقی یورپ کے ملک جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی میں شادی کی تقریب کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔

دولہا ایک جوان پولیس والا تھا۔ ایک سال قبل ہی انھوں نے ہزاروں ڈالر رشوت دے کر ٹریفک پولیس میں نوکری حاصل کی تھی۔ نوکری برقرار رکھنے کےلیے انھیں ہر ہفتے رشوت دینی پڑتی تھی۔ وہ بھی ایسی صورت میں جب ان کی ماہانہ تنخواہ صرف 10 ڈالر تھی۔

آپ کے ذہن میں سوال اٹھے گا کہ پھر رشوت کیسے دیتے ہوں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ خود بھی کھل کر رشوت لیتے تھے۔

شادی کے موقع پر انھیں ساتھیوں کی جانب سے تبلیسی کی اس شاہراہ پر تحفے کے طور پر تین دن کی پوسٹنگ ملی جہاں اوپر کی کمائی سب سے زیادہ تھی۔

جارجیا کی یہ تصویر 21ویں صدی کے ابتدائی سالوں کی ہے۔ اس وقت یہ ملک دنیا کے سب سے بدعنوان ممالک میں شامل تھا۔

ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کرپشن (بدعنوانی) کسی ملک کی معیشت کے لیے کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

دنیا کے کئی ممالک کو اس مسئلے کا سامنا ہے لیکن یہ ممالک اس کا کیا کر سکتے ہیں؟

روزمرہ کی زندگی میں بدعنوانی کا سامنا کرنے والے بہت سے لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ کیا کسی ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہے؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے چار ماہرین سے بات کی جنھوں نے جارجیا میں بدعنوانی پر قابو پانے کے طریقوں کو قریب سے دیکھا ہے۔

کرپشن نامنظور

وزیر قانون میخائل ساکاشولی کر رہے تھے۔ اس سے دو سال قبل وہ اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب انھوں نے کابینہ کے اجلاس میں تصویریں لہراتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ سرکاری افسران عوام کے پیسوں سے عالی شان عمارتیں خرید رہے ہیں۔

اب انھوں نے اپنی ایک پارٹی بنا لی تھی۔ ان کا بنیادی مقصد کرپشن سے لڑنا تھا۔

نومبر سنہ 2003 میں وہ اپنے حامیوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہوئے۔ اس وقت کے صدر فرار ہو گئے۔ دو ماہ بعد نئے انتخابات ہوئے اور میخائل ساکاشولی کے اتحاد کو بے مثال 96 فیصد ووٹ ملے۔

اس کے بعد جارجیا میں اصلاحات کا دور شروع ہوا۔ نوجوانوں کی ایک ٹیم اس کام میں لگی ہوئی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ 20 اور 30 کی دہائی میں تھے۔

نئی شروعات

جارجیا میں اصلاحات کا آغاز کرنے والی ٹیم کا حصہ شوٹا اوٹیاشویلی کہتے ہیں: ‘جب میں پہلی بار وزارت پہنچا تو میرے ذہن میں جو پہلی تصویر آئی وہ عجیب سی تھی۔ وہاں کی عمارت میں دراڑیں پڑ رہی تھیں اور وہاں سے بہت مختلف بو آ رہی تھی۔ وہاں کا سیویج سسٹم ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا جو کہ ان دنوں بہت عام بات تھی۔’

شوٹا اوٹیاشویلی اب تھنک ٹینک ‘جارجین فاؤنڈیشن فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز’ میں سینیئر فیلو کے طور پر کام کرتے ہیں۔

سنہ 2004 میں نئی حکومت نوجوان ٹیلنٹ کو بھرتی کر رہی تھی۔ شوٹا کو بھی شامل ہونے کی آفر ملی۔

انھیں اور اس کے ساتھیوں کو بتایا گیا کہ ان کے سامنے ایک موقع ہے۔ اگلے آٹھ یا نو مہینوں میں انھیں کچھ کر دکھانا ہے جس سے فرق پڑے اور بدلاؤ نظر آئے۔

جارجیا میں بدعنوانی سے نمٹنے کے وعدے تو ماضی میں بھی کئی بار کیے گئے لیکن ان پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ ایسے میں نئی حکومت جانتی تھی کہ اسے اپنی شبیہ بچانے کے لیے تیزی سے قدم اٹھانے ہوں گے۔

شوٹا بتاتے ہیں: ‘ہم نے اصلاحات ٹریفک پولیس سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ٹریفک پولیس کسی بھی پولیس فورس کا سب سے اہم حصہ نہیں ہے لیکن یہ سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ جب تک عوام روز مرہ کی زندگی میں بدعنوانی کا سامنا کرتے رہیں گے انھیں یہ یقین نہیں آئے گا کہ حکومت اس معاملے پر کچھ کر رہی ہے۔’

یہ بھی پڑھیں