تحریریں

سمارٹ انگوٹھی: شادیوں میں روایتی سونے کی انگوٹھیوں کا متبادل جو دل کی دھڑکن بھی سناتی ہے

چیک جوڑے جیری اور اندرزیج ویدرال نے اپنی شادی کے دن روایتی سونے کی انگوٹھیوں کے بجائے ایک دوسرے سے سمارٹ انگوٹھیوں کا تبادلہ کیا۔

سمارٹ رنگ ایک پہننے کے قابل الیکٹرانک ڈیوائس ہے جو سمارٹ واچ کی طرح کام کرتی ہے۔ عام طور پر یہ انسانوں کے دل کی دھڑکنوں کو مانیٹر کرتی ہیں اور رابطے میں آئے بغیر ادائیگی کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں تیزی سے بڑھتا رجحان ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں ایسی ٹیکنالوجیز کی مارکیٹ 21 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔

تاہم، جیری اور اندرزیج کی سمارٹ انگوٹھی ایسی ہی دیگر انگوٹھیوں سے زیادہ رومانوی ہیں۔ وہ انھیں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکنیں دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

ہر انگوٹھی بلیو ٹوتھ کے ذریعے کسی ایپ یا پہننے والے کے سمارٹ فون سے جڑی ہوتی ہے اور دونوں انگوٹھیوں کو ایپ کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑا جاسکتا ہے۔

لہٰذا جب بھی جیری اپنی شادی کی انگوٹھی کو دبائیں گے یہ اندرزیج کے دل کی دھڑکن کے ساتھ دھڑکنے لگتی ہے اور اس دھڑکن کو سکرین پر سرخ لکیر کی شکل میں دکھاتی ہے۔ یہی فنگشن اندرزیج کی انگوٹھی میں بھی ہے۔

جب تک ان کے موبائل فون پر انٹرنیٹ چل رہا ہے، وہ ایک دوسرے کے دل کی دھڑکنوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی آف لائن ہوتا ہے، تو اسے آخری مرتبہ ریکارڈ کی گئی دھڑکنوں کی معلومات ملتی ہے۔

جیری کہتے ہیں، ’ہم نے کبھی سونے یا ہیرے کی انگوٹھی نہیں چاہی۔ ہم کچھ مختلف چاہتے تھے اس لیے ہمیں اس انگوٹھی کا آئیڈیا پسند آیا کیونکہ اس میں کچھ نیا اور مختلف تھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایسا کرنے والا پہلا جوڑا ہیں۔‘

اس ریچارج ایبل انگوٹھی کو ‘ایچ بی رنگ’ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے چیک کمپنی ‘دی ٹچ’ نے بنایا ہے۔ ویسے 2016 میں بنایا گیا اس کا پہلا ایڈیشن محدود فروخت کے لیے مارکیٹ میں لایا گیا تھا۔ لیکن اب مارکیٹ میں سمارٹ رنگ میں دلچسپی بڑھی ہے اور اس کمپنی کی مصنوعات بھی مشہور ہو رہی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی کمپنی نے اس سال اسی طرح کی ایک اور پراڈکٹ مارکیٹ میں پیش کی ہے، جس کا نام ‘دی ٹچ لاکٹ’ ہے۔ اسے گلے میں ہار کی طرح پہنا جا سکتا ہے اور اس میں بھی سمارٹ رِنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔

اس کے ممکنہ گاہک وہ جوڑے ہیں جو اپنے پیاروں کے دل کی دھڑکن کو محسوس کرنا چاہتے ہیں لیکن روایتی شادی والی انگوٹھیوں کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔

مصنوعی ذہانت کا استعمال

جیری اور اندرزیج دنیا بھر کے ان بہت سے جوڑوں میں سے ایک ہیں جو اپنی شادی کی تقریبات میں ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔

شادی کی تصاویر لینے کے لیے ڈرون کے استعمال سے لے کر ڈیجیٹل شادی کی منصوبہ بندی کے ٹولز جیسے بجٹ اور مہمانوں کے بیٹھنے کے انتظامات تک، ٹیکنالوجی اب شادی کے تمام پہلوؤں میں استعمال ہو رہی ہے۔

ویب سائٹ ویڈنگ پلاننگ ان یو کے کی چیف ایڈیٹر زو برک کا کہنا ہے کہ شادی کی رسومات میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کیونکہ آج دنیا میں بہت سے لوگ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے سمارٹ فونز پر گزار رہے ہیں۔

زوئی کہتی ہیں ’میرے خیال میں اب یہ بہت عام سی بات ہے کہ آپ اپنی شادی کا منصوبہ اپنے فون پر بنا سکتے ہیں۔ شاید آپ نے اپنے شریک حیات سے بھی فون پر ملے ہوں گے۔‘

خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں ایک تہائی جوڑے اپنی شادی میں مہمانوں کو مدعو کرنے کے لیے واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں اور شادی کرنے والے 60 فیصد جوڑے سوشل میڈیا پر اپنی منگنی کا اعلان کرتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے اپنی شادی کے عہد اور تقریریں لکھنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں شادی کی منصوبہ بندی کی ویب سائٹ جوائے نے مصنوعی ذہانت کا ایک ٹول لانچ کیا ہے جو آپ کے لیے یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

اس کا نام ‘ویڈنگ رائٹرز بلاک اسسٹنٹ’ ہے۔ یہ چیٹ جی پی ٹی پر مبنی ہے، ایک چیٹ بوٹ اوپن اے آئی کی طرف سے تیار کیا گیا ہے، جو سان فرانسسکو میں قائم ٹیکنالوجی کمپنی ہے۔

جوائے کے شریک بانی اور سی ای او وکاس جوشی کا کہنا ہے کہ شادی کا عہد یا تقریریں لکھنے سے جڑی رومانویت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے مصنوعی ذہانت ان لوگوں کی مشکلات کو کم کرتی ہے جنھیں الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

وکاس جوشی کہتے ہیں ’ہم نے ایک سروے کیا تھا جں میں شامل 89 فیصد لوگوں نے کہا کہ انھیں شادی سے متعلق باتیں لکھنے میں کافی مشکل پیش ہوتی ہے۔‘

وکاس جوشی کے مطابق ’مصنوعی ذہانت کی اس ٹیکنالوجی کا مقصد انسانی جذبات کو بدلنا ہرگز نہیں ہے۔ لیکن، یہ بہت سے لوگوں کے لیے بہت مددگار ہے۔‘

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا نے ٹیکنالوجی پر مبنی شادیوں کے رجحان کو فروغ دیا تھا۔ جن جوڑوں نے اپنی شادی کو مزید ملتوی نہیں کیا، ان کی زوم پر ورچوئل شادی ہوئی یا انھوں نے اپنی شادی کی تقریب کو اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے مہمانوں کے لیے براہ راست نشر کیا۔

تاہم زو برک کا کہنا ہے کہ ورچوئل شادیوں کو اب بھی کووڈ کی پابندیوں کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور اب لوگ اپنی شادیاں لائیو سٹریم نہیں کرتے۔۔۔ بلکہ وہ اس وقت کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتے۔

شادی کے اخراجات میں کمی

جو جوڑے شدید مہنگائی کے باعث شادی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے پریشان ہیں ان کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال پیسہ بچانے کا نسخہ ہو سکتا ہے۔ وہ کاغذی دعوت ناموں کے بجائے ای کارڈ بھیج سکتے ہیں۔ یہ ماحولیات کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔

لندن میں مقیم شادیوں کی منصوبہ بندی کرنے والی روہتا پابلا کہتی ہیں ’یہ شادی کے اخراجات کو بچانے اور ماحولیات کے حوالے سے ذمہ داری دکھانے کا معاملہ ہے۔ آج کل زیادہ سے زیادہ لوگ ماحول کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘

اپنی شادی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر دکھاوا شاید اب آپ کو حیران نہیں کرتا ہو گا کیونکہ آج دنیا کے بہت سے لوگ سوشل میڈیا کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ شادی شدہ جوڑے ہوں یا تقریب میں مہمان، سبھی شادی کے دوران اور بعد میں تقریب کی ویڈیوز ٹک ٹاک یا انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہیں۔

اس سمت میں ایک نیا رجحان تقریب کے لیے کرائے پر ‘GIF بوتھ’ لینے کا ہے۔ یہ وہ فوٹو بوتھ ہیں جو چھوٹی تصویروں کے کولاج سے گفس (یا جِف) یا متحرک تصویریں بناتے ہیں۔ صارفین کو صرف اپنا موبائل نمبر درج کرنا ہوتا ہے، اور گِف فوری طور پر ان کے فون پر بھیج دیا جاتا ہے۔

روہیتا کہتی ہیں ’شادی کرنے والے جوڑے خصوصی تصاویر کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں اور انھیں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جوڑے ’انسٹاگرام کپلز‘ بننا چاہتے ہیں۔‘

لیکن جوڑوں کو اپنے ان مہمانوں کا بھی خیال رکھنا ہو گا جو ٹیکنالوجی کے استعمال میں اتنے تیز نہیں ہیں۔ یا وہ لوگ جو شادی کے دعوت نامے روایتی طریقے سے حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ڈیجیٹل دعوت نامہ

روہیتا پابلا کو جنوبی ایشیائی شادیوں کی تیاریوں میں مہارت حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بہت سے جوڑے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کی شادیوں میں ٹیکنالوجی پر مبنی آپشنز کے ساتھ ساتھ کچھ روایتی رسم و رواج کا امتزاج بھی ہو۔

مثال کے طور پر روایتی انڈین شادیوں میں یہ رواج ہے کہ دولہا اور دلہن شادی کا کارڈ اپنے خاندان کے افراد اور بزرگ مہمانوں کو خود دیتے ہیں۔

روہتا کہتی ہیں ’اس کے لیے شادی کے کچھ کارڈز چھاپے جاتے ہیں جو خاص طور پر والدین اور دادا دادی کے لیے ہوتے ہیں۔ اور ہماری عمر کے مہمانوں کو وہ ڈیجیٹل دعوت نامہ بھیجتے ہیں۔‘

وکاس جوشی نے مزید کہا کہ شادی سے متعلق ٹیکنالوجی کو ‘ہر پہلو کو آسان اور دلچسپ بنانے’ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال سے گریز کریں کیونکہ ایسا نہ ہو کہ حقیقی شادیوں کی خوبصورتی اور رومانس کہیں کھو جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ شادی کی اصل خوشی دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ رسومات ادا کرنے میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں